حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی سیرت کے بعض نمایاں پہلو

سيد حسين حيدر زيدي


عمار یاسرنے فقیر سے پوچھا : اس گلو کو کتنے میں فروخت کرو گے؟ اس فقیر نے کہا: اس روٹی اور گوشت کے بدلے میں جس سے میرا پیٹ بھر جائے، اس لباس کے بدلے جس سے میرا جسم ڈھک جائے اور ایک دینار کے بدلے میں جس سے میںگھرتک پہنچ جاؤں ، عمار نے کہا: میں اس ہار کو سونے کے بیس دینار، کھانا، لباس اور ایک سواری کے بدلے تجھ سے خریدتا ہوں، عمار اس فقیر کو اپنے گھر لے گئے اس کو سیراب کیا، لباس پہنایا، سواری دی اور سونے کے بیس دینار دئیے، پھر اس ہار پر خوشبو لگا کر اس کو ایک کپڑے میں لپیٹا اور اپنے غلام سے کہا: اس کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ) کی خدمت میں لے جاؤ، میں نے تمہیں بھی انہی کو بخش دیا ۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے بھی اس غلام اور گلوبند کو حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کو بخش دیا، غلام حضرت فاطمہ کے نزدیک آیا ، آپ نے اس سے گلوبند کو لے لیا اور غلام سے فرمایا: میں نے تجھے خدا کی راہ میںآزاد کردیا، غلام ہنسا، حضرت فاطمہ (علیہا السلام) نے اس سے ہنسنے کا سبب دریافت کیا ، اس نے جواب دیا: یا بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) ! اس گلوبند کی برکت پر مجھے ہنسی آگئی کہ اس ہار نے ایک بھوکے کو کھانا کھلایا، ایک برہنہ کو کپڑے پہنائے،فقیر کو غنی کیا ، پیدل چلنے والے کو سواری عطا کی ، غلام کو آزاد کیا اور آخر کار پھر اپنے مالک کے پاس واپس آگیا ۔

 

اسلام کی پہلی جنگوں میں حضرت فاطمہ (علیہا السلام) کا کردار

 Ù¾ÛŒØºÙ…بر اکرم (صلی اللہ علیہ Ùˆ Ø¢ لہ) Ú©ÛŒ دس سالہ حکومت میں Û²Û· یا Û²Û¸ غزوہ اور Û³Ûµ سے۹۰ تک سریہ تاریخ میں ذکر ہوئے ہیں۔غزوہ اس جنگ Ú©Ùˆ کہتے ہیں جس میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ Ùˆ Ø¢ لہ) Ù†Û’ بنفس نفیس شرکت فرمائی اور مستقیم لشکر Ú©ÛŒ کمان سنبھالی اور جنگ میں ہر وقت سپاہیوں Ú©Û’ شانہ بشانہ حاضر Ùˆ ناضر تھے ۔سریہ اس جنگ Ú©Ùˆ کہتے ہیں جس میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ Ùˆ Ø¢ لہ) Ù†Û’ شرکت نہیں فرمائی بلکہ کسی اور Ú©Ùˆ اپنی جگہ سپہ سالار بنا کر بھیجا بعض مرتبہ یہ جنگیں دو یا تین ماہ تک جاری رہتی تھیں، اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) Ù†Û’ حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) Ú©Û’ ساتھ مشترکہ زندگی Ú©Ùˆ اکثر Ùˆ بیشتر میدان جنگ یا تبلیغ میں گذاری اور آپ Ú©ÛŒ غیر موجودگی میں حضرت فاطمہ (علیہا السلام)گھر Ú©ÛŒ ذمہ داری اور بچوں Ú©ÛŒ تربیت میں مشغول رہتیں، اور آپ اس کام Ú©Ùˆ اس طرح انجام دیتی تھیں کہ آپ Ú©Û’ مرد مجاہد شوہرنامدار اچھی طرح سے جہاد Ú©ÛŒ ذمہ داریوں Ú©Ùˆ انجام دیتے اور پھر آپ اس عرصہ میں شہیدوں Ú©ÛŒ عورتوں اور بچوں Ú©ÛŒ مدد فرماتیں، اور ان سے ہمدردی کا اظہار کرتیںاور کبھی کبھی مدد کرنے والی عورتوں Ú©ÛŒ تشویق کیلئے اور ان Ú©Ùˆ ان Ú©ÛŒ ذمہ داری کا احساس دلانے کیلئے اپنے محرم افراد Ú©Û’ زخموں کا مداوا کرتیں، جنگ احد میں حضرت فاطمہ (علیہا السلام) عورتوں Ú©Û’ ساتھ احد Ú©Û’ میدان (احد ØŒ مدینہ سے Ú†Ú¾ کیلو میٹر Ú©Û’ فاصلہ پر ہے) میں گئیں اس جنگ میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ) بہت زیادہ زخمی ہوگئے تھے اور حضرت علی (علیہ السلام) Ú©Û’ جسم اقدس پر بھی بہت زیادہ زخم Ù„Ú¯Û’ تھے Û” حضرت فاطمہ (علیہا السلام) پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ) Ú©Û’ چہرہ سے خون صاف کرتی تھیں اور حضرت علی (علیہ السلام) اپنی سپر سے پانی ڈالتے تھے Û”

جب حضرت فاطمہ زہرا (علیہا السلام) نے دیکھا کہ خون بند نہیں ہو رہا ہے تو آپ نے چٹائی کا ایک ٹکڑا جلایا اور اس کی راکھ کو زخم پر لگایا جس سے خون بند ہوگیا ، جنگ احد میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے چچا حضرت حمزہ سید الشہداء کی شہادت ہوئی ۔ جنگ کے بعد حضرت حمزہ کی بہن ”صفیہ“، حضرت فاطمہ (علیہا السلام) کے ساتھ آپ کے مُثلہ شدہ لاشہ پر پہنچی اور رونا شروع کیا، حضرت فاطمہ (علیہا السلام)بھی گریہ فرما رہی تھیں اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) بھی آپ کے ساتھ گریہ فرمارہے تھے اور حضرت حمزہ سے خطاب کرکے فرماتے تھے: تمہاری مصیبت جیسی کوئی مصیبت مجھ پر نہیں پڑی ، پھر صفیہ اور حضرت فاطمہ (علیہا السلام) کو خطاب کرکے فرمایا: مبارک ہو ابھی جبرئیل نے مجھے خبر دی ہے کہ ساتوں آسمانوں پر حمزہ شیر خدا اور شر رسول خدا موجود ہے ، جنگ احد کے بعد جب تک حضرت فاطمہ (علیہا السلام)زندہ رہیں، ہرتیسرے دن ایک مرتبہ احد کے شہداء کی زیارت کے لئے جاتی تھیں، جنگ خندق میں حضرت فاطمہ (علیہا السلام) ایک روٹی لے کر رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی خدمت میں آئیں، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے سوال کیا: یہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: میں نے روٹی پکائی تھی میرا دل چاہا کہ یہ روٹی آپ کے لئے لیکر آؤں۔

پیغمبرا کرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا یہ پہلی روٹی ہے جو میں تین دن کے بعد کھا رہا ہوں، جنگ موتہ میں جعفر بن ابی طالب کی شہادت ہوئی ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) ان کے گھر گئے اور ان کے بیوی بچوں کو دلاسہ دیااور وہاں سے حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے گھر تشریف لائے حضرت فاطمہ (علیہا السلام)گریہ فرمارہی تھیں، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: جعفر جیسے اشخاص پر رونے والوں کو رونا چاہئے، اس کے بعد رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا: جعفر کے بچوں کے لئے کھانا تیار کروکیونکہ آج وہ اپنے آپ کو بھول گئے ہیں، حضرت فاطمہ (علیہا السلام)فتح مکہ میں بھی موجود تھیں۔

 

حضرت زہرا (علیہا السلام) اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی زندگی کے آخر لمحات

آخری ایام میں پیغمبرا کرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی بیماری نے شدت اختیار کرلی تھی ، حضرت فاطمہ زہرا (علیہاالسلام)، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے بستر کے کنارے کھڑی ہوئی آپ کے نورانی چہرہ کی طرف دیکھ رہی تھیں، آپ کے چہرہ پر بخار کی تپش سے پسینہ آرہا تھا ، حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام اپنے والدبزرگوار کو دیکھتی جاتی تھیں اور گریہ فرمارہی تھیں، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) اپنی بیٹی کی پریشانی کو برداشت نہ کرسکے، آپ نے حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کے کان میں کچھ کہا جس سے آپ کو سکون مل گیا اور آپ مسکرائیں، اس وقت حضرت فاطمہ علیہا السلام کی مسکراہٹ بڑی تعجب آور تھی، آپ سے سوال کیا گیا: رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے آپ سے کیا فرمایا؟ آپ نے جواب دیا: جب تک میرے والدبزرگوار زندہ ہیں میں اس راز کو بیان نہیں کروں گی، رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی شہادت کے بعد وہ راز آشکار ہوگیا، حضرت فاطمہ (علیہا السلام) نے کہا: میرے والد بزرگوار نے مجھ سے کہا: میرے اہلبیت میں تم سب سے پہلے مجھ سے ملوگی ، اس وجہ سے میں خوش ہوگئی ۔



back 1 2 3