امام شافعی

سيد حسين حيدر زيدي


ابوعبداللہ محمدبن ادریس بن عباس شافع، شافعی مذہب کے موسس اور رئیس ہیں،آپ اہل سنت کے تیسرے امام ہیںاور امام شافعی کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب جناب ہاشم بن عبد مناف کے بھتیجے کی نسبت سے جناب ہاشم بن عبدالمطلب تک پہنچتا ہے۔آپ کے جد ”شافع بن سائب“ ہیں، جنہوں نے رسول خدا کا زمانہ دیکھا ہے۔ آپ فلسطین کے کسی ایک شہر”غزہ یا عقلان“ یا ایک قول کی بناء پر یمن میں ۱۵۰ ہجری میں متولد ہوئے اور اسی روز حنفی مذہب کے موسس ابوحنیفہ کا انتقال ہوا۔ ان کے والد کا بچپن ہی میں انتقال ہوگیا تھا اور اپنی والدہ کے ساتھ مکہ زندگی بسر کرتے تھے۔ آپ کی زندگی بہت ہی سخت اور فقر و فاقہ میں گذری۔ آپ نے فقہ وحدیث کے دروس مکہ میں حاصل کئے اور ظاہرا ایک مدت تک یمن میں شعر و لغت اور علم نحو حاصل کیا، یہاں تک کہ مصعب بن عبداللہ بن زبیر نے آپ کو رائے دی کہ علم حدیث و فقہ حاصل کریں، لہذاآپ مدینہ چلے گئے اس وقت آپ کی عمر ۲۰ سال تھی وہاں پر آپ نے مالکی مذہب کے موسس اور راہنما مالک بن انس کے پاس علم حاصل کرتے رہے۔

شافعی خود کہتے ہیں: میں مکتب میں تھا ØŒ قرآن Ú©Û’ معلم سے آیات سیکھتا اور ان Ú©Ùˆ حفظ کرتا تھا اور استاد جوبات بھی کہتے تھے وہ میرے ذہن میں بیٹھ جاتی تھی۔ ایک روز انہوں Ù†Û’ مجھ سے کہا : میرے لئے جائز نہیں ہے کہ میں تم سے کوئی چیز لوں، اس وجہ سے میں مکتب سے باہر آگیا Û” مٹی Ú©Û’ برتن، کھال Ú©Û’ Ù¹Ú©Ú‘ÙˆÚº اور کھجور Ú©Û’ Ú†ÙˆÚ‘Û’ پتوں Ú©Û’ اوپر حدیثیں لکھتا تھا ØŒ آخر کار مکہ چلا آیا اور ہذقیل قبلیہ Ú©Û’ درمیان زندگی بسر کرنے لگا ØŒ Û±Û· سال وہاں پر رہا، جہاں پر بھی وہ Ú©ÙˆÚ† کرتے تھے میں بھی ان Ú©Û’ ساتھ Ú©ÙˆÚ† کرتا تھا ،جب میں مکہ واپس پلٹاتو میں Ù†Û’ شعر Ùˆ ادب ØŒ اخبار Ú©Ùˆ بہت اچھی طرح سیکھ لیا تھا ØŒ یہاںتک کہ ایک روز زبیریوں میں سے ایک شخص Ù†Û’ مجھ سے کہا:  میرے لئے بہت سخت ہے کہ تم اتنی ہوشیاری اور فصاحت Ú©Û’ باوجود فقہ حاصل نہ کرو، لہذا میں تمہیں مالک Ú©Û’ پاس Ù„Û’ جاؤں گااس Ú©Û’ بعد میں Ù†Û’ مالک Ú©ÛŒ کتاب ”الموطا“ جو پہلے سے میرے پاس موجود تھی ØŒ Û¹ روز میں اس کا خوب مطالعہ کیا اور پھر مدینہ میں مالک بن انس Ú©Û’ پاس چلا گیا اور وہاں پر علم حاصل کرنے لگا۔

امام شافعی، ”مالک بن انس“ کے مرنے تک مدینہ میں رہے اور پھر یمن چلے گئے، وہاں پر آپ اپنے کاموں میں مشغول ہوگئے ، اس وقت یمن کا والی، ہارون الرشید کا گورنر بہت ظالم انسان تھا۔ لہذا اس نے اس بات سے ڈرتے ہوئے کہ شاید شافعی ، علویوں کے ساتھ مل کر شورش برپانہ کردے ، ان کو گرفتار کرکے ہارون الرشید کے پاس بھیجدیا ، لیکن ہارون نے ان کو معاف کردیا۔ محمد بن ادریس ایک مدت تک مصر اور پھر بغداد چلے گئے ،وہاں پر انہوں نے تدریس شروع کردی، وہاں دو سال تدریس کرنے کے بعد دوبارہ مکہ آگئے ، پھر دوبارہ بغدادگئے اور ماہ رجب کے آخر میں ۲۰۰ ہجری کو فطاط مصر میں انتقال ہوا، اس وقت آپ کی عمر ۵۴ سال تھی ، آپ کی قبر مصر میں بنی عبدالحکم کے مقبرہ میں شہداء کی قبروں اور اہل سنت کی زیارت گاہ کے پاس ہے ۔ آپ کے مشہور شاگرد احمد بن حنبل ہیں جو کہ حنبلی مذہب کے موسس تھے۔

اہل سنت نے آپ کے بہت سے آثار کا ذکر کیا ہے لیکن ہم یہاں پر چند کتابوں کا تذکرہ کرتے ہیں:

Û±Û”  الام

۲۔ المسند الشافعی

۳۔ السنن۔

۴۔ کتاب الطہارة۔

ÛµÛ”  کتاب استقبال القبلة۔

۶۔ کتاب ایجاب الکبیر۔



1 2 next