طب الصادق (علیہ السلام)

آقائی نصیر الدین صادقی تہرانی


 

ارشاد علی ابنِ ابی طالب

لا تمینو االقلوب بکثرة الطعام والشراب فانّ القلوب تموت کما یموت الزّرع اذا اکثر علیہ الماء۔۔ یعنی اپنے دِلوں کو زیادہ کھانے پینے کی طرف مائل نہ کرو تمہارے دل ایک مزروعہ زمین کے مانند ہیں جس میں اگر حد سے زیادہ پانی دیا جائے تو زراعت کو بجائے فائدہ کے نقصان دیتا ہے بلکہ زراعت ہی کو ختم کر دیتا ہے ۔ ایک دوسرے مقام پر امیرالمومنین اپنے فرزند کو رازِ حکمت سے مطلع فرماتے ہیں امیرالمومنین:۔ اے میرے فرزند، کیا چار باتیں میں تمہیں ایسی تعلیم نہ کروں جو تمہیں علم طب سے بے نیاز کر دیں ۔ فرزند:۔ والد گرامی ضرور فرمائیے ۔ امیرالمونین:۔ سُنو اور یاد رکھو! ۱)۔ دَستر خوان پر اُس وقت تک ہر گز مت بیٹھو جب تک اِشتہا کامل نہ ہو۔ ۲)۔ اور دَستر خوان سے فورًا کھڑے ہو جاوٴ جب ایک لقمہ کی ابھی اشتہا باقی ہو۔ ۳)۔غذا کو خوب چبا کر کھاوٴ ۴)۔ جب بسترِ خواب پر جاوٴ تو خیال رکھو کہ شِکمِ طعام سے پُر بار نہ ہو۔ اگر اِ س پر عمل کرو گے تو کسی طبیب کے محتاج نہ رہو گے ۔ ارشادِ دیگر:۔ مین اراداالبقاء ولا بقاء فلیباکر الغذاء ویوخر العشاء ویقل عشیان النساء ولیخفف الرَداء الدّین۔ یعنی اگر کوئی شخص چاہے کہ ہمیشہ زندہ رہے ۔(اگرچہ بقاء سوائے خدا کے اور کسی کو نہیں) یعنی اگر چاہے کہ عمر طولانی ہو۔ تو صبح کا کھانا جلدی کھائے اور شام کا کھانا دیر میں ، اور ہم بستر کم ہوقرض سے سُبکدوش ہو۔ ارشاد رسول:۔اپنی بیماریوں کا علاج کرو اِس لئے کہ خدا نے کوئی مرض ایسا نہیں دیا جس کی دوا نہ پیدا کی ہو۔ مگر موت جس کا کوئی علاج نہیں ۔ نیز فرمایا جس نے بیماری خَلق کی اُس نے علاج بھی پیدا کیاہے ۔ اور بہترین علاج، حجامت۔ فصْد۔ اور کالا دانہ ہے ۔پھر ارشاد فرمایا کہ بُخار کی حرارت کو پانی سے سرد کرو۔ جب آپ کو کبھی بخار آ جاتا تو آپ اپنے ہاتھ پانی میں ڈالتے ۔ یہ بار ہا کا تجربہ ہے کہ بُخار کے مریض کو پانی ہاتھ پر ڈالنے سے آرام ہو گیا ہے ۔ بشرطیکہ وہ کسی اور اندرونی بیماری میں مبتلا نہ ہوبلکہ بہتر یہ ہے ’گُلِ خطمی‘ کو پانی میں جوش دے کر سرد کر کے اُس میں ہاتھ اور پاوٴں ڈالے جائیں ۔ اقوال امیرالمومنین:۔العلم علمان۔ علم الابدان و علم الادیان ۱۔ علم دو ہیں:۔ بدن کا علم اور دین کا علم ۲۔عِلم چار ہیں:۔ علم فقیہہ(برائے حفظِ دین) عِلم طِب (برائے عِلاج و معالجہ) عِلم نحو برائے آداب و گفتگو) علمِ نجوم( برائے شناختن بعض اوقات) ۳۔ بُخار کی حرارت کو ’گُل بَنفشہ‘ اور آب سرد کے ذریعہ دور کرو

 

دَاستانِ طبی امیرالمومنین

قضایائے امیرالمومنین میں سے صرف دو قضئے یہاں نقل کئے جا رہے ہیں ۔ جن عُلماء فریقین نے نقل کیا ہے ۔ اسعد ابنِ ابراہیم اودبیلی مالکی جو علمائے اہلسنت سے ہیں، وہ عمار ابن یاسِر اور زید ابن اَرقم سے روایت کرتے ہیں کہ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب ایک روز ایوانِ قضا میں تشریف فرما تھے ہم سب آپ کی خدمت میں موجود تھے کہ ناگہاں ایک شوروغُل کی آواز سُنائی دی۔ امیرالمومنین نے عمّا ر سے فرمایا کہ باہر جا کر اِس فریادی کو حاضر کرو۔ عمار کہتے ہیں میں باہر گیا اور ایک عورت کو دیکھا جو اونٹ پر بیٹھی فریاد کر رہی تھی۔ اور خدا سے کہ رہی تھی ۔ اے فریاد رسِ بیکساں ! میں تجھ سے انصاف طلب ہوں اور تیرے دوست کو تجھ تک پہونچنے کا وسیلہ قرار دے رہی ہوں ۔ مجھے اس ذِلت سے نجات دے اور تو ہی عِزّت بخشنے والا ہے ۔ میں نے دیکھا کہ ایک کثیر جماعت اُونٹ کے گِرد شمشیر برہنہ جمع ہے ۔ کچھ لوگ اس کی موافقت اور حمایت میں اور کچھ اس کی مخالفت میں گفتگو کر رہے ہیں ۔ میں نے اُن سے کہا ، امیر المومنین علی ابن ابی طالب کا حکم ہے کہ تم لوگ ایوانِ قضا میں چلو۔ وہ سب لوگ اس عورت کو لے کر مسجد میں داخل ہوئے ۔ ایک مجمع کثیر تماشائیوں کا جمع ہو گیا۔ امیرالمومنین کھڑے ہو گئے ۔ اور حمد و ثناء خدا و ستائشِ محمد مصطفٰی کے بعد فرمایا! بیان کرو کہ کیا واقعہ ہے اور یہ عورت کیا کہتی ہے ۔ مجمع میں سے ایک شخص نے کہا، یا امیرالمومنین ! اِس قضیہ کا تعلق مجھ سے ہے ۔ میں اِس لڑکی کا باپ ہوں، عرب کے نامی گرامی معزز و متموّل مجھ سے اِسکی خواستگاری کرتے تھے مگر اِس نے مجھے ذلیل کر دیا۔امیرالمومنین نے لڑکی کی طرف ’رُخ ‘ کیا اور فرمایا کہ جو کچھ تیرا باپ کہتا ہے کیا یہ سچ ہے؟ لڑکی روئی اور چِلائی، یا حضرت! پروردگار کی قَسم میں اپنے باپ کی بے عزتی کا باعث نہیں ہوئی ہوں ۔ بوڑھا باپ آگے بڑھا اور بولا یہ لڑکی غلط کہتی ہے ۔ یہ بے شوہر قانونی کے حاملہ ہے ۔ امیرالمومنین لڑکی کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ کیا تو، حاملہ نہیں ہے اور کیا تیرا باپ جھوٹ بول رہا ہے ۔ آقا یہ سچ ہے کہ میں شوہر نہیں رکھتی لیکن آپ کے حق کی قسم، میں کسی خیانت کی مرتکب نہیں ہوں ۔ پھر امیرالمومنین نے کوفہ کی ایک مشہور ’دایہ‘ کو بُلوایا اور کہا کہ اس کو پَسِ پردہ لے جا کر جائزہ لو اور مجھے صحیح حالات سے مطلع کرو۔ ’دایہ ‘ لڑکی کو پسِ پردہ لے گئی بعدِ تحقیق خدمت ِ امیرالمومنین میں نہایت حیرت سے عرض کرنے لگی۔ مولا! یہ لڑکی بے گناہ ہے کیونکہ ’باکرہ‘ ہے کسی مرد سے ہمبستر نہیں ہوئی مگرپھر بھی حاملہ ہے ۔ امیرالمومنین لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا، تم میں سے کوئی شخص ایک برف کا ٹکڑا کہیں سے لا سکتاہے ۔ لڑکی کے باپ نے کہا کہ ہمارے شہر میں اس زمانہ میں بھی برف بکثرت ملتا ہے مگر اس قدر جلد وہاں سے نہیں آ سکتا۔۔! امیرالمومنین نے بہ طریقِ اعجاز ہاتھ بڑھایا اور قطعہ برف ہاتھ میں تھا۔’دایہ‘ سے فرمایا کہ لڑکی کو مسجد سے باہر لے جاوٴ اور ظَرف میں بَرف رکھ کر لڑکی کو برہنہ اس پر بٹھا دو اور جو کچھ خارج ہو مطلع کرو۔ ’دایہ‘ لڑکی کو تنہائی میں لے گئی، برف پر بٹھایا، تھوڑی دیر میں ایک سانپ خارج ہوا۔ ’دایہ ‘ نے لے جا کر امیرالمومنین کو دِکھلایا۔ لوگوں نے جب دیکھا تو بہت حیران ہوئے ۔ پھر امیرالمومنین نے لڑکی کے باپ سے فرمایا کہ تیری لڑکی بے گناہ ہے ۔ کیونکہ ایک کیڑہ تالاب میں اس کے نہاتے وقت ’داخل رحم‘ ہو گیا۔ جس نے اندر ہی اندر پرورش پا کر یہ صورت اختیار کی ( یہ تھی بغیر ایکسرے کے طبیبِ روحانی و جسمانی کی مکمل تشخیص) داستان دیگر:۔ اِس واقعہ کو یا فعی نے اپنی مشہور کتاب روضة الریاحین میں صفحہ ۴۲ پر لکھا ہے ۔ ایک مرتبہ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب، بصرہ کی ایک شاہراہ سے گذر رہے تھے دیکھا ایک مقام پر کثیر مجمع ہے اور لوگ جوق در جوق چلے آ رہے ہیں ، آپ بھی بڑھے اور دیکھا کہ مجمع کے درمیان ایک خوش پوش، خوش رو جوان ہے ۔ لوگ شیشیوں میں کوئی اپنا خون، کوئی اپنا ادرار(پیشاب) لئے اس کو دکھلا رہے ہیں ۔ وہ ہر ایک کو اُس کی مرض کے مطابق دوا تجویز کررہا ہے ۔ لوگوں سے معلوم ہوا کہ یہ بڑا مشہور و معروف حاذِق طبیب ہے ۔ امیرالمومنین آگے بڑھے، سلام کیا، اور فرمایا! کیا دردِ گناہ کی بھی کوئی دوا آپ کے پاس ہے؟ طبیب:۔ (بغور دیکھ کر بولا) گناہ بھی کوئی درد یا بیماری ہے؟ امیرالمومنین:۔ نے فرمایا، ہاں ۔ گناہ بڑی مُہلک تَرین بیماری ہے طبیب:۔ تا دیر سر جھکائے سوچتا رہا، بعد تامل کہا۔ اگر گناہ بیماری ہے تو کیا کوئی اسکا علاج آپ کے پاس ہے؟ امیرالمومنین:۔ بیشک میں گناہ کا علاج جانتا ہوں ا ور درد کی دوا رکھتا ہوں ۔ طبیب:۔ ذرا میں بھی سنوں کہ اس کی کیا دوا ہے ۔ اور کون سا نسخہ ہے جس کے ذریعہ آپ اسکا علاج کرتے ہیں ۔ امیرالمومنین:۔ (طبیب سے فرمایا) اچھا اُٹھو اور آوٴ، ذرا میرے ہمراہ ’باغِ ایمان میں چلو، وہاں پہنچ کر ’نیت کے درخت کے کچھ ریشے ۔ دانہ پشیمانی قدرے ۔برگِ تدبر قدرے ۔ تخم پرہیزگاری قدرے ۔ ثمر فہم قدرے ۔ شاخہائے یقین قدرے ۔ مغز اِخلاص قدرے ۔ پوست سعئی قدرے ۔ زہر مُہرہ تواضع مختصرً۱ اور توبہ کا پچھلا حصہ لو ترکیب:۔اِن سب دواوٴں کو باہوش و حواس اِطمینان قلب سے توفیق کے ہاتھوں اور تصدیق کی اُنگلیوں سے تحقیق کے پیالہ میں ڈالو۔ اور آنکھوں کے پانی میں بھگو دو۔ کافی دیر کے بعد پھر سب کو امید کی پتیلی (دیگچی) میں ڈال کر شوق کی آگ میں جوش دو۔ اس قدر کہ مادئہ فاسدہ فنا ہو جائے اور خالص چیز رہ جائے ۔ اِس کے بعد تسلیم و رضا کی طشتری میں رکھ کر توبہ و استغفار کی پھونکوں سے ٹھنڈا کرو۔ پھر اسے ایسی جگہ بیٹھ کر جہاں سوائے خدا کے اور کوئی نہ ہو ۔ پی لو‘ ۔ یہ ہے وہ دوا جو گناہ کے درد کو دفع اور مصیبت کے زخموں کو بھر دیتی ہے ۔ پھر کوئی درد یا زخم کا اثر باقی نہیں رہتا۔ طبیب یہ سن کر حیران ہو گیا۔ کچھ دیر خاموش رہ کر وہ آگے بڑھ کر امیرالمومنین کے قدموں پر گر گیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ پیغمر اسلام خاتم المرسلین جو اپنی زمانہ حیات بابرکات میں امراض روحانی و جسمانی کے حقیقی طبیب تھے ۔ جب بہ اشارہ حبیب محبوب بزم لاھوتی کی طرف مائل ہوا تو لطفِ خداوندی کا تقاضہ ہوا کہ اپنے بندوں کو بے سرپرست نہ چھوڑے، چنانچہ غروب آفتاب سے قبل ہی چند ستارونکی روشنی کا انتظام فرمایا تا کہ بندوں کے روحانی اور جسمانی امراض کا مداوا ہوتا رہے، ہر دور کے اسلامی دانشوروں نے آئمہ طاہرین کے طبی فرمان کو بھی کتابی صورت میں اکثر پیش کیا ہے ازاں جملہ طب النبی۔ طِب الرضا۔ طب الائمہ ہے جس میں طب الرضا زیادہ معروف ہے ۔ جو امام علی رضا علیہ السلام نے مامون رشید ( خلیفہ بنی عباسیہ) کی خواہش پر تحریر فرمائی جس کو مامون نے سونے کے پانی سے لکھوایا۔ جس کی وجہ سے کتاب نے رسالہ ذہبیہ نام پایا۔ مامون کے دور میں اگرچہ مشہور و معروف اطباء موجود تھے ۔ مگر مامون رشید ہمیشہ امام علی رضا علیہ السلام کی طرف رجوع کرتا ۔

 

دورِ ترقی علمی

امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانے کو علمی اِرتقاء اور ترقی کا زمانہ کہا جاسکتا ہے کیونکہ عوام و خواص ہر ایک اس زمانے میں تحصیلِ علم کی طرف متوجہ تھا۔ اور اس زمانے کا ماحول کاملاً اسرارِ قرآنی کی تبلیغاور انکشاف کے لئے سازگار تھا۔ اِس علمی ماحول ہی کی وجہ سے امام کو اسرارِ علومِ دینی کے حتی الوسع اِنکشاف کا موقع ملا۔ آپ کے حکیمانہ کلمات علمی وطبی نظریات اور دینی بیانات کی پُرجوش نہر تھی جو تشنگانِ معرفت کو سیراب کرتی چلی جا رہی تھی۔ تشنگانِ دانش اور بیمارانِ جہل دور دروازے سے آتے اور جہالت کی بیماری سے شفایاب ہوتے ۔ مورخین آپ سے روایت کرتے اور دانشور کتابی صورت میں آپ کے فرمودات جمع کرتے تھے حتیٰ کہ حفاظ اور محدثین جب کچھ بیان کرتے تو حوالہ دیتے کہ امام جعفر صادق نے یہ ارشاد فرمایاہے، اب ہم آپ کے دریائے حکمت کے چند قطرے اور گلستانِ طب کے پھول نہایت اِختصار سے پیش کر رہے ہیں ۔ مُعارفِ اِمام از کتب غیر نیست جو لوگ عرب کے ماحول اور عرب کی تاریخ سے واقف ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ معارف و علوم امام آپ کے ہمعصر عقلاء کی تعلیمات سے بالکل مختلف ہیں لہذا ظاہر ہوا کہ آپ نے کسی مدرسہ میں تعلیم حاصل نہیں کی اور نہ کسی اُستاد کے سامنے زانوئے اَدب تہہ کیا۔ آپ کا علم۔ عِلمِ نبوت کا ایک پر تو ہے جس کا اَصل سرچشمئہِ وحی اور پیغامِ خداوندی ہے ۔ اسی سر چشمہ اور علم نبوتی کا دھارا حضرت علی علیہ السلام ہیں جن سے فرزندے بہ فرزندے امام جعفر صادق علیہ السلام تک بہ فیضانِ وحی پہونچتا ہے ۔ مختصر یہ کہ معارفِ جعفری، اَسرار قرآنی کا ایک راز۔ انوارِ نبوت کا ایک نور۔ فیضانِ امامت کا ایک روشن فیض ہے ۔ اَب ہم اپنے دعوے کے ثبوت میں حضرت امام جعفر صادق کے کچھ طبی مناظرات نقل کر رہے ہیں اور فیصلہ قارئین و ناظرین کی عقل سلیم پر چھوڑتے ہیں ۔ طبِ ہندی:۔ طِبِ ہندی ’تمام بیماریوں کی جڑ اور اصل کثافت ِ خون کو ٹھہراتی ہے اور مُصفی خون اَدویہ سے اسکا علاج کرتی ہے ۔ بیماریاں اگرچہ مختلف ہوتی ہیں مگر وہ صرف تصفیئہ خون سے سب کا علاج کرتی ہے ۔ اَطباء ہندی مادہِ فاسد سے قطع نظر کرکے تصفیئہ خون کی کوشش کرتے ہیں ۔ کثیف خون کی کثافت کے دُور کرنے کی طرف تو متوجہ نہیں ہوتے بلکہ تازہ اور نیا پاک خون پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ طبِ ہندی میں پرہیز زیادہ تر فاقہ کی صورت میں ہے ۔ مگر اسلام میں پرہیز صرف ان چیزوں سے ہے جو مُضر ہوں ۔

 

گفتگو امام صادق با طبیبِ ہندی

امام جعفر صادق جب منصور کے دربار میں پہونچے تو وہاں ایک طبیب ہندی ایک کتاب طب ہندی منصور کو پڑھ کر سنا رہا تھا، آپ بھی بیٹھ کر خاموشی سے سُننے لگے ۔ جب وہ فارغ ہوا تو آپ کی طرف متوجہ ہوا۔ اور منصور سے پوچھا، یہ کون ہیں ۔منصور نے جواب میں کہا ، یہ عالمِ آلِ محمد ہیں ۔ طبیب ہندی آپ سے مخاطب ہوا اور بولا، آپ بھی اس کتاب سے کچھ فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا، نہیں ۔ اُس نے کہا، کیوں؟ آپنے فرمایا جو کچھ میرے پاس ہے وہ اس سے کہیں بہتر ہے جو تمہارے پاس ہے ۔ اس نے کہا، آپ کے پاس کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہم گرمی کا سردی اور سردی کا گرمی سے ۔ رطوبت کا خشکی سے اور خشکی کا رطوبت سے علاج کرتے ہیں ۔ اور جو کچھ رسول خدا نے فرمایا ہے اس پر عمل کرتے ہیں ۔ اور انجام کار خدا پر چھوڑتے ہیں ۔ طبیب ہندی نے کہا وہ کیا ہے؟ امام:۔ فرمودئہ رسول یہ ہے کہ شِکم پر بیماری کا گہرا اثر ہوتا ہے اور پرہیز ہر بیماری کا علاج ہے جسم جس چیز کا عادی ہو گیا ہو اُس سے اُس کو محروم نہ کرو۔ طبیب ہندی:۔ مگر یہ چیز طِب کے خلاف ہے امام:۔شاید تمہارا یہ خیال ہے کہ میں نے یہ علم کتاب سے حاصل کیا ہے طبیب ہندی:۔اسکے علاوہ بھی کیا کوئی صورت ہے امام:۔میں نے یہ علم سوائے خدا کے کسی سے حاصل نہیں کیا۔ لہذا بتلاوٴ ہم دونوں میں کس کا علم بلند و برتر ہے ۔ طبیب: کیا کہاجائے میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ شاید میں آپ سے زیادہ عالم ہوں ۔ امام:۔اچھا میں تم سے کچھ سوال کرسکتا ہوں؟ طبیب:۔ ضرور پوچھئے ۔ امام:۔یہ بتاوٴ کہ آدمی کی کھوپڑی میں کثیر جوڑ کیوں ہیں،سپاٹ کیوں نہیں طبیب:۔کچھ غور و خوض کے بعد ، میں نہیں جانتا امام:۔اچھا پیشانی پر سر کی طرح بال کیوں نہیں ہیں طبیب:۔میں نہیں جانتا امام:۔پیشانی پر خطوط کیوں ہیں طبیب :۔ معلوم نہیں امام:۔آنکھوں پر اَبرو کیوں قرار دیئے گئے ہیں ۔ طبیب:۔میں نہیں جانتا امام:۔ آنکھیں بادام کی شکل کی کیوں بنائی ہیں طبیب:۔معلوم نہیں امام:۔ناک دونوں آنکھوں کے درمیان کیوں ہے طبیب:۔مجھے معلوم نہیں امام:۔ ناک کے سوراخ نیچے کی طرف کیوں ہیں طبیب:۔ معلوم نہیں امام:۔ہونٹ، منھ کے سامنے کیوں بنائے ہیں طبیب :۔ معلوم نہیں امام:۔ آگے کے دانت باریک و تیز اور داڑھیں چپٹی کیوں ہیں طبیب :۔ معلوم نہیں امام:۔مرد کے داڑھی کیوں ہے طبیب :۔ معلوم نہیں امام:۔ہتھیلی اور تلوے میں بال کیوں نہیں ہیں طبیب:۔ معلوم نہیں امام:۔ناخُن اور بال بے جان کیوں ہیں ۔ طبیب :۔ معلوم نہیں امام:۔دِل صنوبری شکل کا کیوں ہے طبیب:۔ معلوم نہیں امام:۔پھیپھڑے کے دو حصے کیوں ہیں اور متحرک کیوں ہیں ۔ طبیب:۔معلوم نہیں امام:۔جگر گول کیوں ہے طبیب:۔معلوم نہیں امام:۔گُھٹنے کا پیالہ آگے کی طرف کیوں ہے ۔ طبیب:۔ معلوم نہیں امام:۔ میں خدائے داناوبرتر کے فضل سے ان تمام باتوں سے واقف ہوں ۔ طبیب:۔فرمایئے میں بھی مستفید .

جوابات ۱)۔آدمی کی کھوپڑی میں مختلف جوڑ اس لئے رکھے گئے ہیں تا کہ دردِ سر اُسکو نہ ستائے ۲)۔سر پر بال اِس لئے اُگائے تاکہ دماغ تک روغن کی مالِش کا اثر جاسکے،اور دماغ کے بُخارات خارج ہو سکیں، نیز سردی و گرمی کا بہ لحاظِ وقت لباس بن جائے ۳)۔پیشانی کو بالوں سے خالی رکھا تا کہ آنکھوں تک نور بے رکاوٹ آسکے ۔ ۴)۔ پیشانی پر خطوط اِس لئے بنائے ہیں تا کہ پسینہ آنکھوں میں نہ جائے ۔ ۵)۔آنکھوں کے اوپر اَبرواِسلئے بنائے تا کہ آنکھوں تک بقدر ضرورت نور پہنچے ۔ دیکھوجب روشنی زیادہ ہو جاتی ہے تو آدمی اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر چیزوں کو دیکھتا ہے ۔ ۶)۔ناک دونوں آنکھوں کے درمیان اس لئے بنائی ہے تاکہ روشنی کو برابر دو حصوں میں تقسیم کردے تاکہ معتدل روشنی آنکھوں تک پہونچے ۷)۔آنکھوں کو بادام کی شکل اس وجہ سے دی تاکہ آنکھوں میں جو دوا سلائی سے لگائی جائے اُس میں آسانی ہو اور میل آنسووٴں کے ذریعہ بہ آسانی خارج ہو سکے ۔ ۸)۔ناک کے سوراخ نیچے کی طرف اِسلئے بنائے تاکہ مغز کا میل وغیرہ اس سے خارج ہو اور خوشبو بذریعہ ہوا دماغ تک جائے اور لقمہ منھ میں رکھتے وقت فورًامعلوم ہو جائے کہ غذا کثیف ہے یا لطیف۔ ۹)۔ہونٹ، مُنھ کے سامنے اِسلئے بنائے کہ دماغ کی کثافتیں جو ناک کے ذریعہ آئیں منھ مین نہ جاسکیں ۔ اور خوراک کو آلودہ نہ کردیں ۔ ۱۰)داڑھی اسلئے بنائی تاکہ مرد اور عورت میں تمیز کی جاسکے ورنہ بڑا شرمناک طریقہ اختیار کرنا پڑتا۔ ۱۱)۔آگے کے دانت باریک اور تیز اِس لئے بنائے گئے تاکہ غذا کو کاٹ کرٹکڑے ٹکڑے کر سکیں اور داڑھوں کو چوڑے(چَپٹے) اِس لئے بنائے تاکہ وہ غذا کو پیس سکیں ۔ ۱۲)۔ہاتھوں کی ہتھیلیاں بالوں سے اِس لئے خالی رکھیں تاکہ قوتِ لامسہ(چھونے کی قوت) صحیح کام انجام دے سکے ۔ ۱۳)۔ناخُن اور بالوں میں جان اِس لئے نہیں ، کہ انکے کاٹنے میں تکلیف کا سامنا باربار نہ ہو۔ ۱۴)۔دِل صنوبری شکل اِسلئے دی گئی تاکہ اسکی باریک نوک پھیپھڑوں میں داخل ہو کر انکی ہوا سے ٹھنڈی رہے ۔ ۱۵)۔پھیپھڑوں کو دو حصوں میں اس وجہ سے تقسیم کیا گیا ہے کہ دِل دونوں طرف سے ہوا حاصل کر سکے ۔ ۱۶)۔جِگر کو گول اِسلئے بنایا ہے تاکہ معدہ کی سنگینی اپنا بوجھ اس پر ڈال کر زہریلے بُخارات کو خارج کر دے ۔ ۱۷)۔گُھٹنے کا پیالہ آگے کی طرف اسلئے ہے تاکہ آدمی بہ آسانی را ہ چل سکے، ورنہ راستہ چلنا مشکل ہو جاتا۔ اِنسان کے جسم میں ہڈیاں کتنی ہیں؟ طبیبِ نصرانی نے بڑے اِحترام سے امام سے درخواست کی کہ اِنسان کے جسم کی بناوٹ کی کچھ وضاحت فرمائیں ۔ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا نے اِنسان کو بہ لحاظ ہیکل اِستخوانی دو سو آٹھ حصوں سے ترکیب دیا ہے ۔ اِنسان کے جسم میں بارہ اعضاء ہیں ۔ سر، گردن، دو(۲) بازو، دو کلائی، دو (۲)ران،دو(۲) ساق (پنڈلیاں) اور دو پہلو اور تین سو ساٹھ(۳۶۰)رگیں ، ہڈیاں،پٹھے، اور گوشت۔۔ رَگیں جسم کی آبیاری کرتی ہیں ۔ھڈیاں بدن کی حفاظت کرتی ہیں ۔اور گوشت ہڈیوں کا تحفظ کرتا ہے ۔ اور اس کے بعد پَٹھے گوشت کی حفاظت کرتے ہیں ۔۔ ہر ہاتھ میں اِکتالیس ہڈیاں ہیں ۔پینتیس ہڈیوں کا ہتھیلی اور انگلیوں سے تعلق ہے ۔اور دو کا تعلق کلائی سے اور ایک کا تعلق بازو سے اور تین کا کندھے سے تعلق ہے ۔ ہر پیر میں تینتالیس ہڈیاں پیدا کی ہیں ۔ جن میں پینتیس قدم میں اور دُو پنڈلی میں اور تین زانو میں اور ایک ران میں اور دو نشیمن گاہ میں یعنی بیٹھنے کی جگہ میں ۔۔ ریڑھ کی ہڈی میں اَٹھارہ ٹکڑے ہیں ۔ گردن میں آٹھ، سر میں چھتیس ٹکڑے ہیں ۔ اور منھ میں اٹھائیس یا بتیس دانت ہیں ۔ اِس زمانہ میں جو ترکیب اِنسان کی ہڈیوں کو شمار کیا گیا ہے اُس میں اور فرمانِ امام میں اگر تھوڑا فرق ہو تو وہ صرف اس وجہ سے ہے کہ بعض ان دو ہڈیوں کو جو بہت ہی متصل ہیں ایک ہی شمار کیا گیا ہے ۔ امام علیہ السلام نے صدیوں قبل بغیر کسی آلہ اور فن معلومات کے تحقیق طِبی فرمائی ہے وہ آپ کے علم ِ امامت کا بَیّن ثبوت ہے ۔ دورانِ خون یہ مسئلہ جو اطباء ِ مشرق نے بعد میں معلوم کیا ہے رازی کا بیان ہے کہ اسکو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے صدیوں پہلے کتاب توحیدِ مفضل میں بیان فرما دیا ہے ۔ امام علیہ السلام نے اپنے شاگرد( مفضل)کو مخاطب کر کے فرمایا، اے مفضل! ذرا غذا کے بدن میں پہونچنے پر غور کرو، اور دیکھو کہ اس حکیم مطلق نے اس عجیب کارخانہ کو کس حکمت اور تدبیر سے چَلایا ہے ۔ غذا منھ کے ذریعہ پہلے معدہ میں جاتی ہے ۔ پھر حرارتِ غریری اس کو پکاتی ہے اور پھر باریک رگوں کے ذریعہ جگر میں پہونچتی ہے ۔ یہ رگیں غذا کو صاف کرتی ہیں تا کہ کوئی سخت چیز جگر کو تکلیف نہ پہونچا دے ۔ کیونکہ جگر ہر عضو سے زیادہ نازک ہے ۔ ذرا اللہ کی اس حکمت پر غور کرو کہ اُسنے ہر عضو کو کس قدر صحیح مقام پر رکھاہے ۔اور فُضلہ کے لئے کیسے ظروف(پِتہ، تِلّی اور مثانہ) خلق فرمائے تاکہ فُضلات جسم میں نہ پھیلیں، اور تمام جسم کو فاسد نہ بنا دیں ۔ اگر پِتہ نہ ہوتا تو زَرد پانی خون میں داخل ہو کر مختلف بیماریاں مثلًا یرقان وغیرہ پیدا کر دیتا۔ اگر مثانہ نہ ہوتا تو پیشاب خارج نہ ہوتا اور پیشاب خون میں داخل ہو کر سارے جسم میں زہر پھیلا دیتا۔ v

 



back 1 2 3 next