ایران، مصر اور تقریب مذاہب اسلامی

محمد طاہر اقبالی


تقریب کے معنی اسلامی مذاہب کے نظریوں کو نزدیک کرناہے ۔ اور اسلامی ممالک خصوصا مصر میں اس کو ایک اہمیت حاصل ہے ۔

اسی طرح تقریب کے دوسرے معنی، علمائے اسلام کا ایک دوسرے کی مدد سے اسلامی فرقوںخصوصا شیعہ اور اہلسنت کے درمیان سے غلط افکار کو دور کرنا ہے ۔ تقریب کے علماء معتقد ہیں کہ اس کے اہداف کو محقق کرنے کیلئے ضروری نہیں ہے کہ اہل سنت ،سنت کی تعلیم اور شیعہ ، تشیع کی تعلیم کو ترک کردیں، بلکہ تقریب کا معیار وملاک یہ ہے کہ تمام اسلامی گروہ آپس میں بھائی چارگی کی زندگی بسر کریں۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ تقریب کا ہدف یہ ہے: اسلامی مذاہب کے درمیان سے دشمنی اور خصومت کو کم کیاجائے ۔

مصر میں انور سادات کی حکومت سے قبل الازہر یونیورسٹی نے تقریب کی دعوت دی ، حسن ابراہیم حسن ، تاریخ الدولة الفاطمیة میں لکھتے ہیں:

”الازہر“یونیورسٹی کا نام حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے نام پر رکھا گیا کیونکہ جب ۹۰۹ عیسوی میں مصر میں فاطمیون کی حکومت قائم ہوئی تو یہ اپنے آپ کو حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) سے منسوب کرتے تھے ، فاطمیون نے مذہب شیعہ کی ترویج کے لئے ۹۷۲ عیسوی میں الازہر یونیورسٹی کوقائم کیا ۔ اس سلسلہ کے راہنماء معتقد تھے کہ علم کی شناخت کے ذریعہ شیعیت کی تبلیغ کا وقت آپہنچا ہے لہذا تعلیم و تربیت او رعلم کے ذریعہ سے اس مذہب کو رائج کیا جائے ۔فاطمیون نے ”الازہر“یونیورسٹی قائم کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ۱۰۰۵ عیسوی میں انہوں نے ایک ثقافتی مرکز دار الحکمة بھی قائم کیا اور اس مرکز کا کام بھی تشیع کی تبلیغ کرنا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ فاطمیون نے اپنی حکومت کے شروع میں مذہب تشیع کی ترویج میں بہت تعادل سے کام لیا لیکن بعد میں یہ اس میں افراط کرتے گئے ، مثلا فاطمی حکومت ، لوگوں کو دوسرے مذاہب کی کتابیں پڑھنے سے منع کرتی تھی اور اہل سنت کو ختم کرنے کی کوشش کرتی تھی اور شاید اسی سیاست کی وجہ تھی کہ ایوبی اور اقبال اہل سنت کی ترویج کیلئے کھڑے ہوئے ، فاطمیون کے ختم ہونے کے بعد جب ایوبیوں کو۱۱۷۵ عیسوی میں حکومت ملی تو انہوں نے مصر کو اہل سنت کی تبلیغ او رترویج کا ایک بہت محکم مرکز بنادیا اور اس حکومت کے موسس صلاح الدین ایوبی نے جو کہ شافعی مذہب تھے ، فقہ کی تدریس کو الازہر یونیورسٹی میں ممنوع قرار دیا۔اس کی وجہ سے الازہر میں علمی استحصال ہوا اور یہ حالت تقریبااسی (۸۰) سال تک چلتی رہی ، لیکن مصر پر مملوکیوں اور عثمانیوں کی حکومت قائم ہونے کے بعد شیعوں کی کچھ حالت بہتر ہوئی اور مملوکیوں کے زمانے میں الازہر یونیورسٹی میں نماز جمعہ دوبارہ قائم ہوئی اور فقہ شافعی کی تدریس کے ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب،منجملہ شیعہ مذہب کی تدریس کے لئے بھی اساتید معین ہوئے ۔

۱۷۸۹ ء میں جب فرانس نے مصر پر حملہ کیا تو الازہر یونیورسٹی کے علماء نے لوگوں کی مدد سے فرانس کا مقابلہ کیا ۔ اپنے اور دوسرے مذاہب کے درمیان اختلافات کو بھلا کر سب مسلمانوں نے اتحاد کا مظاہرہ کیا ، الازہر یونیورسٹی کے علماء نے شیعوں اور دوسرے تقریبی فکر رکھنے والوں کے ساتھ مل کر فرانسویوں کے حملوں کو شکست دی ۔ اس زمانہ میں فرانسویوں نے جب مسلم علماء کو پھانسی دی تو مسلمانوں نے خارجی دشمنوں کے خلاف تقریب اور بھائی چارگی کا مظاہرہ کرکے مسلمانوں کو طاقت بخشی۔

۱۸۰۵ عیسوی میں محمد علی ، مصر کا گو رنر منتخب ہوا، یہ شخص ذاتی طور پر قدرت طلب تھا لہذا اس نے علمائے الازہر اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد کو اپنی حکومت کیلئے رکاوٹ سمجھا اور اس رکاوٹ اور موانع کو ختم کرنے کیلے اس نے” تفرقہ ڈالو اور حکومت کرو“ کا حربہ استعمال کیا اس طرح دین کو سیاست سے جدا کر کے علماء اسلام اور الازہر یونیورسٹی کو کمزور بنادیا اس سیاست کی وجہ سے الازہر یونیورسٹی کی مالی طاقت کم ہوگئی اور الازہر یونیورسٹی آہستہ آہستہ زوال کی طرف گامزن ہونے لگی تو اس مالی طاقت کو بڑھانے کے لئے الازہر کے عہدہ داران نے خارجی حکومتوں جیسے برطانیا کا رخ کیا ۱۹۱۵ میں حکومت مصر کا مالی مشاور ایک انگریز تھا اس نے شیخ الازہر کو مشورہ دیا کہ علماء الازہر کی مالی حالت کو بہتر بنانے کیلئے برطانیہ حکومت کی مدد کو قبول کرلیں(۱) ۔ ا س زمانہ میں حکومت مصر اور برطانیہ کے مشاوروں کی سیاست یہ تھی کہ دین سیاست سے جدا رہے اور تمام مذاہب ، اسلام کے پر چم کے نیچے جمع نہ ہوں۔اس وجہ سے الازہر یونیورسٹی میں مختلف مذاہب کے علماء اتحاد اوراتفاق نہ ہونے سے اسلامی رسالت کی ذمہ داریوں کو صحیح طریقہ سے ادا نہ کرسکے ۔

۱۹۷۰ میں مختلف دینی مراکز اورعلماء خصوصا شیعہ اوراہل سنت نے آپس میں متحد ہو کر مصر میں دار التقریب کی تاسیس کی ، اس مرکز کی تاسیس میں شیعوں کے عظیم مرجع حضرت آیة اللہ العظمی بروجردی (رہ)نے بہترین کردار ادا کیا ، آپ اسلامی مذاہب کے درمیان سے اختلافات ختم کرنے سے متعلق ایک راسخ عقیدہ رکھتے تھے اور اس کام کے انجام پانے کو اسلام کی بلندی کا سبب سمجھتے تھے ، آیة اللہ العظمی بروجردی اپنی خاص فکر کے ذریعہ جانتے تھے کہ اگر مسلمانوں کے درمیان اتحاد قائم کیا جائے تو وہ علمی مراکز کے ذریعہ ہی انجام پاسکتا ہے ، دوسری طرف آپ جامع الازہر کی علمی طاقت سے بھی واقف تھے لہذا مصر کے علماء سے رابطہ برقرار کرنے میں آپ نے تمام امکانات اور حالات سے فائدہ اٹھایا ، آیت اللہ بروجردی نے ان روابط کوبڑھانے کیلئے علامہ شیخ محمد تقی قمی جو کہ ایک دانشور ، متین اور اسلامی اتحاد سے لگاؤ رکھتے تھے، کواپنے نمائندہ کے طور پر مصر بھیجا ۔ علامہ شیخ محمد تقی قمی نے آیت اللہ العظمی بروجردی کا زبانی پیغام شیخ مجید سلیم کو پہنچایا جو کہ الازہر یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے ۔ اور شیخ سلیم کے جواب نے حوزہ علمیہ قم اور الازہر یونیورسٹی کے درمیان خط و کتابت کا باب کھول دیا۔اورا بھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ مصر کے ایک عالم شیخ حسن باقوری جو کہ الازہر یونیورسٹی کے استاد اور وزیر اوقاف تھے، ایران تشریف لائے اور آیةاللہ العظمی بروجردی سے ملاقات کی۔ اور پھر علامہ حلی کی کتاب مختصر النافع اور شیخ طوسی کی تفسیر جامع البیان مصر میں چھپی اور مصر یونیورسٹی کے اساتید اور علماء نے اس سے فائدہ اٹھایا۔ان روابط کے بعد پہلی مرتبہ مصر کی تاریخ میں عاشور کے روز امام حسین (علیہ السلام) کی عزاداری کی سلسلہ میں ایک بہت بڑی مجلس عزار بپا ہوئی ۔ شیخ مجید سلیم کے انتقال کے بعد شیخ شلتوت الازہریونیورسٹی کے زعیم و شیخ الجامعہ ہوئے یہ بھی امت اسلامی کے اتحاد و اتفا ق اور تقریب مذاہب کے علمبردارتھے ۔ انہوں نے آیة اللہ العظمی بروجردی سے نزدیکی روابط برقرار کئے اور ایک خط میں آیة اللہ بروجردی کو اپنا بھائی لکھا۔

مصر میں دارالتقریب بین مذاہب اسلامی کی تاسیس نے مختلف اسلامی فرقوں کو متفق کرنے میں بہترین کردار ادا کیا اور اس نے اس کام کے لئے پہلا اور بہترین قدم اٹھایا تھا ، اسی کی وجہ سے شیعہ اور اہل سنت کی فقہ کی تدریس الازہر یونیورسٹی میں شروع ہوئی ، اس بات کو دارالتقریب کے اساس نامہ میں اس طرح بیان کیا ہے:

اسلامی مذاہب کی فقہ کی تدریس کو تمام اسلامی یونیورسٹیوں میں اور سب جگہ جہاں تک ہوسکے اسلامی یونیورسٹی میں تبدیل کیا جائے گا۔



1 2 3 next