دنیائے اسلام کی اہم ضرورت اسلامی اتحاد

مترجم: سید حسین حیدر زیدی


مسلمان جب ایران سے جنگ کیلئے آمادہ ہوگئے تو خلیفہ وقت نے خود جنگ میں شرکت کرنا چاہا ، لیکن حضرت علی (علیہ السلام) نے جواب دیا : نہیں تم شرکت نہ کرو ، کیونکہ جب تک تم مدینہ میں ہو دشمن یہ سوچتا رہے گا کہ اگر ہم میدان جنگ میں مسلمانوں کی تمام فوج کو ختم بھی کردیں تو مدینہ سے ان کی مدد کے لئے دوسری فوج آجائے گی لیکن اگر تم خود جنگ میں جائو گے تووہ کہیں گے : ''ھذا اصل العرب'' عرب کی اصل و بنیاد یہ ہے اور پھر وہ اپنی فوج کے ذریعہ گھمسان کی لڑائی لڑ یں گے تاکہ تمہیں ختم کردیں اور اگر تم کو ختم کردیا گیا تو پھر وہ بہت ہی طاقت کے ساتھ مسلمانوں سے لڑیں گے(١) ۔

حضرت علی (علیہ السلام) نے عملی میدان میں بھی اسی طریقہ کو اپنایا ، آپ نے کسی بھی خلیفہ کی طرف سے دئیے گئے کسی بھی عہدہ کو قبول نہیں کیا ، نہ کسی فوج کی سپہ سالاری اور نہ کسی جگہ کی گورنری اور حکومت ۔ کیونکہ ان عہدوں میں سے کسی ایک کو بھی قبول کرنے کا مطلب اپنے مسلم حق سے چشم پوشی ہے ۔ لیکن اس کے باوجود کہ آپ نے خود کسی عہدہ کو قبول نہیں کیا لیکن اپنے کسی رشتہ دار اور اصحاب کو منع بھی نہیں کیا، کیونکہ ان کا قبول کرنا صرف ان کی مدد کرنا ہے لیکن اس کے معنی ان کی خلافت پر دستخط کرنے کے نہیں ہیں(٢) ۔

اس متعلق حضرت علی (علیہ السلام) کی سیرت بہت ہی دقیق ہے آپ نے اس وقت بہت ہی ہمت سے کام لیا جب دوسرے تعلقات کو ختم کررہے تھے اور آپ ان تعلقات کو ایک دوسرے سے متصل کررہے تھے ، وہ پھاڑ رہے تھے اور آپ سی رہے تھے ۔

ابوسفیان نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ چاہا کہ آپ کی ناراضگی سے استفادہ کرے ۔ خیرخواہی اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی وصیت کا احترام کرتے ہوئے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے اپنا انتقام لے ، لیکن علی (علیہ السلام) اس سے بھی زیادہ مسائل سے باخبر تھے تاکہ ابوسفیان کو منہ توڑجواب دیں لہذا آپ نے اس کو منہ توڑ جواب دیا اور اپنے سے دور کردیا ۔

ہر زمانے میں ابوسفیان اور حی بن اخطب موجود ہیں ، ہمارے زمانے میں حی بن اخطب جیسوں کی حرکتیں نمایاں اور ظاہر ہیں ۔ تمام مسلمانوں خصوصا شیعہ اور حضرت علی (علیہ السلام) کے ماننے والوں کو آپ کی سیرت و سنت کو اس سلسلہ میں نصب العین قرار دینا چاہئے ۔ ابوسفیان اور حی بن اخطب جیسوں کے فریب سے بچنا چاہئے ۔

استاد مطہری کے ''اسلامی اتحاد'' سے متعلق بیان سے ہم نے یہ مفہوم نکالا ہے کہ اسلامی اتحاد سے مرادیہ نہیں ہے کہ اسلام کے مختلف مذاہب ایک مذہب میں متحد ہوجائیں، بلکہ ہر فرقہ کو حق ہے کہ وہ اپنے اصول پر باقی رہے اور دوسرے فرقوں میں جو مشترکات پائے جاتے ہیں ان میں متحد ہوجائیں ، دشمنوں کے مقابلہ میں ایک صف میں کھڑے ہوجائیں ، ہم سمجھتے ہیں کہ اسلامی اتحاد صرف ایک خواب و خیال نہیں ہے بلکہ تھوڑی سی کوشش اور چالاکی سے ہم اپنے مقصود تک پہنچ سکتے ہیں ، ہمیں امید ہے کہ اس مقدس ہدف کے کامل طور سے محقق ہونے کے ذریعہ ہم اسلامی دنیا کی عظمت اور اقتدار کو دیکھ سکیں گے ۔

حاشیہ جات:

Ù¡Û”  نہج البلاغہ، خطبہ ١١٤۔

Ù¢Û”  مراجعہ کریں، شرح ابن ابی الحدید ØŒ خط نمبر ٦٢ Ú©Û’ ذیل میں Û” قال الامام :  '' فامسکت یدی حتی رایت راجعة الناس قد رجعت عن الاسلام''Û”

اتحاد مسلمین کے مخالفین ، اسلامی اتحاد سے غیر منطقی اور غیر علمی مفہوم بنانے کیلئے اس کو وحدت مذاہب کا نام دیتے ہیں تاکہ یہ پہلے ہی قدم پر شکست سے دوچار ہوجائے ۔ ظاہر ہے کہ اسلامی علماء اور دانشوروں کی اسلامی اتحاد سے مراد تمام مذاہب کو ایک مذہب میں حصر کرنا یا مشترکات کو لے لینا اور اختلافات کو چھوڑ دینا نہیں ہے جو کہ نہ معقول ہے اور نہ منطقی ہے ، بلکہ ان دانشوروں کی مراد یہ ہے کہ مسلمان ، اپنے مشترک دشمن کے مقابلہ میں ایک صف میں کھڑے ہوجائیں ۔

ہمارے زمانہ کے اصلاح پسند اور دانشور مسلمان فرق و مذاہب کے اتحاد واتفاق کو خاص طور سے آج کے اوضاع و احوال کو مد نظر رکھتے ہوئے جس میں دشمن چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے اور ہمیشہ مختلف وسائل کے ذریعہ پرانے اور نئے اختلافات کو ہوا دے رہا ہے،اسلام کی سب سے اہم ضرورت سمجھتے ہیں ، اساسی طور پر جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ شارع مقدس اسلام نے اسلامی اتحاد اور بھائی چارگی کی طرف خاص توجہ دی ہے اور یہ اسلام کے اہم مقاصد میں سے ایک ہے ۔ قرآن ، سنت اور تاریخ اس پر گواہ ہے ۔



back 1 2 3 4