دنیائے اسلام کی اہم ضرورت اسلامی اتحاد

مترجم: سید حسین حیدر زیدی


علمائے اسلام کے اس گروہ کی نظر میں کوئی ضرورت اس چیز کو قبول نہیں کرتی کہ مسلمان، اسلامی اتحاد کی وجہ سے اپنے مذہب کے اصول یا فروعات میں صلح و مصالحہ کریں ، جس طرح یہ چیزقابل قبول نہیں ہے کہ مسلمان اپنے اصول اور فروع کے درمیان اختلاف ہونے کی وجہ سے آپس میں بحث و استدلال کریں اور کتابیں لکھیں ۔ ان کی نظر میں اسلامی اتحاد صرف اس بات کو ضروری سمجھتاہے کہ مسلمان اپنے اندر بغض و حسد کے احساسات کو پیدا نہ ہونے دیں ، ایک دوسرے کو سب وشتم نہ کریں، ایک دوسرے پر تہمت نہ لگائیں، جھوٹ نہ بولیں، ایک دوسرے کی منطق کا مذاق نہ اڑائیں،ایک دوسرے کے احساس و عواطف کو جریحہ دار نہ کریں اور منطق و استدلال کے حدود سے خارج نہ ہوں، اور حقیقت میں (کم سے کم)جن حدود کو اسلام نے غیر مسلمانوں کو اسلام کی دعوت دیتے وقت ضروری جانا ہے ان کی اپنے متعلق رعایت کریں : '' ادع سبیل ربک بالحکمة و الموعظة الحسنة و جادلھم بالتی ھی احسن''

بعض افراد کے ذہن میں یہ تصور پیدا ہوگیا ہے کہ جن مذاہب کے فروعات میں اختلاف ہے یہ آپس میں ایک دوسرے کے بھائی بن سکتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ ایک صف میں کھڑے ہوسکتے ہیں جیسے شافعی اور حنفی ۔ لیکن جن مذاہب میں اصول کے اعتبار سے اختلاف پایا جاتا ہے وہ کسی بھی صورت میں ایک دوسرے سے بھائی چارگی قائم نہیں کرسکتے ۔ اس گروہ کی نظر میں '' مذہبی اصول'' ایک ایسا مجموعہ ہے جو ایک دوسرے سے متصل ہے اور اصولیوں کی اصطلاح میں ''اقل و اکثر '' کی ایک نوع ہے یعنی ایک اصل کے خراب ہونے سے تمام اصول خراب ہوجائیں گے ۔ مثال کے طور پر اگر اصل ''امامت'' کو نقصان پہنچتا ہے اور اس کو قربان کردیا جاتا ہے تو اس اصل کے ماننے والوں کی نظر میں اتحاد اور بھائی چارگی کا موضوع منتفی ہے ۔ اسی دلیل کی بناء پر شیعہ اور اہل سنت کسی بھی صورت میں ایک دوسرے کا ہاتھ نہیں پکڑسکتے اور ایک ساتھ صف میں کھڑے نہیں ہوسکتے چاہے ان کا دشمن کوئی بھی ہو ۔

پہلا گروہ اس گروہ کو جواب دیتا ہے کہ کوئی ایسی دلیل موجود نہیں ہے کہ ہم تمام اصولوں کو ایک ایسا مجموعہ سمجھیں جو ایکدوسرے سے متصل ہے اور ہم یہاں پراس میں سے ایک اصل کی یا تمام اصول کی پیروی کریں ،یہاںپر قاعدہ '' المیسور لا یسقط بالمعسور'' اور '' مالایدرک کلہ لا یترک کلہ'' جاری ہوگا ۔حضرت علی (علیہ السلام) نے بہت ہی روشن، واضح اور معقول منطق کواپنایا جو کہ آپ جیسی شخصیت کے لئے سزاوار تھی ۔

آپ نے اپنا حق حاصل کرنے کے لئے ہر طرح کی کوشش سے استفادہ کیا اور تمام امکانات و وسائل سے استفادہ کیا تاکہ اصل امامت کو احیاء کریں لیکن کبھی بھی ''یا سب کچھ یا کچھ بھی نہیں'' جیسے نعروں کی پیروی نہیں کی ، بلکہ برعکس اصل '' مالایدرک کل لا یترک کلہ'' کو اپنے کام کی بنیاد قرار دیا ۔

علی (علیہ السلام) نے اپنا حق چھیننے والوں سے قیام نہیں کیا اور آپ کا قیام نہ کرنا اضطراری حالت میں نہیں تھا بلکہ آپ نے بہت ہی حساب و کتاب کے ساتھ اس کا انتخاب کیا ، آپ موت سے نہیں ڈرتے تھے ، پھر آپ نے کیوں قیام نہیں کیا ،صرف اتنا ہی تو ہوتا کہ آپ قتل ہوجاتے ، راہ خدا میںقتل ہونا آپ کی آخری خواہش تھی ، آپ ہمیشہ شہادت کی آرزو کرتے تھے ، آپ شہادت سے اس طرح مانوس تھے جس طرح ایک بچہ اپنی ماں کے پستان سے مانوس ہوتا ہے . حضرت علی (علیہ السلام)اپنے صحیح حساب و کتاب میں اس نکتہ پر پہنچ گئے تھے کہ اسلام کی مصلحت ان شرائط میں یہ ہے کہ قیام کو ترک کرکے سب کے ساتھ مدد کی جائے اس مطلب کی آپ نے کئی جگہ تصریح کی ہے ۔

اپنے ایک خط میں مالک اشتر (نہج البلاغہ Ú©Û’ خطوط میں خط نمبر ٦٢ ) Ú©Ùˆ لکھتے ہیں :  ''میںنے اپنا ہاتھ روک لیا یہاں تک کہ میں Ù†Û’ دیکھا کہ لوگ دین اسلام سے واپس جارہے ہیں (یعنی دین اسلام Ú©Ùˆ Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ رہے ہیں)اور لوگوں Ú©Ùˆ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم) Ú©Û’ دین Ú©ÛŒ نابودی Ú©ÛŒ دعوت دے رہے ہیں ØŒ تو مجھے یہ خوف پیدا ہوگیا کہ اگر اس رخنہ اور بربادی Ú©Ùˆ دیکھنے Ú©Û’ بعدمیں Ù†Û’ اسلام اور مسلمانوں Ú©ÛŒ مدد نہ Ú©ÛŒ تو اس Ú©ÛŒ مصیبت روز قیامت اس سے زیادہ عظیم ہوگی جو آج اس حکومت Ú©Û’ Ú†Ù„Û’ جانے سے سامنے آرہی ہے جو صرف چند دن رہنے والی ہے''Û”

چھے افراد کی شوری (کمیٹی) میں عبدالرحمان بن عوف کے ذریعہ عثمان کے انتخاب کے بعد حضرت علی (علیہ السلام) نے اپنی شکایت اور ان کے ساتھ مدد کرنے کو اس طرح بیان فرمایا:

تم سب جانتے ہو کہ میں خلافت کے لئے تم سب سے زیادہ سزاوار ہوں اور خدا کی قسم جب مسلمانوں کا کام صحیح سلامت ہو اور میرے رقیب مجھے الگ کرنے پر قناعت کریں اورصرف مجھ پر ظلم واقع ہو تو میں کوئی مخالفت نہیں کروں گا ۔

ان سب باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ علی (علیہ السلام) ''یا سب کچھ یا کچھ بھی نہیں'' والی اصل کو محکوم سمجھتے ہیں ، اس مقالہ میں حضرت علی (علیہ السلام) کی سیرت کو زیادہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ،اس متعلق تاریخی شواہد و دلائل بہت زیادہ ہیں ۔

اسی طرح استاد شہید مطہری کتاب '' امامت و رہبری '' کے مقدمہ میں'' اسلامی اتحاد'' کے مفہوم کے متعلق کہتے ہیں : گذشتہ سو سالوں سے مومن اور روشن فکر اسلامی علماء کے درمیان اسلامی اتحاد جوکا مفہوم بیان ہو رہا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلامی فرقے اسلامی اتحاد کی وجہ سے اپنے اعتقادی یاغیر اعتقادی اصولوں سے چشم پوشی کرلیں اور تمام مذاہب کے مشترکات کو اخذ کرلیں اور ان کے خصوصی مسائل کو ترک کردیں، یہ کام نہ منطقی ہے اور نہ عملی ہے اور نہ ہی معقول ہے ۔



back 1 2 3 4 next