امام سجاد اور پیغام عاشورا



امام سجاد (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت ،اڑتیس ہجری کو مدینہ میں ہوئی ، آپ کی ولادت کے متعلق روایات مختلف ہیں ۔

ابن صباغ نے آپ کی ولادت با سعادت کوپانچ شعبان المعظم ۳۸ ہجری،روز پنجشنبہ ، ظہر کے وقت ، شہر مدینہ میں بیان کی ہے ۔ سید بن طاووس نے آپ کی ولادت کی تاریخ پندرہ جمادی الاول ، پنجشنبہ کے روز ذکر کی ہے اور ”اعلام الوری “ میںجمادی الثانی بیان کی ہے۔

آپ کے القاب ،زین العابدین، زین الصالحین، وارث علم النبین ، المجتہد، الزکی، الامین، البکاء وغیرہ ہیں اور آپ کی کنیت، ابوالحسن، الخاص، ابومحمد، ابوالقاسم وغیر ہ ہیں۔

آپ نے دو سال حضرت علی (علیہ السلام) کی امامت کے زمانہ میں دس سال امام حسن مجتبی (علیہ السلام) کی امامت اور دس سال اپنے والد بزرگوار کی امامت میںزندگی بسرکی اور ان کے بعد ۳۴ سال تک اسلامی معاشرہ کی امامت اور ہدایت فرمائی ۔ امام زین العابدین(علیہ السلام) کربلا کے ہولناک واقعہ میں موجود تھے لیکن بیماری اور شدید بخار کی وجہ سے آپ نے جنگ نہیں کی ۔کیونکہ بیمار پر جہاد واجب نہیں ہے اور آپ کے والد ماجدنے آپ کو جنگ کی اجازت بھی نہیں دی تھی ۔

مصلحت الہی یہی تھی کہ امامت کا یہ سلسلہ باقی رہے اور امام سجاد (علیہ السلام) اس بزرگ ذمہ داری یعنی امامت اور ولایت کے فرائض انجام دیں۔ یہ وقتی بیماری زیادہ دن تک قائم نہیں رہی اور اس کے بعد امام سجاد (علیہ السلام) نے ۳۵ سال تک زندہ و سلامت رہے اور اس پوری مدت میں آپ نے خدمت خلق ، عبادات اور مناجات الہی انجام دیں۔ دس محرم ۶۱ ہجری میں جب آپ امامت کے منصب پر فائز ہوے تو آپ کی عمر ۲۴ سال تھی ۔

کربلاکے واقعہ میں اس قیام اور خونین واقعہ سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی ضرورت تھی اور امام حسین (علیہ السلام) کی شہادت کے پیغام کونشر کرنے کی ضرورت تھی جس کو امام سجاد (علیہ السلام) نے اپنی پھوپھی زینب (سلام اللہ علیہا) کے ساتھ قید و بند کی زندگی میں بہت ہی شجاعت اور شہامت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا اور اس طرح اس پیغام کو نشر کیا کہ صدیاں گزرنے کے بعد آج بھی پیغام باقی ہے اور ہمیشہ باقی رہے گا ۔ واقعہ کربلا اپنی عظمت و شان و شوکت اور ایمان و محبت کے لحاظ سے عصر عاشور ظاہرا ختم ہوگیا لیکن حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) اور حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) کی اصل ذمہ داری یہیں سے شروع ہوتی ہے۔

امام زین العابدین (علیہ السلام) نے کوفہ میں قیام کے دوران دو مرتبہ تقریر کی ، پہلی مرتبہ اس وقت جب منادی کرنے والوں نے لوگوں کو اسیروں کا تماشا دکھانے کے لئے بلایا ۔ اس وقت شہر کوفہ میں اسیروں کے لئے خیمہ نصب کئے گئے تھے ، امام زین العابدین (علیہ السلام) خیمہ سے باہر تشریف لائے اور اشارہ سے لوگوں کو خاموش ہونے کے لئے کہا ، امام سجاد (علیہ السلام) نے اپنی تقریر کو خدا وند عالم کی حمد و تعریف سے شروع کیا اور پھر رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر درود بھیجا اور پھر اس طرح فرمایا:

اے لوگو ! جو مجھ کو پہچانتا ہے وہ تو پہچانتا ہی ہے اور جو مجھے نہیں پہچانتا ہے تو وہ پہچان لے ، میں علی بن الحسین (علیہ السلام) ہوں ، وہی حسین جس کے سر اقدس کو نہر فرات کے نزدیک بغیر کسی جرم و خطا کے بدن سے جدا کردیا گیا ہے ۔

اے لوگو ! تمہیں خدا کی قسم ! کیا تمہیں یاد ہے کہ تم نے میرے والدکو خط لکھ کر دھوکا دیا ہے؟ اور تم نے (اپنے خطوں میں) ان کے ساتھ عہد و پیمان کیا تھا اور ان کی بیعت کی تھی؟ اس کے بعد تم نے ان سے جنگ کی اور ان کی کوئی مدد نہیں کی ۔ وائے ہو تم پر ! تم نے آخرت کے لئے کتنا برا زاد راہ اختیار کیا ہے، تم رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے پاس کس منہ سے جاؤ گے؟

جب امام (علیہ السلام) کی تقریر یہاں تک پہنچی تو اہل کوفہ بلند آواز سے گریہ کرنے لگے اور ان کے اندر کے چھپے ہوئے ضمیر جاگ گئے ، وہ ایک دوسرے کو سرزنش کرنے لگے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے : ہم تباہ و برباد ہوگئے ۔



1 2 3 next