مرجعیت کے عام شرائط اور نص



آپ (ع) نے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا:

میں نے تو بچپن ہی میں عرب کا سینہ پیوند زمین کردیا تھا اور قبیلہ ربیعہ اور مضر کے ابھرے ھوئے سینگوں کو توڑ دیا تھا تم جانتے ہی ھو کہ رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے قرابت داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے ان کے نزدیک میرا کیا مقام تھا میں بچہ ہی تھا کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے مجھے گود لے لیا تھا، اپنے سینے سے لگائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے اپنے جسم مبارک کو ہم سے مس کرتے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سنگھاتے تھے، پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کو لقمہ بناکر میرے منھ میں ڈالیتے تھے، انھوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا اور نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی، اللہ نے آپ کی دودھ بڑھائی کے وقت ہی سے فرشتوں میں ایک عظیم المرتبت ملک (روح القدس) کو آپ کے ہمراہ کردیا تھا، جو انھیں شب و روز عظیم خصلتوں اور پاکیزہ سیرتوں پر لے چلتا تھا اور میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے۔

آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کرتے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے۔

اور ہر سال کوہ حرا میں کچھ عرصہ قیام فرماتے تھے اور وہاں میرے علاوہ کوئی انھیں نہیں دیکھتا تھا اس وقت رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور (ام المومنین) خدیجہ کے گھر کے علاوہ کسی گھر کی چار دیواری میں اسلام نہ تھا البتہ تیسرا ان میں سے میں تھا، میں وحی رسالت کا نور دیکھتا تھا اور نبوت کی خوشبو سونگھتا تھا۔

جب آپ پر (پہلے پہل) وحی نازل ھوئی تو میں نے شیطان کی ایک چیخ سنی، جس پر میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)! یہ چیخ کیسی تھی؟

آپ نے فرمایا: یہ شیطان ھے جو اپنی پرستش سے مایوس ھوگیا ھے، اے علی! جو میں سنتا ھوں تم بھی سنتے ھو جو میں دیکھتا ھوں تم بھی دیکھتے ھو، فرق اتنا ھے کہ تم نبی نہیں ھو بلکہ (میرے) وصی و جانشین ھو اور یقیناً بھلائی کی راہ پر ھو۔[2]

خلیفہ کی تعیین اور احادیث نبوی

اسلامی فرقوں کے درمیان خلافت کے مسئلہ پر بہت مباحثہ و مجادلہ ھوا ھے، خاص طور سے اس نظریہ کے قائل افراد جو یہ کہتے ہیں کہ رسول کے بعد امامت و خلافت کے حوالے سے رسول کی کوئی نص موجود نہیںھے اور اس رخنہ کو پر کرنے کے لئے یہ کہتے ہیں کہ رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے یہ اختیار امت کے ہاتھوں چھوڑ دیا تھا اور شیعہ حضرات جواس بات کے معتقد ہیں کہ نص نبوی موجود ھے اور رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے علی ابن ابی طالب + کو امت کا ہادی و رہنما اور امام قرار دیا تھا، دونوں فرقوں کے درمیان بڑے ہی نظریاتی رد و بدل ھوئے ہیں۔

اگر ہم حیات نبوی کا جائزہ لیں تو ہم کو معلوم ھوگا کہ نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے امامت و خلافت کے مسئلہ کو بہت اہمیت دی ھے یہاں تک کہ معمولی مقامات پر بھی اس کی اہمیت تھی بلکہ دو سفر کرنے والوں سے آپ مطالبہ کرتے کہ تم میں ایک دوسرے کا حاکم بن جائے۔

آپ جب کبھی کسی جنگ یا سفر کے سبب مدینے کو ترک فرماتے تو کسی نہ کسی کو اس کا ذمہ دار بہ نفس نفیس معین فرماتے تھے اور لوگوں کو کبھی اس بات کا حق نہیں دیتے تھے کہ وہ جس کو چاہیں چن لیں!

تو جب نبی کریم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اپنی حیات میں تعیین خلیفہ کے سلسلہ میں اتنا حساس تھے تو کتنی حیرت انگیز بات ھے کہ اپنے بعد کے عظیم مسئلہ یعنی امت کی رہبری کو ایسے ہی چھوڑ کر چلے جائیں گے!



back 1 2 3 4 5 next