طب الصادق (علیہ السلام)

آقائی نصیر الدین صادقی تہرانی


ہم کس طرح دیکھتے اور سُنتے ہیں

یہ مسئلہ دانش اور طب کا مسلمہ ہے کہ سننے کے واسطے دو چیزوں کی ضرورت ہے ایک مسافت دوسرے وہ ذریعہ جو آواز کو کانوں تک پہونچا ئے اور اس ذریعہ کو ہوا کہتے ہیں ۔ اگر ہوا نہ ہو تو آواز کو نہیں سُن سکتے ۔ آنکھ جن چیزوں کو دیکھتی ہے اُس میں بھی واسطہ کی ضرورت ہے ۔ اور وہ نور اور روشنی ہے خواہ سورج کی ہو یا چاند ستاروں کی یا آگ کی۔ خلاصہ یہ کہ بغیر ہوا کے ذریعہ سُننا، اور بغیر روشنی کے دیکھنا ممکن نہیں ہے ۔ یہ مسائل جن پر سے بعد میں پردہ اُٹھایا گیا ہے، ایک ہزار دو سو سال (۱۲۰۰) پیشتر امام اپنے شاگرد مفضل کو تعلیم فرما گئے ہیں ۔ آپ مفضل شاگرد سے فرماتے ہیں، اے مفضل! ذرا حواسِ خمسہ پر نظر ڈالو، خدا نے آنکھوں کو پیدا کیا تاکہ رنگوں کو دیکھے ۔ اگر رنگ ہوتے اور چشم نہ ہوتی تو رنگ بیکار تھے ۔ اگر چشم ہوتی اور رنگ نہ ہوتے تو چشم بیکار ہو تی۔ کانوں کو پیدا کیا تاکہ آواز یں سُنے ۔ اگر صدا(آواز) ہوتی اور کان نہ ہوتے، آواز بیکار تھی۔ اور اگر صدا نہ ہوتی اور کان ہوتے تو کان بیکار ہوتے ۔ حدیثِ ھلیلہ:۔ حدیثِ مذکور ایک وہ خط ہے جو حضرت امام جعفر صادق نے اَثبات توحیدِ خداوندی میں اپنے شاگرد مُفضل ابنِ عمر کو لکھا۔ یہاں اس خط کا صرف وہ حصہ لکھا جا رہا ہے جو اِس موضوع سے متعلق ہے ۔ یہ تحریر اِس اَمر کی گواہ ہے کہ ہمارے مذہبی پیشوا’گِیاہ شناسی‘ میں بھی کِس قدر ماہر تھے ۔ محل حدیث:۔ مُفضل ابنِ عمر جعفی نے اِمام جعفر صادق کو ایک خط لکھا کہ یہاں کچھ لوگ منکرِ خدا،توحیدِ خداوندی اور اسکی رُبوبیت سے اِنکار کرتے ہیں ۔ آپ اُنکا جواب حسب مصلحت تحریر فرما دیں ۔ جواب:۔بِسمِ اللہ ِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ خدائے بخشندہ و مہربان ہمیں اپنی اِطاعت کی توفیق عطا فرمائے ۔اور اپنی رحمتوں سے نوازے ۔تمہارا خط پہونچا، جن منکرینِ خدا کی تم نے شکایت کی ہے، یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے گناہ کے دروازے اپنے لئے کھول رکھے ہیں ۔ اور ہر دروازے سے ہواوہوَس کے لشکرِ بے خوف اُن تک پہونچ رہے ہیں ۔ خواہشِ نفس اُن پر غالب آ چکی ہے ۔ شیطان نے ان کے دِلو ں پر پورا پورا قبضہ جما لیا ہے اور خدا ایسے گناہ گاروں کے قلوب پر مُہر لگا دیتا ہے ۔ میں اپنے مناظرات میں سے ایک واقعہ ’ہندی طبیب کا جو اکثر گمراہی کی باتیں کیا کرتا تھا، لِکھ رہا ہوں ۔۔۔ ۔۔میں ایک روز اس کی طرف سے گذرا دیکھا کہ وہ ہلیلہ(ہَڑ) کوٹنے میں مشغول ہے، وہ مجھے دیکھ کر پھر وہی جاہلانہ گفتگو کرنے لگاَ ہندی طبیب کا دعوٰی تھا کہ دُنیا ہمیشہ باقی رہے گی۔ ایک دَرخت خشک ہوتا ہے تو دوسرا درخت اُگتا ہے ۔ ایک مرتا ہے تو دوسرا پیدا ہوتا ہے ۔ اُسکا خیال تھا کہ خدا کا عقیدہ محض ایک دعوٰی ہے جسکی کوئی دلیل موجود نہیں،خدا کا عقیدہ لوگوں نے اپنے بزرگوں سے تقلیدًا حاصل کیاہے ۔ وہ یہ بھی کہتا تھا کہ جملہ موجودات مختلف ہوں یا متحد، ظاہر ہوں یا پوشیدہ، وہ حواسِ پنجگانہ سے پہچانے جاتے ہیں ۔ اُس نے مجھے دیکھ کر پھر وہی تذکرہ چھیڑا اور کہنے لگا کہ ذرا مجھے بھی تو بتلاوٴ کہ آپ نے اپنے خدا کو کیسے پہچان لیا؟ حالانکہ ہر چیز جسکو قلب پہچانتا ہے ۔ حواسِ خمسہ ہی کے ذریعے پہچانی جاتی ہے ۔ امام نے فرمایا، اے طبیب ہندی ! مجھ سے وعدہ کر، اگر میں وجودِ خدا کو اِسی دَوا کے ذریعے جسے تو کوٹ رہاہے ثابت کردوں تو تُو وجودِ باری کا اِقرار سچے دل سے کر لے گا۔ طبیب:۔ ہاں میں اِقرار کرتا ہوں امام:۔ کیا تو اس بات کو مانتا ہے کہ ایک زمانہ ایسا بھی گذر ا کہ اُس وقت لوگ طب سے بے خبر اور ان دواوٴں کے فائدے اور ضرر سے ناواقف تھے ۔ طبیب:۔ہاں ایسا طویل زمانہ گذرا ہے ۔ امام:۔ پھریہ تمام باتیں آدمیوں کو کیسے معلوم ہوئیں؟ طبیب:۔تجربہ اور قیاس سے ۔ امام:۔یہ کیسے لوگوں کے دل میں آیا کہ ان کو آزمانا چاہئے ۔ اور یہ کیسے سمجھے کہ اشیاء کا تجربہ اور دواوٴں کا عِلم ان کے بدن کے لئے ضروری اور مُصلح ہے حالانکہ حَواسِ خمسہ سوائے تلخی شیرینی وغیرہ کے سوا اور کچھ معلوم نہیں کر سکتے، حواس مفید اور مضر کو نہیں سمجھتے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ لوگ اسکی حقیقت کیسے پہچان گئے جسکو حَواس کے ذریعے نہیں پہچانا جا سکتا جبکہ سوائے حواس کے اور کوئی معلوم کرنے کا ذریعہ نہیں ۔ طبیب:۔ ان تمام چیزوں کو تجربہ اور آزمائش کے ذریعے حاصل کیاگیا ہے ۔ امام:۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ دوا سازی اور طب کا موجد جو تمام اشیاء کے خواص کو جو مشرق و مغرب میں ہیں بیان کرتا ہے ۔ اسکو دانشمند اور مردِ حکیم ہونا چاہئے ان بلاد میں ۔ طبیب:۔ کیوں نہیں، بلکہ اس کو اپنی معلومات دیگر عقلاء اور اہلِ دانش کے سامنے پیش کرنا چاہئے ۔ تاکہ انکی رائے سے فائدہ اُٹھا کر اپنے نظریات پر مطمئن ہو سکے ۔ امام:۔ معلوم ہوتا ہے ۔ تم مرد ِ انصاف پسند ہو، اَپنے وعدے پر قائم ہو۔ اچھا اب یہ بتلاوٴ کہ اس حکیم نے کِس طرح تمام جڑی بوٹیوں کا تجربہ کر لیا۔ اچھا مانا کہ اسنے ان چیزوں کا جو اس کے شہر میں ہیں تجربہ کرلیا تمام دُنیاکی اشیاء کا تجربہ کیسے کیا جبکہ اسکا تجربہ صرف حواس سے نہیں ہو سکتا۔ کوئی عقل اِس بات کو تسلیم نہیں کرسکتی کہ کوئی عاقل دُنیا کا اِتنی قدرت رکھتاہو کہ تمام دُنیا کے گوشہ گوشہ میں گیا ہو اور ہر قسم کے درخت ، گھاس ، پھل پھول اور معدنیات کو آزمایا ہو۔ اُن کی خاصیت اور ترکیب سے واقف ہوا ہو۔ جو خاصیت اِس دوا میں ہے جو کہ اِس وقت تیرے ہاتھ میں کسی حواس کے ذریعہ ظاہر نہیں ہوئی ہے ۔ اور یہ کیسے معلوم ہوا کہ یہ دوا اپنا اثر نہ دکھائے گی۔ جب تک اسکو صحیح اجزاء سے ترکیب نہ دیا جائے ۔ مثلًا ہلیلہ(ہڑ) ہندوستان سے ، مصطگی روم سے، مُشک تبت سے، دار چینی چین سے، افیون مصر سے، ایلوہ یمن سے وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام اجزا دُنیا کے مختلف حصوں سے ملتے ہیں ۔ یہ کیسے معلوم ہوا کہ ایک کو دوسرے سے نہ ملائیں تو مطلوبہ خاصیت پیدا نہیں ہو سکتی۔ یہ کیسے معلوم ہوا کہ فلاں چیز فلاں مقام پر پیدا ہوتی ہے حالانکہ رنگ ایک جیسا، خاصیت برعکس، اور مقامات متفرق ہیں بعض درخت کے تَنے سے نکلتی ہیں، بعض ریشوں سے، بعض پَتوں سے، بعض پھل پھول سے، بعض ان چیزوں کے رس سے، بعض انکے تیل سے، بعض جوش دینے سے، بعض پختہ، بعض خام، پس یہ کیسے معلوم ہوا کہ کسکو کسطرح استعمال کرنا چاہئے ۔ ہر دوا کا اسکے مقام کے لحاظ سے جُداگانہ نام ہے ۔اور ہر دوا صرف جڑی بوٹی (بونڈی) ہی پر منحصر نہیں ہے ۔ بعض دوائیں درندوں، جنگلی اور دریائی جانوروں کے پِتہ وغیرہ سے حاصل ہوتی ہیں، بعض پہاڑی دَرّوں، پہاڑی چوٹیوں، دریاوٴں کی تہہ سے حاصل ہوتی ہیں ۔ بعض ان شہروں سے جہاں کے باشندے، وحشی خونخوار اور ہماری زبان سے بھی بالکل واقف نہیں ہیں، اُن سے حاصل ہوتی ہیں ۔ کیا یہ خیال کیا جاسکتاہے کہ ایک حکیم ان تمام شہروں میں گھوما ہو انکی ہر ایک زبان سے واقف ہو۔ ہر ملک و ہر شہر کے باشندوں سے تعلقات رکھتا ہو اور تمام دُنیا کی جڑی بوٹی اور طبی اشیاء کی آزمائش کی ہو۔ اور اپنے سفر میں کامیاب لوٹا ہو۔ نہ بیمار ہواہو، نہ تھکا ہو،نہ بھٹکا ہو، نہ مرا ہو، نہ کچھ فراموش کیا ہو۔ اور اپنے قیاسات میں اس نے کوئی غلطی بھی نہ کی ہو۔اور ہر درخت اور گھاس کی خاصیت معلوم کی ہو۔ اور جسطرح انکو پایا ہو۔ صحیح بیان بھی کیا ہو۔ اور اپنے تجربات کو درست دوسروں تک پہونچا بھی دیا ہو۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ سب کچھ ممکنات سے ہے اور تمہارا یہ خیال بھی مان لیا جائے کہ علمِ طب تجربہ سے حاصل ہوا ہے تو یہ بتلاوٴ کہ کیا ایک گھاس کے صرف ایک مرتبہ کے تجربے سے یقین کر لیا جائے کہ اسکی یہ خاصیت ہے نہ کہ اسکا بارہا تجربہ کرنا ہوگا۔ اگرچہ وہ گھاس سَمِ قاتل یعنی فورًا ہلاک کردینے والی ہو۔ اب بتلاوٴ کہ اسکے تجربہ کرنے میں کِتنی جانیں تلف ہوں گی۔ اور کتنے تجربہ کرنے والے اور کتنے وہ جن پر تجربہ کیا گیا ہے دُنیا سے کوچ کر جائیں گے ۔ لہذا صرف ایک چیز کے تجربہ کرنے میں ہزاروں جانیں اَوّل ضائع ہوں گی اور پھر بھی وہ چیز یقینی قیاس رہیگی علاوہ اسکے جیسا کہ کہا گیا ہے، دوائیں صرف نباتات پر منحصر نہیں، بہت سی حیوانات کے گوشت و پوست ، خون و اِستخوان سے پرندوں درندوں اور دریائی مچھلیوں سے حاصل ہوتی ہیں ۔ پھر کیا یہ صحیح سمجھا جائے کہ ایک حکیم نے نباتات کے علاوہ تمام حیوانات کو ذِبح کرکے اپنا تجربہ مکمل کیا ہے اس صورت میں تو شاید ایک حیوان بھی رُوئے زمین پر باقی نہ رہا ہو گا اور ہاں وہ حیوانات آبی جو دریا کہ تہہ میں ہیں اُن تک رسائی کسطرح ہوئی ہوگی۔ طبیب:۔ خاموش ہے امام:۔ کیا تم یہ بات مانتے ہو کہ مفرد دَوا کا کچھ اور مرکب دَوا کا کچھ اَثر اور ہو جاتا ہے ۔ طبیب:۔بے شک ایسا ہی ہے اِمام:۔ پھر اس مفروضہ حکیم کو کِسطرح معلوم کہ کسی مفرد دَوا میں کونسی دوائیں اور کس مقدار کو ملانے سے اسکا اَثر دوسرا ہو جاتا ہے ۔ تم خود طبیب ہو دیکھو اگر دَوا کی مقدار اور ترکیب میں ذرا سا فرق ہو جائے تو اسکی خاصیت بدل جاتی ہے اور یہی دَوا جو ایک مریض کو تندرست کرتی ہے دوسرے مریض کو ہلاک کر دیتی ہے ۔ پس یہ تمام باتیں حَواسِ خمسہ کے ذریعہ کیسے معلوم ہو سکتی ہیں ۔ اور یہ بھی بتلاوٴ کہ جو دَوا اَمراضِ سر کے لئے کھائی جاتی ہے وو پیروں پر اَثر کیوں نہیں کرتی۔ اور جو اَمراضِ پا کیلئے دی جاتی ہے وہ سر میں اثرانداز کیوں نہیں ہوتی یہ تمام دَوائیں مِعدہ میں جاتی ہیں ۔معدہ کو کس نے بتلایا کہ اس دَوا کو سَر کیطرف روانہ کرے اور اُس دَوا کو پیر کی طرف طبیب:۔خاموش ہے امام:۔ نے جب اسکو عاجز پایا تو اپنا رُخ اصل موضوع تَوحید کی طرف موڑا، اور وَجود باری کو اس طبیب کو ماننا پڑا۔ مذکورہ بالا گفتگو سے یہ بھی بتلانا مقصود تھا کہ امام جسطرح رُوح کا امام ہے اسی طرح بدن کا بھی ہے ۔ وہ برگزیدہ خدا ہونے کی وجہ سے دُنیا کی ہر چیز کی خاصیت اور حقیقت سے بخوبی واقف ہوتاہے کیونکہ خدا نے اِس (امام ) کو عِلم و حکمت سے آراستہ کیا ہے

 

ذکر بعض معالجاتِ امام

دردِ سر:۔ ایک خراسانی، امام کی خدمت میں بیٹھا دینی مسائل دریافت کررہا تھا کہ سر میں شدت کا درد ہوا۔امام نے فرمایا اُٹھو اور حمام میں جا کر سات(۷) چُلو گرم پانی سر پر ڈالو، اور ہر مرتبہ قبل پانی ڈالنے کے ایک بار بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کہو۔ شخصِ مذکور نے اس پر عمل کیا اور فوراً دردِ سر جاتا رہا کہ پھر نہ ہوا۔ انسان کیونکہ تمام ترقیاتِ عِلمی سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے اشیاء کے اصلی سبب نہیں معلوم کر سکاہے تو اکثر کسی کا جو سبب ہوتا ہے اُسے انکار اور جو سبب نہیں ہوتا اُس کا اِقرار کر لیتا ہے ۔ اُس مردِ خُراسانی کے دردِ سر کا علاج آبِ گرم اور بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے کرنا عوام چونکہ عادی نہیں ہیں قبول نہیں کرتے ۔۔ پہلے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ جُملہ امراض کے اسباب دو قسم سے باہر نہیں ہیں ۔ (۱) جسمانی (۲) رُوحانی۔ جو جسم سے تعلق رکھتے ہیں انکا جسمانی علاج ہوگا۔ بعض رُوحانی انکا علاج روحانی ہوگا۔ بعض جسمانی اور انکا علاج روحانی ہوگا۔ بعض رُوحانی اور انکا علاج جسمانی ہوگا۔ کبھی مریض صرف ایک مرض کی شکایت کرتا ہے ۔ اور طبیب اس میں چند اَمراض کی تشخیص کرتا ہے ۔ کبھی مریض چند امراض کی شکایت کرتا ہے اور طبیب صرف ایک مرض کی تشخیص کرتا ہے ۔ ممکن ہے کہ مریض رُوحانی بیماری میں مبتلا ہو اور صرف دردِ سر کی شکایت کر رہا ہو۔ امام نے اِس طرح اُس کی کَسالت ِ دینی فرمائی ہو۔ علاوہ ازیں اِمام کا اِرشاد اور اس پر مریض کے مُحکم یقین نے شفا بخشی ہو ۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ایک بیماری کے متعدد اَسباب ہو سکتے ہیں ۔ مثلاً دردِ سر، معدہ کی خرابی یا بدہضمی۔ معدہ کے بخارات۔ گرمی، سردی، زُکام۔ ضُعفِ اعصاب۔ دماغی تکان۔ ناگوار آواز۔ تیز خوشبو یا بَدبو وغیرہ ۔ لہذا جب ایک شکایت کے وجوہ ہو سکتے ہیں تو اگر کسی آبِ گرم اور بسم اللہ سے فائدہ بِالفرض نہ ہو تو اسکی وجہ عدم تشخیص مَرض ہو گی۔ زہریلے بُخارات (گیس):۔ جابر صوفی کا بیان ہے کہ میں نے امام جعفر صادق اے کہا، یابن رسول اللہ! میں سر سے پیر تک باد یعنی بُخارات میں مبتلا ہوں آپنے فرمایا۔ عنیر اور زنبق پیس کر کھاوٴ خداوند عالم شفا دے گا۔ باری کا بُخار(ملیریا):۔ اِبراہیم جعفی کہتے ہیں کہ میں امام کی خدمت میں گیا، دیکھ کر آپنے فرمایا، رنگ متغیر کیوں ہے؟ جعفی نے کہا تپ دنوبہ سے ۔ امام نے فرمایا، مفید شربت کیوں نہیں اِستعمال کرتے ۔ شکر کو کوٹ کر پانی میں ملا کر پانی میں حل کر لو اور نہار منہ اور وقتِ تشنگی اِستعمال کرو۔ میں نے ایسا ہی کیا اور بہتر ہو گیا۔ اسہال و شکم درد: ایک شخص نے امام سے اپنی لڑکی کے متعلق ”دستوں“ کی شکایت کی، آپ نے چاول اور گوشت پکانے کا طریقہ بتایا۔ لڑکی صحت یاب ہو گئی۔ خالد بن بہیج کہتا ہے کہ میں نے امام کی خدمت میں دردِ شکم کی شکایت کی، آپ نے فرمایا، قدرے چاول کوٹ کر برغذا کے ساتھ تھوڑے سے کھا لو۔ اس نے ایسا ہی کیا اور پیٹ کے درد سے نجات پائی۔ کسی نے آپ سے کہا کہ بَسا اوقات میرے پیٹ میں ایک آواز پیدا ہو کر درد ہونے لگتا ہے ۔ امام نے فرمایا اِس درد کے دَفیعہ کے لئے سیاہ دانہ اور عسل یعنی شہد بتلایا۔ جس سے اُسے آرام ہو گیا۔ ضُعفِ بدن:۔ کسی نے امام سے ضُعفِ بدن کی شکایت کی کہ میں روز بروز کمزور ہوتا جا رہا ہوں آپ نے فرمایا ،دودھ پیا کرو کہ گوشت کو پید ا کرتا ہے اور ہڈیوں کو مضبوط کرتا ہے ۔ کمزوری دور کرتا ہے ۔ ایک شخص نے کہا کہ میں نے دودھ پیا تھا مگر کمزوری بڑھ گئی۔ آپ نے فرمایا، دودھ کی وجہ سے نہیں، بلکہ اُس چیز کی وجہ سے جو تو دودھ کے ساتھ کھاتا ہے ۔ برص:۔ آپ سے کسی نے ”برص“ کی شکایت کی، آپ نے فرمایا، حِناّ(مہندی) نورہ(چونا اور ہرتال مرکب) ملا کر داغ پر لگاوٴ۔ داغ جاتا رہے گا۔ ضُعفِ چشم:۔کسی نے امام سے ضُعفِ چشم کی شکایت کی، آپ نے فرمایا۔ انگوم۔ صِبر یعنی ایک نہایت تلخ دَوا۔ کافور سب کو ہموزن کر کے سُرمہ بناکر آنکھوں میں لگاوٴ۔ فوراً فائدہ ہوگا۔ ایک شخص کی آنکھ میں سفیدی پیدا ہوگئی تھی۔ آپ نے اُسکو یہ نسخہ تجویز فرمایا۔ فلفلِ سفید۔ دارفلفل ہر ایک۲۔۲دِرم۔ نَوشادر صاف کردہ یَک دِرم کو خوب باریک سُرمہ بناوٴ۔ اور اس کی سوزش کیا تحمل کر سکو تو ہر روز تین مرتبہ سلائی سے لگاوٴ۔ اِنشاء اللہ سفیدی جاتی رہے گی۔ ہر مرتبہ آنکھ کو آبِ صافی سے پاک کیا جائے اور بعد میں معمولی سُرمہ لگایا جائے ۔ زُکام:۔ کسی نے آپ سے زکام کی شکایت کی، آپ نے فرمایا یہ لطفِ خدا ہے اگر تو دوا چاہتا ہے تو چھ درم، سیاہ دانہ۔ نیم دانگ۔ کندس کو خوب کوٹ کر ۔ سانس کے ذریعہ ناک میں پہونچاوٴ اِس سے زکام جاتا رہتا ہے مگر علاج نہ کیا جائے تو بہتر ہے اسلئے کہ زکام کے بیشمار فوائد ہیں ۔ شِدت بول(پیشاب بکثرت آنا):۔ ایک شخص نے آپ سے شدت بول کی شکایت کی، آپ نے آخر شب میں سیاہ دانہ کھانے کو فرمایا۔ چند ہی روز کھانے سے آرام ہو گیا۔ قِلتِ نسل:۔ عمر ابنِ حسنہ جمال نے اولاد نہ ہونے کی شکایت کی، آپ نے فرمایا، اِستغفار کر اور تخم مُرغ اور پیاز اِستعمال کر، جب تک اولاد نہ ہو۔ ضُعفِ باہ:۔ کسی نے ضُعفِ باہ کی شکایت کی، آپ نے سفید پیاز کو رُوغن زیتون میں تل کر بیضہء مُرغ ڈال کر خوب پکائیں اور کھانے میں اِستعمال کریں، قوتِ باہ کے لئے نہایت مفید ہو گا۔

 

خواص بعض اَز سبزیہا

آجکل اَطباء ِ تجربہ کار اَپنے مریضوں کو اُن کے مزاج کے موافق سبزیاں تجویز کرتے ہیں جس سے ظاہر ہے کہ وہ اطباء خواص سے سبزیوں کے واقف ہیں اسلئے چند سبزیوں کے خواص ارشاد کردہ امام جعفر صادق درج ذیل ہیں تاکہ واضح ہو سکے کہ دانشمندانِ اسلام و قرآن ان خواص سے ناواقف نہ تھے ۔ پیاز:۔ امام کا ارشاد ہے کہ پیاز کھاوٴ ، یہ منہ کو پاک کرتی ہے، مسوڑھوں کو مضبوط۔ آبِ کمر (منی) کو زیادہ ، طاقت ِ مجامعت کو بڑھاتی ہے ۔ پیاز مُنہ کو خوشبودار۔ کمر کو محکم۔ چہرہ کو حُسن بخشتی ہے ۔ یہ درد اور مرض کو دفع کرتی ہے ۔ پٹھوں کو مضبوط، طاقتِ رفتار کو زیادہ اور بخار کو دور کرتی ہے ۔ پیاز زنبور یعنی بِھڑ بہ الفاظ دیگر۔”مچھر اور مکھی کے کاٹ لینے پر، لگانے پر بہت مفید ہے ۔ پیاز اگر سِرکے میں تر کرکے ناک میں ڈالیں تو نکسیر رُک جاتی ہے ۔ پیاز کی زمانہء حاضرہ کے اطباء نے بھی بے انتہاء تعریف کی ہے ۔ اور اب تو پیاز تقریباً جُزوغذا بَن گئی ہے ۔ امام نے اِس کے فوائد بارہ سو سال قبل بیان فرمائے ہیں ۔ سِیر(لہسن):۔ اِرشادِ امام ہے کہ لہسن کھاوٴ مگر فوراً مسجد میں نہ جاوٴ(حدیث رسول) لہسن کھا کر مسجد کی طرف شاید جانے سے شاید اس غرض سے منع فرمایا گیا ہے کہ اِس کی بو، مسلمانوں کیلئے آزار کا باعث نہ ہو۔ لہسن ستر بیماریوں کو دوا ہے ۔ دورِ حاضرہ کے اطباء اِسکی بڑی تعریف کی ہے ۔ بلڈ پریشر کا دافع ہے ۔ قلب کیلئے بیحد مفید ہے ۔ بادنجان(بینگن):۔بینگن کھاوٴ، درد میں مفید ہے ۔خود درد کا سبب نہیں بنتا۔ تِلی کے مرض میں سود مند ہے ۔ معدہ کو قوت دیتا ہے ۔ رگوں کو نرم کرتا ہے ۔ سِرکہ میں ملا کرکھانے سے پیشاب زیادہ آتا ہے ۔ ترب(مولی):۔اِرشاد امام۔ مولی کھاوٴ بہت مفید ہے ۔ اِسکے پتے، بادی کو دور کرتے ہیں ۔ غذا کو ہضم کرتی ہے ۔ اسکے ریشے بلغم کو دور کرتے ہیں ۔ مولی پیشاب آور ہے ۔ کدو:۔ کدو ، عقل و دماغ کو بڑھاتا ہے اور دردِ قولنج کے واسطے مفید ہے ۔ یرقان کو بھی فائدہ دیتا ہے ۔ کاسنی:۔ کاسنی بڑی مفید سبزی ہے ۔ آبِ کمر(منی) کو زیادہ اور نسل میں افزائش کرتی ہے ۔ مولود کو خوبصورت بناتی ہے ۔ مختلف امراض میں سود مند ہے ۔ دردِ قولنج کو دور کرتی ہے ۔ یرقان کو بھی ختم کرتی ہے ۔

 

خواص بعض میوہ جات

از نظر امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد امام عالی مقام ہے کہ ہر میوہ پر زہریلا مادہ ہوتاہے ۔ لہذا اُسکو کھانے سے پہلے خوب پانی سے دھو لینا چاہئے سیب:۔ ۱۔ سیب کھاوٴ یہ حرارت کو دور، شکم کو سرد اور بخار کوبرطرف کرتا ہے ۔ ۲۔ اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ سیب میں کیا خصوصیات اور خوبیاں ہیں تو بیمار سوائے سیب کے کسی دوا کو نہ کھائیں ۳۔ صرف سیب ہی وہ چیز ہے جو سب سے زیادہ اپنا اثر دل پر کرتا ہے اور اسکو تقویت پہونچاتا اور خوش رکھتا ہے ۔ ۴۔جو بخار میں مبتلا ہو اُسکو سیب کھلاوٴ کہ سیب سے بہتر اور کوئی چیز نہیں ہے ۔ گُلابی امرود:۔ امرود گلابی بہت مفید ہے ۔ چہرہ کو حسین اور دلکو سکون بخشتا ہے ۔ ۱۔ جو شخص امرود سے ناشتہ کرے،آبِ کمر (منی) کو صاف اور اولاد خوبصورت پیدا ہو۔ ۲۔ امرود مقوی قلب اور صافئیِ دل ہے ۔ ۳۔ امرود، جسم کو خوبصورت ، مفرح دل و دماغ اور تمام اندرونی اعضاء کو فائدہ پہنچاتا ہے ۔ انار:۔ ارشاد امام ہے کہ اپنے اطفال کو انار کھلاوٴ تاکہ جلد جوان ہو جائیں ۔ ۱۔ انار کو معہ اسکے چربی (ہلکی جھلی جو دانوں کے اوپر ہوتی ہے) کے کھاوٴ کہ معدہ کو صاف اور زہن کو بڑھاتاہے ۔ ۲۔ انار خون کو بھی صاف کرتاہے ۔ بدن کی رگوں کو تقویت دیتا ہے، تناسل و توالد میں مدد گار ہے ۔ مُلَین اور ہاضم ہے ۔ پیشاب آور بھی ہے، جگر کیلئے بہت مفید ہے ۔ ۳۔ انار ، مرضِ یرقان، طحال، خفقانِ قلب اور کھانسی کے لئے بھی فائدہ مند ہے ۔ آواز کو صاف، چہرے کو شگفتہ۔ جسم کو صاف کرتا، اور پیٹ کے کیڑوں کو مارتاہے ۔ انجیر:۔ انجیر بوئے دہن کو برطرف کرتا ہے ۔ معدہ اور جگر کے بُخارات کو زائل کرتا ہے ۔ ہڈیوں کو مضبوط بناتا ہے ۔ بالوں کو اُگاتا ہے ۔ درد کو دور کرتا ہے ۔ انجیر ہاضمہ کو درست کرتا ہے ۔نشوونما میں مدد کرتا ہے ۔ جسم کو طاقتور، اور چہرہ کو شگفتہ بناتا ہے اگر شام کے وقت کھایا جائے تو تحریک ِ معدہ کو منظم کرتا اور جسم کو تازگی بخشتا ہے ۔ انجیر ذائقہ کے لحاظ سے لذیذ اور اچھی غذاہے ۔بدن کے لئے صحت اور جسم کے واسطے باعثِ اِستنباط ہے ۔ جگر اور تصفیئہ خون کو مفید ہے ۔ سِل اور سرطان میں نفع بخش ہے ۔ انجیر دردِ سینہ اور کھانسی مین سودمند ہے ۔ لیکن چشم اور معدہ کیلئے زیادہ اِستعمال نقصان دہ ہے ۔ خُرما:۔ کسی نے حضرت امام جعفر صادق کے سامنے خرمونکا ایک طبق رکھا اور کہا، یہ بڑے عمدہ خُرمے ہیں، آپ نے فرمایا، بے شک بہت سے امراض کی دوا ہیں ۔ خرما، سمیات کو ختم کرتا ہے ۔ اور بہت سی بیماریوں کو دور کرتا ہے ۔ اگر کوئی سوتے وقت سات دانے خُرمے کے کھا لیا کرے تو معدہ کے کیڑوں سے نجات پا جائے ۔ خُرما بدن کو گرم اور فعال بناتا ہے ۔ خون غلیظ پیدا کرتا ہے ۔ اگر اس کو دودھ میں پکا لیں تو قوتِ باہ کیلئے بہت مفید ہے ۔ آنتوں، خشک کھانسی اور اَدرَا بول کوبھی فائدہ بخش ہے ۔ خُرما ءِ تُرش و خام۔ برائے جریان، خون، اسہال اور مسوڑھوں کو بھی نفع پہنچاتا ہے ۔ سرطان کو آرام دیتا ہے ۔ انگور:۔ انگور پٹھوں کو مضبوط کرتا ہے، درد کو دور کرتار اور روح کو فرحت بخشتا ہے ۔ نوح علیہ السلام نے خدا سے غم و اندوہ کی شکایت کی۔ حُکم ہوا انگور کھاوٴ۔ انگور مُلیّن، مصفی خون۔ مقوی غذا ہے ۔ آبِ انگور قُوٰی کو تازگی۔ دورانِ خون کو تحریک اور معدہ کی تکالیف دور کرتا ہے ۔ جگر مختلف بُخار۔ بدہضمی۔ امراضِ قلب۔ صفراء۔ بواسیرسیل، اور سرطان کیلئے مفید ہے ۔ انگور بہترین چیز ہے جس سے مختلف بیماریوں کا مختلف طریقہ سے علاج کیا جاسکتا ہے ۔ ہم انھیں چند چیزوں پر اکتفا کرتے ہوئے ختم کر رہے ہیں ۔ کیونکہ یہ چند چیزیں ہی امام کے طبِ جسمانی کی معلومات پر ایک کامل نمونہ اور ثبوت ہیں ۔ اگر تفصیل سے بیان کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب بن جائے ۔ مقصد یہ ہے کہ مُنصف مزاج طبیب جب اِرشادات ِ امام عالیمقام کا مطالعہ کرے تو وہ اس نتیجہ پر پہونچ جائے ۔ کہ علم ِ ادیان کا عالم۔ عالمِ علمِ ابدان بھی ہوتا ہے ۔

 

بُنیادِ طب

حضرت امام جعفر صادق کے بعض اِرشادات جو عِلم ِ طِب کی بنیاد کہے جا سکتے ہیں طبیب صرف بیمار کے دلکو خوش کرتا ہے موسٰی بن عمران نے بارگاہِ اَحدیت میں عرض کیا، پروردگار!،درد کون دیتا ہے، وحی آئی کہ ہم دیتے ہیں ۔ پھر عرض کیا، پروردگار! دَوا یا شفا کون دیتا ہے ۔ وحی ہوئی کہ شفا بھی ہم دیتے ہیں ۔ حضرت موسٰی نے پھر بیمار طبیب کے پاس کیوں جاتے ہیں ۔ جواب ملا، طبیب سے اپنا دِل خوش کرتے ہیں ۔ اور معالج کو اِسی وجہ سے طبیب کہتے ہیں ۔ اِسلام میں اور نظرِ انبیاء میں موٴثر حقیقی خدائے تعالٰی ہے ۔ جناب اِبراہیم نے اپنی قوم سے فرمایا، میرا خدا وہ ہے کہ جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ مجھ کو شفا بخشتاہے ۔ وَ اِذَا مَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْقِ(الشعر، آیت نمبر ۸۰) مسلمان اگر بیمار ہوتا ہے اور اَطباء اس کو جواب دے دیتے ہیں تیماردار کوشش ختم کر دیتے ہیں ۔ دوا کوئی اَثر نہیں کرتی۔ پھر مسلمان مریض مایوس نہیں ہوتا۔ کیونکہ اسکا ایمان ہے کہ شفا کا دینے والا خدا ہے ۔ برعکس اس کے جو خدا کا اِعتقاد نہیں رکھتا، جب طبیب اس کو جواب دے دیتے ہیں اگرچہ مَرض مہلک نہ ہو اور موت کا وقت بھی نہ آیا ہو پھر بھی کم از کم اِس فکرو غم میں مَدقوق(دِق زَدہ) تو ہو ہی جاتا ہے ۔

 

چند آئین طب

اِرشاد امام صادق ہے کہ جبتک جسم بیماری کو برداشت کر سکے دوا کے اِستعمال سے پرہیز کرو۔ اِرشاد امیرالمومنین علی ابن ابیطالب ہے کہ دوا تمہارے معدہ کے ساتھ وہ کرتی ہے جو تُرشی زنگ زدہ پیتل کے ساتھ زنگ کو بھی گِھس دیتی ہے ۔ یعنی دوا معدہ کو بھی گِھس دیتی ہے ۔ اِرشاد امام موسٰی بن جعفر علیہ السلام ہے کہ کوئی ایسی دوا نہیں جو کسی دوسری بیماری کو جسم میں نہ پیدا کرتی ہو۔ لہذا بہتر یہ ہے کہ جب تک شدید ضرورت نہ ہو دوا اِستعمال نہ کی جائے اِرشادِ امام علی رضا علیہ السلام ہے کہ جب تک ممکن ہو طبیب سے رجوع نہ کرو کیونکہ معالجہ تن کی مثال، تعمیر مکان کی سی ہے، جہاں اسکو چھیڑا اور طول پکڑ گیا۔ امام جعفر صادق نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جو معمولی شکایت پر طبیب سے رجوع کرتے ہیں اگر اس دوا سے وہ مر جائیں تو صحیح پَیروانِ مذہب میں اُنکا شمار نہیں ہوتا۔ حِفظِ سلامتی بَدن اِرشاد امام صادق ہے کہ جس کی صحت بیماری سے نمایاں تر ہو پھر بھی اَپنا وہ کسی دوا سے علاج کرے اور مر جائے ۔ میں اس سے بیزار ہوں ۔ گویا ایسے شخص نے اپنی ہلاکت میں آپ مدد کی ہے ۔ زیادہ پانی پینے کے نقصان ۱۔ اِرشاد امام۔۔۔ کہ پانی کم پیئو، زیادہ پانی ہر مرض کو قوت پہونچاتا ہے ۔ ۲۔ سِن رسیدہ، ضعیف، بوڑھوں کو ضروری ہے کہ سونے سے پہلے کچھ ضرور کھا لیا کریں، اِس سے خواب گوارہ اور تنفس خوشگوار ہو جاتا ہے ۔ آدابِ غذا خوردن ۱۔ بے اشتہائے اور بے خواہش کوئی چیز کھانا حماقت اور نادانی ہے اور جب تک اِشتہائے کامل نہ ہو غذانہ کھاوٴ۔ ۲۔ ہر مرض مِعدہ اور بدہضمی سے پیدا ہوتا ہے ۔ مگر بُخار کبھی کبھی خود بخود عارض ہو جاتا ہے ۔ ۳۔ جب غذا کھاوٴ تو حلال کو منتخب کرو، اور خُدا کے نام سے شروع کرو۔ خدا کے برگزیدہ رسول نے فرمایا، کسی ظرف کا بھرنا اِس قدر بُرا نہیں ، جسقدر ظَرف شکم کا۔ لہذا کھاتے وقت ایک ثلث(تِہائی) غذا کے واسطے ۔ ایک ثلث(تہائی) پانی کیلئے ۔ اور ایک ثلث(تہائی) خالی سانس کے واسطے رکھو۔ راہِ رَفتن بیمار بیمار کو راہ چلنا اکثر کمزور کر دیتا ہے اکثر زہریلی ہوائیں ۔ غلبہء صَفرا، یا سَودا یا بلغم سے ہوتی ہے ۔ لہذا اِنسان کو ان طبائع کے غلبہ سے پہلے محتاط رہنا چاہئے ۔ اور راحت میں نہایت سکون ہے ۔۔۔۔!! دَرباہ خواب و اٰسائش ۱۔ ارشاد امام۔۔۔خواب باعثِ آسائشِ بدن ہے ۔ گفتگو سببِ آسائشِ روح ہے، اور خاموشی وجہ آسائشِ خِرد ہے ۔ ۲۔ جس میں اِصلاح بدن ہو وہ داخل ِ اَسراف نہیں ۔ اَسراف کھانے پینے کی چیزوں میں حد سے تجاوز کرنے میں ہے ۔ چار مفید باتیں:۔ معالجہ کی چار قسمیں ہیں ۔فصد، روغنِ مالی۔قے کرنا۔ حُقنہ یعنی انیما۔ اٰدابِ حمام خالی معدہ حمام میں مت جاوٴ۔ اور شکم سیر ہوکر بھی حمام میں نہ جاوٴ۔ میانہ روی خوراک اگر لوگ خوراک میں میانہ روی اِختیار کریں تو کبھی بیمار نہ ہوں ۔ پاکیزگی دست ہا:۔ اپنے ہاتھوں کو کھانے سے پہلے اور بعد میں دھونا چاہئے ۔ اِس سے تنگدستی برطرف اور عمر دراز ہوتی ہے ۔ اور ہاتھوں کا نہ دھونا بیماری کا سبب ہے ۔ بیماری ضعف بدن کا باعث ہے ۔ ضعفِ بدن کوتاہیِ عمر اور عدم حصول دولت کا باعث ہے ۔ نزدیکیِ بازنان:۔ موسمِ سرما ہو یا موسمِ گرما، اول شب جبکہ شِکم سیر ہو عورت(زوجہ) کے پاس نہ جاوٴ اس سے مختلف درد اور دیگر امراض پیدا ہوتے ہیں ۔

 

طبابتِ روحی

جسطرح جسمِ انسانی بیمار ہوتا ہے اور محتاجِ علاج ہے اسیطرح روح بھی مائل بہ زوال ہو کر بیمار ہوتی ہے وہ بھی محتاجِ علاج ہے ۔ تا کہ اس کو اَفعال رذیلہ اور خواہشاتِ حیوانی سے جو انسان کے لئے مہلک اَمراض ہیں، نکال کر اَوصافِ حمیدہ اور اخلاق فاضلہ کی جانب مائل کرکے اصلاح کی جائے ۔ یہ مانا کہ دانشورانِ عالم نے بھی کچھ آئین اور ضوابط اصلاحِ نفوس اور آدابِ اخلاق کے مرتب ضرور کئے ہیں ۔ لیکن باوجود کوشش کامیابی کی منزل سے دو چار نہیں ہو سکے کیونکہ یہ کام صرف دینی رہبر و رہنما ہی کا ہے ۔ کہ وہ آدمی کو بداخلاق و جہالت کی پستیوں سے نکال کر فضیلت کی منزل تک پہنچائیں ۔ ظاہر ہے کہ حقیقتِ روح اور جسم کو اس سے بہتر اور کون جان سکتا ہے جس نے روح اور جسم کو پیدا کیاہے ۔ لہذا اس نے جسکو روح اور جسم کا طبیب بناکر اصلاحِ عالم کیلئے اپنی طرف سے بھیجا، وہی سب سے کامل اور حاذق طبیب ہے ۔انہی ہستیوں نے صحتِ نفوس بشری کو فضائلِ حمیدہ کی دعوت دی، چنانچہ آخری رسول اپنی تمام ذمہ داریوں کے ساتھ صرف اسی کام کے لئے مبعوث ہوا، قرآن نے پکار کر کہا، یایھالذین امنوااستجیبواللہ وللرسول اذادعاکم لما یحییکم(سورہ الانفال آیت نمبر۲۴)ترجمہ:۔ خدا اور اُس کے رسول کو جواب دو جب وہ حیات کی طرف بلائیں ۔(۲)یاایھاالناس قد جآءَ تْکُم مَّوْعِظة مِّنْ ربکم و شفآء لما فی الصدور (سورہ یونس آیت نمبر ۷۵) ترجمہ:۔ یقینا تمہارے خدا کی طرف سے نصیحت اور شفاء آئی اِسکے لئے جو کچھ تمہارے سینوں میں ہے ۔ (۳) ونُنزل من الْقرآنِ ما ھو شفاءٌ و رحمةٌ للموٴمنین ولا یزید الظلمین الا خسارا(سورہ الاسراء آیت نمبر ۸۲) ترجمہ:۔ہم نے قرآن میں وہ چیزیں جو رحمت اور شفا ئیں نازل کیں مومنین کے واسطے اور نہ پائیں گے ظالمین مگر خسارہ۔ پیغمبر اسلام:۔ رسول خدا نے فرمایا، نہیں مبعوث ہوا میں مگر صرف اسلئے کہ مکارم ِ اخلاق کو پایہء تکمیل تک پہونچاوٴں اور فضائلِ علم و حکمت سے انسانیت کے تاریک سینوں کو منور کروں ۔ چنانچہ آپ اپنی پوری زندگی تبلیغِ دین اور سلامتی روح و جسم میں مشغول رہے یہاں تک کہ عالمِ فانی سے عالمِ باقی کی طرف رحلت فرمائی اور صرف اِسلئے کہ دُنیائے اِنسانیت بے سرپرست اور بغیر مُصلح نہ رہ جائے ۔ دو گراں قدر چیزیں (قرآن اور عِترت) اَپنے بعد گم گشتہ راہ کیلئے چھوڑیں ۔ ایک قرآن صامت اور دوسری قرآنِ ناطق(عِترت) تاکہ تعلیمِ قرآن سے اگر کوئی (انحراف کرے تو اُسکو راہِ مستقیم دکھائیں ۔ امام جعفرصادق:۔ آپ کا زمانہ اِنتہائی بدامنی و بدنظمی اور اِختلافات کا دور تھا، دُنیا طرح طرح کے عقائد میں مبتلا تھی۔ ایسے ہولناک ہنگامے میں جہاں آواز بے سُود ہو کسی مصلح اور مبلغ کی طرف توجہ نہ دی جائے ۔ امام عالی مقام نے اپنے فرض امامت کو اس طرح انجام دیا۔ جیسے ایک طبیب حاذق بہ حکم خداوندی بیمار اِنسانیت کے جسم و جان کی سلامتی کے لئے انتھک کوشش فرماتا ہے ۔

 

نمونہ طِبِّ روحی امام جعفر صادق

ہم نہایت اختصار سے یہاں چند نمونہ امام عالیمقام کے طبِ روحانی پیش کررہے ہیں ۔ تاکہ قارئین و ناظرین امام کے سخنہائے روح پرور اور شفا بخش سے بھی مستفید ہو سکیں ۔ تفصیل کی اس کتاب میں گنجائش نہیں ہے ۔ غضب:۔ غضب ایک وہ حالت ہے جو متوقع اور غیرمتوقع حالات کے پیش آنے پر بر انگیختہ ہوتی ہے ۔ اور جب و ہ طبیعت پر مسلط ہوجاتی ہے تو انسان کی عقل زائل کر دیتی ہے ۔ انسان راہِ صواب سے منحرف ہو کر ہر بے ضابطگی کا مُرتکب ہو جاتا ہے ۔ غصہ کے وقت خون جوش مارتا ہے اور تیزی سے قلب کی طرف مائل ہوتا ہے اور وہاں سے رگوں میں منتقل ہو کر جسم پر ظاہر ہونے کی کوشش کرتا ہے ۔چہرہ سُرخ اور گردن کی رگیں اُبھر جاتی ہیں ۔ سینے میں پانی کیطرح جوش زَن ہوتا ہے ۔ چہرہ کو بگاڑ دیتاہے ۔ اِنسان اپنے ہونٹ دانتوں کے نِیچے دبا لیتا ہے ۔ اور جسم کے تمام اعضاء متاثر ہوتے ہیں ۔ غضب، ۔ عقل کا سب سے بڑا اور سخت دشمن ہے ۔ غضب،۔کے اہم ترین اسباب دو ہیں (۱)وراثت (۲) بیماریاں خاندانی تربیت کے طریقے اور اساتذہ کی تعلیم کو بھی غضب کی آگ کو بھڑکانے میں بڑا دخل ہے ۔ تکبر۔خودبینی۔مسرتِ بیجا۔کثرتِ مزاح۔مکروحرصِ زَر و مال و جاہ بھی وہ اَخلاقِ کثیفہ ہیں، جو غضب کو اَپنے ساتھ لاتے ہیں ۔ اور خود غضب ، متعدد بیماریوں کی تولید کا سبب ہے ۔ غضبناک آدمی میں پاگل کُتے کے خواص پیدا ہو جاتے ہیں اگر وہ حالتِ غضب میں کسی کو کاٹ لے تو اَثرات سَگِ گذیدہ کے جیسے ہوتے ہیں ۔ غضب وہ روحانی خطرناک بیماری ہے جو اوّل صاحبِ غضب کو اور پھر دوسروں کو سخت نقصان پہونچاتی ہے ۔ صاحبِ غضب نادانستہ جُرمہائے بزرگ میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ دُنیا کے اَطباء اِس غضب کے مہلک مرض کے علاج سے عاجز رہے ہیں ۔ لیکن خدا کا مقرر کردہ طبیب پیغمبرِ اسلام نے اسکا علاج یوں ارشاد فرمایا ہے ۔ ” اگر کوئی شخص اپنے اندر آثارِ غضب دیکھے تو اگر وہ کھڑا ہے تو بیٹھ جائے ۔ بیٹھا ہے تو لیٹ جائے ۔ اگر پھر بھی اَثر رہے تو ٹھنڈے پانی سے وضو اور غُسل کر لے، کیونکہ پانی آگ کو بُجھا دیتا ہے“۔ ارشادِ امام ہے کہ ہر شَر اور بَلا کی کُنجی (چابی) غضب ہے اور اگر کوئی بُردبار نہیں، پھر بھی بُردباری اور تحمل کی کوشش کی جائے ۔غضب مردِ دانا کے دل کو ہلاک کر دیتا ہے ۔ بُردباری اِسکا بہترین علاج ہے ۔ دروغ(جھوٹ):۔ سب سے بڑی رکاوٹ فرائضِ انسانی کی ادائیگی میں دروغ ہے ۔ یہ اِنفرادی اور اِجتماعی ہر دو لحاظ سے خطرناک ہے ۔ دروغ، دروغگو کے اندر ہر اخلاق رذیلہ پیدا کردیتا ہے ۔ (۱) معاملات میں آمیزش (۲) مکاری اور دھوکہ بازی (۳) خیانت اور ریاکاری (۴) وعدہ خلافی (۵) عہد شکنی، یہ سب دروغ کے آوُردہ ہیں ۔ دروغ بذاتِ خود ایک قبیح صفت ہے ۔ دروغ گو معاشرہ میں ایک عضوِ فاسد ہے جو خود کو بھی ہلاک کرتا ہے اور دوسروں کو بھی۔ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ کوئی بیماری دروغ سے زیادہ تکلیف دہ نہیں ہے ۔ جو زیادہ جھوٹ بولتا ہے اُس کی لوگوں کی نظر میں کوئی قیمت نہیں رہتی، عزت و آبرو برباد ہو جاتی ہے ۔ اِس کے بِالمقابل جس کی زبان راست گو ہوتی ہے اُسکا عمل بھی پاکیزہ ہوتا ہے ۔ خداوندعالم نے بارہ بلاوٴں پر تالا (قفل) لگا دیا ہے ۔ جسکی کُنجی(چابی ) شراب ہے لیکن دروغگوئی، شراب خوری سے بھی بدتر ہے ۔ دروغگو کی صحبت سے بچو یہ تمہیں جب فائدہ پہونچانا چاہے گا تو صرف نقصان ہی پہونچائے گا، فائدہ کا محض نام ہو گا۔ دروغگو غیروں کو تمہارے نزدیک اور نزدیکیوں کو غیر بنا دیتا ہے ۔ رشک و حَسد:۔ رَشک ، دوسروں کی دولت دیکھ کر رنجیدہ اور اُنکی دولت کے زوال کو دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے ۔ حاسد ، ہمیشہ دوسروں کی دولت بہ حسرت دیکھتا اور دیکھ کر خود بہ خود جلتا ہے ۔ حَسد ، ایک وہ روحانی بیماری ہے جو بخل سے زیادہ شدید ہے ۔ اِسلئے کہ بخیل اپنی دَولت دوسروں کو دینے میں بخل کرتا ہے ۔ لیکن حاسد، دوسرے جب کسی اور دوسرے کو دیتے ہیں تو بھی ملول ہوتا ہے ۔ اِرشادِ رسول:۔ خدا کی نعمتوں کے بھی بہت سے دشمن ہیں ۔ لوگوں نے عرض کیا وہ کون ہیں ۔ فرمایا، جو حسد کرتے ہیں ان لوگوں پر جنکو خدا نے نعمتیں عطا فرمائی ہیں ۔ یہ بیماری خباثت ِ روح کی وجہ سے عارض ہوتی ہے، جب آدمی اِس بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے تو اسکے اِخلاقِ فاسد ہر جُرم و گناہ کیلئے آمادہ ہو جاتا ہے ۔ ارشاد اِمام ہے کہ حاسد ایک طرفة العین کے لئے بھی راحت نہیں دیکھتا۔ حاسد، عذابِ دائمی۔ ہمیشہ کی پریشانی ۔ حسرت و نااُمیدی لَغزش و گنہگاری میں مبتلا اور ہمیشہ ناخوش رہتا ہے ۔ اگرچہ بہ ظاہر صحت مند نظر آتا ہے ۔ حسد ایمان کو اسطرح کھا جاتا ہے جسطرح آگ اِیندھن کو۔ تَکبُّر یا بُزرگ نمآئی:۔ غرور ایک وہ بیماری ہے جسکی وجہ سے آدمی اپنے کو بزرگ اور دوسروں کو حقیر سمجھنے لگتا ہے ۔ تکبر ایک وہ جاں فرسا بیماری ہے جس سے روح کمزور تر ہو جاتی ہے ۔ اِس بیماری کا مریض اَپنی ناسمجھی کیوجہ سے خود کو قابل و فاضل، اور دوسروں کو جاہل سمجھنے لگتاہے ۔ اَپنے عیوب اور دوسروں کے کمالات پر نظر نہیں کرتا۔ اِس خطرناک بیماری کے اَثرات یہ ہیں کہ آدمی کو رذائلِ اخلاقی کے گہرے گڑھے میں دھکیل دیتی ہے ۔ کینہ و دشمنی، بَد خواہی و سرکشی۔ پندونصیحت سے اِنحراف، غرضکہ ہر اخلاقِ حمیدہ سے دور ہو جاتا ہے ۔ اِمام فرماتے ہیں، تکبر وہ کرتا ہے جو اَپنے اندر ذِلت دیکھتا ہے ۔ مُتکبر ہر وقت مدح و ثناء کا محتاج رہتا ہے ۔ کوئی بے وقوفی اور جہالت تکبر سے زیادہ نقصان دہ نہیں ہے ۔ عاجزی اور اِنکساری اِس کا علاج ہے ۔ تین چیزیں دُشمنی پیدا کرتی ہیں ۔ خود پسندی ۔ دُورُوئی اور سِتم۔ حِرص:۔ کسی چیز کے حاصل کرنے اور طلب میں اِنتہائی کوشش کرنا حرص ہے ۔ جب عقلِ انسانی پر قوتِ حیوانی غالب آجاتی ہے تو یہ بیماری پیدا ہوتی ہے ۔ حریص! گرفتارِ حرص کبھی فقیری سے رہائی اور نجات نہیں پاتا۔ جتنی حِرص زیادہ ہوتی جاتی ہے اتنا ہی زیادہ فقیر ہوتا جاتا ہے ۔ اِسلئے کہ فقیری احتیاج کا نام ہے ۔ اور حریص سے زیادہ کوئی صاحبِ اِحتیاج نہیں ۔ حریص! خدا کی عطا کردہ روزی پر قناعت نہیں کرتا اور اُسکی تمام تر کوشش زیادہ مال و دولت میں صَرف ہوتی ہے لہذا یہ صحیح ہے کہ حریص ہمیشہ فقیر ہے ۔ اِرشاد امام ہے کہ سب سے بڑا دولتمند اور غنی وہ ہے جس میں حرص نہ ہو۔۔۔۔ ۔ وہ شخص بے نیاز ہے جو خدا نے دیا ہے ۔ اُس پرقناعت کرتا ہے ۔ حِرص، رنج و غم۔ مصائب و آلام کی کُنجی (چابی) ہے ۔ حرص، ۔ اِنسان کو گناہ کی مشکلات میں پھنسا دیتی ہے ۔ حریص! چار چیزوں سے ہمیشہ محروم رہتا ہے قناعت۔ رضابَر تقدیر۔ یقین۔ سکون۔ وعدہ خلافی:۔ وعدہ خلافی روح کو ضعیف، انسان کو ذلیل کر دیتی ہے ۔ جِس مین یہ بیماری پیدا ہو جاتی ہے ، وہ سب کی نظر میں ساقِطُ الاعتبار ہو جاتا ہے ۔ جو مُمالک اِس بُری خصلت سے مشہور و معروف ہو جاتے ہیں اُنکی تمام تر ترقی کی راہیں مسدود اور دیگر ممالک سے تعلقات و روابط منقطع ہو جاتے ہیں ۔ باہمی تجارت درآمد بَرآمد کو سخت نقصان پہونچاتا ہے اور اِعتبار باہمی جو ایک قیمتی صفت ہر رائل ہو جاتا ہے ۔ یہ بیماری اکثر ذلیل النفس اور کمینوں کو ہو جاتی ہے جسکی دَوا سوائے اَطباء روحانی کی پندونصائح کے کسی طبیب کے پاس نہیں ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں جو خدا و آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ وعدہ وفا ہوتا ہے ۔ تین چیزیں ایسی ہیں جن میں سے ایک بھی اگر کسی آدمی میں پائی جائے، سمجھ لو کہ وہ منافق ہے اگرچہ روزہ، نماز کا کیوں نہ پابند ہو۔ ۱۔ دروغگوئی ۲۔ وعدہ خلافی ۳۔ بددیانتی جنگ و جدال:۔بحث و مباحثہ۔ حجت و تکرار، مہلک ترین صفات میں سے ہیں ۔ جب خواہش نفسانی غالب آجاتی ہے تو وہ دوسروں کے اَفعال و اقوال پر اعتراضات کیا کرتا ہے اور ہر ایک بات کو حقیر اور کمتر خیال کرتا ہے ۔ یہ ایک وہ بڑی خطرناک بیماری ہے جسکا ادنٰی ترین ضرر یہ کہ دوستوں کو دشمن بنا دیتی ہے ۔ ارشاد امام کہ مومن وہ ہے جو دشمنوں سے بھی تواضع و مدارات سے پیش آئے ۔ کسی سے مخالفت پیدا نہ کرے ۔ ٴ تین چیزیں داخلِ جہالت ہیں ۔ ۱۔ جدال ۲۔ تکبر ۳۔جہل سات آدمی وہ ہیں جو اپنے اعمال کو تباہ کرلیتے ہیں ۔ اور ساتواں شخص وہ ہے جو اپنے برادرِ دینی سے جنگ کرکے اسکو اپنا دُشمن بنا لیتا ہے ۔ جنگ و مُباحثہ اگر صرف خود نمائی کیلئے ہو تو بدترین صفت ہے مگر اَثباتِ حق کے واسطے صفتِ محمود ہے ۔ اگر اَثباتِ حق کیلئے مخالفت سے بہ طریق اَحسن بحث و مباحثہ کیا جائے کہ باہم دُشمنی پیدا نہ ہو تو خود خدائے عظیم اَپنے رسول کریم سے قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ۔ وَ جَا دِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ۔(سورہ النحل آیت نمبر ۱۲۵) ترجمہ دشمن سے بہ طریق اَحسن مُجادلہ کرو۔ اَصل کتاب (طِب الصادق) میں موٴلف کتاب نے اپنی جانب سے بعض گیاہ، برگ و بار کے خواص اور طریق ِ علاج کا اِضافہ کیا ہے ۔ ہم بہ نظرِ اِختصار اِس تفصیل سے صرف ِ نظر کر کے صرف طِبِ جسمانی اور طبِ روحانی ۔ فرمودہ امام عالیمقام علیہ السلام پر اِکتفا کر کے اس مقدس کتاب کو ختم کر رہے ہیں ۔

اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَلٰی اِحْسَانِہِ الْعَظِیْمِ



back 1 2 3