مذہب اشعری کے راہنما

سيد حسين حيدر زيدي


اس توجیہ سے جو بات حاصل ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اشعری حقیقت میں عقاید معتزلہ اور ان کی روش کے مخالف نہیں تھے اور ان کا اس سے جدا ہونا صرف ایک کلامی حیلہ اور مسلمانوں کی مصلحت کیلئے تھا تاکہ وہ اس کے ذریعہ ان کو تجیسم اور تشبیہ کے خطرات سے بچائیں، لیکن تاریخی حقیقت اس توجیہ سے سازگار نہیں ہے کیونکہ :

اولا Ù‹:  مجسمہ اور مشبہ اہل حدیث کا صرف ایک گروہ ہے جس Ú©Ùˆ کبھی کبھی ''حشویہ'' سے بھی تعبیر کرتے ہیں، اور ان Ú©Û’ عقاید Ú©Ùˆ اہل حدیث قبول نہیں کرتے جیسا کہ ابن خزیمہ Ù†Û’ کہا ہے:

'' انا نثبت للہ ما اثبتہ اللہ لنفسہ و نقر بذلک بالسنتنا و نصدق بذلک بقلوبنا من غیر ان نشبہ وجہ خالقنا بوجہ احد المخلوقین ، وعز ربنا عن ان نشبھہ بالمخلوقین''(٨) ۔

ہم خدا وند عالم کی اس صفت کو جس کو اس نے خود ثابت کیا ہے ثابت کرتے ہیں، ان پر ایمان رکھتے ہیں اور زبان پر جاری کرتے ہیں اور خداوندعالم کے چہرہ کو اس کی مخلوق کے چہرہ سے تشبیہ نہیں دیتے ۔

ثانیا Ù‹ :  اشعری Ú©ÛŒ کتابوں میں مراجعہ کرنے Ú©Û’ بعد جو چیز سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ حقیقت میں مذہب معتزلہ Ú©Û’ عقاید Ùˆ کلام Ú©ÛŒ مخالفت کرتے تھے اور ان Ú©ÛŒ مخالفت ظاہری نہیں تھی Û”

Ù¤Û”  کتاب '' تاریخ فلسفہ در جہان اسلامی'' Ú©Û’ مولف اس متعلق کہتے ہیں : شاید اس Ú©ÛŒ علت وہ شگاف تھا جو اسلامی معاشرہ میں پیدا ہوگیا تھااور یہ خطرہ تھا کہ یہ دین Ú©ÛŒ نابودی کا سبب بن جائے اور اشعری چونکہ ایک مرد مسلمان اور پرہیزگار تھا لہذا وہ نہیں چاہتا تھا کہ دین خدا اور سنت رسول ØŒ عقاید معتزلہ پر فدا ہوجائیں، عقل Ú©ÛŒ پیروی ان Ú©Ùˆ ایسے عقاید Ú©Ùˆ قبول کرنے پر مجبور کرتی تھی کہ صحیح اسلام اس کا اقرار نہیں کرتا تھااس Ú©Û’ علاوہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ محدثین اور فرقہ مشبہ Ú©ÛŒ قربانی بنیں جو کہ صرف نص Ú©Û’ ظاہر پر عمل کرتے تھے، اس Ú©ÛŒ روح Ùˆ حقیقت پر نہیں، جو دین Ú©Ùˆ جمود Ú©ÛŒ طرف Ù„Û’ جاتے ہیں، اور عقل Ú©Ùˆ راضی نہیں کرپاتے اوراحساسات دینی Ú©Ùˆ سیراب نہیں کرپاتے تھے Û” اشعری چاہتے تھے عقل اور اصحاب نص Ú©Û’ درمیان ایک درمیانی راستہ کاانتخاب کریں ایساراستہ جس میں اسلام Ú©ÛŒ نجات اوراکثر مسلمانوں Ú©ÛŒ خشنودی پائی جاتی تھی (Ù©) Û”

یہاںپر دو باتوں Ú©Ùˆ ایک دوسرے سے الگ کرنا ضروری ہے :  ایک یہ ہے کہ اشعری Ù†Û’ مذہب معتزلہ سے کیوں دوری اختیار کی؟ اور دوسرے یہ ہے کہ ان Ú©ÛŒ مخالفت کا اعلان کرنے اور دوسرا نیا مذہب بنانے Ú©ÛŒ کیا وجہ تھی ØŸ

پہلے سوال کے جواب میںکہنا چاہئے : کلام کے مختلف مسائل میں وہ معتزلہ کے عقاید و نظریات کو خصوصا توحید اور عدل سے متعلق مسائل کو صحیح نہیں سمجھتے تھے ۔ عقاید معتزلہ کے صحیح نہ ہونے کی دلیلیں ان کے کلامی آثار میں اور ملل و نحل کی کتابوں میں موجود ہیں ۔ کیونکہ ان کا اپنے استاد ابو علی جبائی کے ساتھ قاعدہ اصلح کے متعلق مناظرہ مشہور ہے ۔

معتزلہ کی مخالفت کا اعلان کرنے کی وجہ کامل طور سے واضح نہیں ہے لیکن معتزلہ اور اہل حدیث کے درمیان مختلف بہ کلامی موضوعات میں ان کے عقاید ونظریات کی طرف توجہ کرنے اور ان کی دونوں گروہوں سے مخالفت کرنے کی وجہ سے یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ وہ دینی عقاید کی لغزشوں سے اصلاح کرنا چاہتے تھے جس کو وہ معتزلہ کی عقل گرائی اور اہل حدیث کی ظاہر گرائی میں احساس کررہے تھے ۔ اشعری کی معتزلہ سے مخالفت کرنے کی مذکورہ مختلف علتوں میں سے آخری علت زیادہ مناسب نظر آتی ہے لیکن یہ بات کہ اشعری اس رسالت کو وفا کرنے میں کامیاب ہوئے یا نہیں اس کے متعلق آئندہ بحث کریں گے ۔

شایدیہی اصلاح طلبی کی وجہ تھی کہ انہوں نے اہل سنت کے فقہی مذاہب میں کسی کی طرفداری نہیں کی ہے لہذا کسی نے ان کو شافعی ، بعض نے مالکی اور بعض نے حنبلی کہا ہے ، گویا ان کی فکر یہ تھی کہ اہل سنت کے مختلف مذاہب و فرق ان سے راضی رہیں، جیسا کہ ابن عساکر نے ان سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے : سب مجتہد ہیں اور حق پر ہیں، اصول میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے بلکہ ان کا اختلاف فروع میں ہے(١٠) ۔



back 1 2 3 4 next