اسلامی قوانین اور کتاب خدامعصوم کی تفسیر سے



 

قرآن کی تفسیر میں اختلاف

اسلام کے جزا و سزا کے قوانین میں ایک چور کے ھاتھ کاٹنے کا قانون ھے جو اپنے شرائط و خصوصیات کے ساتھ فقھی کتابوں میں درج ھے ابھی ابھی دو تین صدی پھلے تک جبکہ اسلام ایک طاقت کی شکل میں حاکم تھا اسلامی حکومتیں اپنے قوانین قرآن سے حاصل کرتی تھیں اور جبکہ مغربی قوانین ابھی اسلامی سرزمینوں تک نھیں پھنچے تھے چور کی تنھا سزا اس کاھاتھ کاٹنا تھی ۔لیکن افسوس کہ یہ ایک چھوٹا سا اور تقریبا روز مرہ کا مورد بھی ان موارد میں سے ھے کہ اسلام کی چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس کی حد معین کرنے کے سلسلہ میں ایک نقطہ پر متحد نھیں ھو سکے

معتصم عباسی کے زمانہ میں جبکہ ھجرت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو دو سو سال سے زیادہ گزر چکے تھے ،علماء نے اسلام کے درمیان ھاتھ کاٹنے سے متعلق آیت کی تفسیرمیں اختلاف پیدا ھوگیا ۔وہ لوگ یہ طے نھیں کر پارھے تھے کہ چور کا ھاتھ کھاں سے کاٹنا چاھئے ۔ایک کھتا تھا :ھاتھ کلائی سے کاٹا جائے گا۔ دوسرا کھتا تھا : ھاتھ کھنی سے کاٹا جائے گا ۔تیسرا کھتا تھا : ۔۔۔۔۔ ۔ ۔ آخر کار خلیفہ ٴ وقت نے شیعوں کے نویں امام حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے بھی دریافت کیا۔ آپ(ۡع) نے فرمایا: چور کے ھاتھ کی صرف چار انگلیاں کاٹی جائیں گی ۔ جب آپ(ع) سے پوچھا گیا کہ اس کی دلیل کیا ھے تو آپ(ۡع)نے فرمایاکہ خدا وند عالم قرآن مجید میں فرمایا ھے:” و ان المساجد اللہ “ سجدہ کی جگھیں خدا کے لئے ھیں اور اس سے متعلق ھیں ۔ آپ(ۡع) نے فرمایا: ان میں سے ایک ھتھیلی بھی ھے جسے سجدہ کے وقت زمین پر ٹکانا ضروری ھے اور جو چیز خدا سے متعلق ھو اسے کاٹا نھیں جا سکتا ۔

اگر امت کے درمیان ایک ایسا قرآن شناس موجود ھو جو قرآن کے اسرار و رموز سے پوری طرح آگاھی رکھتا ھو اور فکری اعتبار سے مسلمانوں کا ملجاو مرکز قرار پائے اور تمام مسلمان اس کی طرف رجوع کریں تو ظاھر ھے کہ بھت سے اختلافات آسانی سے دور ھو جائیں گے اور امت ایک ھی سمت میں ایک ھی مقصد کے ساتھ قدم بڑھائے گی۔نہ مسلمانوں کاقیمتی وقت ضائع ھوگا اور نہ ان میں خطرناک اور خونریزاختلاف ٹکراؤ پایاجائے گا۔

قرآن مجید ھر طرح کے استنباط اور صحیح اسلام کو سمجھنے کے لئے اساسی و بنیادی ماخذ ھے اور کوئی چیز اس عظیم کتاب کی برابری نھیں کر سکتی ۔اگر دوسرے ماٴخذ میں باھم اختلاف نظر آئے مثلا اگر پیغمبر اکرم کی دو حدیثیں باھم ٹکراو ٴرکھتی ھوں تو ھم اس حدیث کو اپنائیں گے جو قرآن کے مطابق ھوگی۔

لیکن کیا دلالت اور بیان کے اعتبار سے قرآن کی تمام آئتیں ایک جیسی ھیں اور کیا قرآن میں سرے سے کوئی ایسی آیت ھے ھی نھیں جس کے لئے کسی معصوم مفسر کی ضرورت ھو ؟ یہ دعویٰ وھی کر سکتا ھے جو قرآن سے زیادہ لگاؤ نھیں رکھتا اور اس کی روح و فکر قرآن سے ھم آھنگ نھیں ھے ۔صحیح ھے کہ قرآن کی بھت سی آیتیں دلالت کے اعتبار سے روشن و واضح ھیں اور اس کی محکم آیات میں شمار ھوتی ھیںاور وہ قرآنی آیات بھی جومبھم ھیں دوسری آیتوں کے ذریعہ روشن و واضح ھو جاتی ھیں ۔ (3) اس کے باوجود قرآن میں ایسی آیتیں موجود ھیں جو یا نزول کے وقت سے ھی مبھم ھیں یا زمانہٴ وحی سے دوری کی وجہ سے مبھم ھوگئی ھیں۔ اس قسم کی آیات چاھے ان کی تعداد کم ھی کیوں نہ ھو کیسے حل کی جا سکتی ھیں؟

کیا امت کے درمیان کوئی ایسی مرکز ی شخصیت موجود نھیں ھونی چاھئے جو اس قسم کی آیات کا ابھام دور کرکے ان کی صحیح تفسیر کر سکے جن میں سے بعض کے نمونے آپ اوپر ملاحظہ کر چکے ھیں؟

حضرت علی علیہ السلام نے جب ابن عباس کو خوارج سے مناظرہ کے لئے روانہ کیا تو انھیں یہ حکم دیا تھا کہ :”لاتخا صمھم بالقرآن فان القرآن حمال ذو وجوہ تقول و یقولون“ یعنی ان سے ھرگز قرآن سے بحث و مباحثہ نہ کرنا ،کیوں کہ قرآن کی آیاتیں کئی احتمالات اور کئی معانی رکھتی ھیں ۔تم ان سے بعض آیات سے استدلال کروگے اور وہ تمھیں بعض دوسری آیات سے جواب دیں گے۔

یہ مسلم ھے کہ امام کی یہ گفتگو قرآن کی تمام آیات سے متعلق نھیں تھی بلکہ آپ کی گفتگو ان آیات سے متعلق تھی جو دو پھلووالی ھیں ،بظاھرروشن و واضح نھیں ھیں اور ان کا مفھوم و مفاد قطعی نھیں ھے۔



back 1 2 3 4 next