اسلام میں عید غدیر کی اھمیت



اولاد علی علیہ السلام اور ان کے شیعہ اس روز کی یاد مناتے ھیں[6]

ثعالبی، شب غدیر کو امت اسلامیہ کے نزدیک مشھور شبوں میں شمار کرتے ھوئے کہتے ھیں:

 â€ÛŒÛ وہ شب Ú¾Û’ جس Ú©ÛŒ Ú©Ù„ میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم)Ù†Û’ غدیر خم میں اونٹوں Ú©Û’ کجاؤں Ú©Û’ منبر پر ایک خطبہ دیا اور فرمایا: ”من کنت مولاہ فعلیّ مولاہ“، اور شیعوں Ù†Û’ اس شب Ú©Ùˆ محترم شمار کیا Ú¾Û’ اور وہ اس رات میں عبادت اور شب بیداری کرتے ھیں۔“[7]

۲۔ عید غدیر کی ابتدائ

تاریخ کی ورق گرانی سے یہ معلوم ھوتا ھے کہ اس عظیم عید کی ابتداء پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے زمانہ سے ھوئی ھے۔ اس کی شروعات اس وقت ھوئی جب پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے غدیر کے صحرا میں خداوندعالم کی جانب سے حضرت علی علیہ السلام کو امامت و ولایت کے لئے منصوب کیا۔ جس کی بنا پر اس روز ھر مومن شاد و مسرور ھوگیا، اور حضرت علی علیہ السلام کے پاس آکر مبارکباد پیش کی۔ مبارک باد پیش کرنے والوں میں عمر و ابوبکر بھی ھیں جن کی طرف پھلے اشارہ ھوچکا ھے، اور اس واقعہ کو اھم قرار دیتے ھوئے اور اس مبارکباد کی وجہ سے حسان بن ثابت اور قیس بن سعد بن عبادہٴ انصاری وغیرہ نے اس واقعہ کو اپنے اشعار میں بیان کیا ھے۔

غدیر کے پیغامات

اس زمانہ میں بعض افراد ”غدیر کے پیغامات“ کو اسلامی معاشرہ میں نافذ کرنا چاہتے ھیں۔ لہٰذا مناسب ھے کہ اس موضوع کی اچھی طرح تحقیق کی جائے کہ ”غدیر خم “کے پیغامات کیا کیا ھیں ؟ کیا اس کے پیغامات رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی حیات مبارک اور آپ کی وفات کے بعد کے زمانہ سے مخصوص ھیں یا روز قیامت تک ان پر عمل کیا جاسکتا ھے؟ اب ھم یھاں پر غدیر کے پیغام اور نکات کی طرف اشارہ کرتے ھیں جن کی یاددھانی جشن اور محفل کے موقع پر کرانا ضروری ھے:

۱۔ ھر پیغمبر کے بعد ایک ایسی معصوم شخصیت کا ھونا ضروری ھے جو ان کے راستہ کو آگے بڑھائے اور ان کے اغراض و مقاصد کو لوگوں تک پھنچائے، اور کم سے کم دین و شریعت کے ارکان اور مجموعہ کی پاسداری کرے، جیسا کہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اپنے بعد کے لئے ان چیزوں کے لئے جانشین معنی کیا اور ھمارے زمانہ میں ایسی شخصیت حضرت امام مہدی علیہ السلام ھیں۔

۲۔ انبیاء علیھم السلام کا جانشین خداوندعالم کی طرف سے منصوب ھونا چاہئے جن کا تعارف پیغمبر کے ذریعہ ھوتا ھے، جیسا کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اپنے بعد کے لئے اپنا جانشین معین کیا؛ کیونکہ مقام امامت ایک الٰھی منصب ھے اور ھر امام خداوندعالم کی طرف سے خاص یا عام طریقہ سے منصوب ھوتا ھے۔

۳۔ غدیر کے پیغامات میں سے ایک مسئلہ رھبری اور اس کے صفات و خصوصیات کا مسئلہ ھے، ھر کس و ناکس اسلامی معاشرہ میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کا جانشین نھیں ھوسکتا، رھبر حضرت علی علیہ السلام کی طرح ھو جو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے راستہ پر ھو، اور آپ کے احکام و فرمان کو نافذ کرے، لیکن اگر کوئی ایسا نہ ھو تو اس کی بیعت نھیں کرنا چاہئے۔ لہٰذا غدیر کا مسئلہ، اسلام کے سیاسی مسائل کے ساتھ متحد ھے۔

چنانچہ ھم ”یمن“ میں ملاحظہ کرتے ھیں کہ چوتھی صدی کے وسط سے جشن غدیر کا مسئلہ پیش آیا اور ھر سال عظیم الشان طریقہ پر یہ جشن منعقد ھوتا رھا، اور مومنین ھر سال اس واقعہ کی یاد تازہ کرتے رھے اور نبوی معاشرہ میں رھبری کے شرائط سے آشنا ھوتے رھے، اگرچہ چند سال سے میں حکومت وقت اس جشن کے اھم فوائد اور پیغامات کی بنا پر اس میں آڑے آنے لگی، یھاں تک کہ ھر سال اس جشن کو منعقد کرنے کے اصرار کی وجہ سے چند لوگ قتل ھوجاتے ھیں، لیکن پھر بھی مومنین اسلامی معاشرہ میں اس جشن کی برکتوں اور فوائد کی وجہ سے اس کو منعقد کرنے پر مصمم ھیں۔

۴۔ غدیر کا ایک ھمیشگی پیغام یہ ھے کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے بعد اسلامی معاشرہ کا رھبر اور نمونہ حضرت علی علیہ السلام یا ان جیسے ائمہ معصومین میں سے ھو۔ یہ حضرات ھم پر ولایت اور حاکمیت رکھتے ھیں، لہٰذا ھمیں ان حضرات کی ولایت کو قبول کرتے ھوئے ان کی برکات سے فیضیاب ھونا چاہئے۔



back 1 2 3 4 next