اسلامی قوانین اور کتاب خدامعصوم کی تفسیر سے



اس سے کیا کام لیتے ھو؟

اس سے آواز سنتا ھوں ۔

تمھارے ناک ھے ؟

ھاں۔

اس سے کیا کام لیتے ھو؟

اس سے بو سونگھتا ھوں۔

اس کے بعد ھشام نے دوسرے حواس یعنی قوت ذائقہ و لامسہ اور بدن کے دوسرے اعضاء مثلا انسان کے جسم میں ھاتھ اور پاؤں وغیرہ کے بارے میں سوال کیا اور عمر وبن عبید نے ان سب کا صحیح جواب دیا۔ پھر ھشام نے پوچھا : تمھارے دل ھے ؟ ھاں ۔انسان کے بدن میں اس کا کیا کام ھے ؟ عمرو نے جواب دیا کہ جو کچہ بدن کے تمام اعضاء و جوارح انجام دیتے ھیں قلب کے ذریعہ انھیں تشخیص دیتا ھوں ۔ اور جب بھی انسانی حواس میں سے کوئی خطا کرتا ھے یا بدن کا کوئی حصہ شک میں مبتلا ھوتا ھے تو قلب و دل کی طرف رجوع کرتا ھے اور اپنے شک کو دور کردیتا ھے۔

اس وقت ھشام نے اس بحث سے نتیجہ حاصل کرتے ھوئے کھا کہ جس خدا نے جسم کے حواس اور اعضا ء کی شک و تردید دور کرنے کے لئے بدن میں ایک ایسی پناھگاہ اور مرکزی چیز پیدا کی ھے کیا یہ ممکن ھے کہ انسانی معاشرہ کو یوں ھی اس کے حال پر جھوڑ دے اور اس کے لئے کوئی پیشوا و رھبر معین نہ کرے کہ انسانی معاشرہ اپنے شک ،حیرانی اور خطا کو اس کے ذریعہ دور کرے اور صحیح راہ اختیار کر سکے ! (4)

امام جعفر صادق(ع)،جانشین پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے مرتبہ اور اس کی حیثیت کو یوں بیان فرماتے ھیں: پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد ایسے امام کا وجود لازم و ضروری ھے جو الٰھی احکام کو ھر طرح کی گزند اور کمی و زیادتی سے محفوظ رکھے اور ان کی حفاظت کرے ۔ (5) ھشام ابن حکم نے ایک روز حضرت امام جعفر صادق ںکی موجودگی میں شام کے ایک عالم سے مناظرہ کیا اور اس تفصیلی مناظرہ کے دوران اس سے پوچھا کہ کیا خدا وند عالم نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی رحلت کے بعد مسلمانوں کے درمیان ھر طرح کے اختلافات دور کرنے کے لئے کوئی دلیل و حجت ان کے حوالے کی ھے ؟ اس نے کھا: ھاں اور وہ دلیل و حجت قرآن کریم اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی سنت یعنی ان کی احادیث ھیں ۔ ھشام نے پوچھا : کیا قرآن و احادیث اختلافات دور کرنے کے لئے کافی ھیں ۔اس نے جواب دیا ھاں ۔تو ھشام نے کھا اگر کافی ھیں تو پھر ھم دونوں جو ایک مذھب رکھتے ھیں اور ایک ھی درخت کی شاخیں ھیں آپس میں اختلاف کیوں رکھتے ھیں؟ اور ھم میں سے ھر ایک نے ایسی راہ کیوں اختیار کر رکھی ھے جو دوسرے کے خلاف ھے ؟! اس پر اس شامی عالم کو خاموشی اختیار کرنے اور حقانیت کا اعتراف کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہ آیا۔ (6)

 

حوالہ جات

(۱) سورہ احقاف/15

(۲) سورہ بقرہ /232

(۳)۔ حضرت امیر المومنین علی اس قسم کی آیات کے بارے میں فرماتے ھیں :”کتاب اللہ تبصرون بہ ،وتسمعون بہ و ینطق بعضہ ببعض و یشھد بعضہ علی بعض“

(۴) اصول کافی ،ج/1ص/170

(۵) اصول کافی ،ج/1ص/172

(۶) اصول کافی ،ج/1ص/17۸



back 1 2 3 4