امامت انسانی ضرورت اور الٰہی نعمت



پہلی آیت میں پروردگار نبوت کے بارے میں فعل ماضی کے ساتھ کلام کررہا ہے: (خدا نے احسان کیا) کیونکہ نبوت ایک محدود زمانہ تک کے لئے ہے، اگر چہ اصل دین باقی رہنے والا ہے۔ لیکن دوسری آیت میں امامت کے بارے میں فعل مضارع کےساتھ کلام کررہا ہے کہ جو تدریج اورجاری رہنےکو بتاتا ہے، گویا پروردگار فرما رہا ہے کہ ہم ہمیشہ لوگوں کے لئے امام معصوم تعیین کرتےرہیں گے اور ہم ہی زمین میں کمزور رہ جانےوالوں کو مقام امامت پر پہنچائیں گے۔ فعل مضارع اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ زمین کبھی بھی امام سے خالی نہیں رہی ہے اور جب تک بشر وانسانی معاشرے زمین پر ہیں، وہ معصوم پیشواؤں کے محتاج ہیں۔

امامت ØŒ یہ الہی احسان ہمیشہ رہےگا اور لوگ اس سے بہرہ مند ہوتے رہیں Ú¯Û’ØŒ ہر زمانہ میں ایک معصوم امام ہے جو آسمانی اور باطنی دنیا میں عظمت رکھتا ہے اگر چہ زمین پرکمزور اور بے بس ہو۔ اور وہ لوگ جو عالم باطن میں ضعیف اور حقیر ہیں، اس بلند مقام تک ہر گز ان Ú©ÛŒ رسائی نہیں ہوگی اگرچہ زمین پر بڑے لوگ سمجھے  جائیں۔

جو شخص خدا Ú©Û’ عظیم ترین لطف Ú©Ùˆ نہ پہچانے اور اسے نعمت محسوب نہ کرے وہ اس Ú©ÛŒ ظرافتوں او رلطافتوں سے محروم رہے گا، اور پھر نہ صرف یہ کہ وہ خود Ú©Ùˆ اس Ú©Û’ فیوضات سے دور نہیں رکھے گا، بلکہ نعمت Ú©Ùˆ پہچاننے اور اس کا شکر ادا کرنے والوں Ú©Û’ ساتھ مقابلہ Ú©Û’ لئے اٹھ کھڑا ہو گا اور انکار آمیز انداز میں اس طرح کہے گا کہ :جعفری شیعہ یہ عقیدہ رکھتے  ہیں کہ امامت خدا کا لطف ہے، لطف یقیناً ذات پروردگار سے صادر ہوتا ہےاور یجب عن اﷲہے لہٰذا امام خواہ ظاہر ہو یا غائب،ہمیشہ موجود ہے۔ اگر قبول کر لیا جائے کہ امامت لطف ہے جس چیز Ú©Ùˆ آپ مانتے ہیں وہ ہرگز لطف نہیں ہے، وہ امام جسے نہ لوگ دیکھتے ہیں اور نہ وہ لوگوں Ú©Ùˆ دیکھتا ہے،لوگوں کا ان کےساتھ رابطہ ٹوٹ چکا ہے اور سب امام  تک پہنچ بھی نہیں سکتے، پس یہ لطف نہیں ہے آپ Ú©Û’ گمان میں لطف تب ہے کہ امام زندہ ہو، حاضر وناظر ہو، لوگ انھیں دیکھیں اور اپنی ضرورتوں Ú©Ùˆ امام Ú©Û’ سامنے پیش کریں ۔اور وہ بھی لوگوں Ú©Û’ امور  Ú©ÛŒ باگ دوڑقبول کرے، معاشرہ Ú©Û’ علمی وعملی سوالات کا جواب دے اور مشکلات Ú©Ùˆ بر طرف کرے ،پس اگر قاعدہ لطف صحیح ہو اور ہم اسکے قضیہ کبر یٰ یعنی Ú©Ù„ÛŒ قانون Ú©Ùˆ قبول بھی کرلیں، توبھی اس قاعدےکا قضیہ صغریٰ یعنی جو مقصود ہے، قابل قبول نہیں ہے۔

چنانچہ اس طرح کی باتیں مکتب جعفری میں امامت کی حقیقت سے جہالت کی بنا پر سامنےآتی ہیں۔ محقق طوسیؒ کا” شرح تجرید” میں بیان مختصر ہونے کے باوجود، اس شک وتردید کامکمل جواب ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ! امام کا وجود ایک لطف ہے اور ان کا (امر ونہی اور عہدہ قبول کرتے ہوئے مسلمانوں کےامور میں) تصرّف کرنا ایک دوسرا لطف ہے اور امام کی غیبت اور ان کا تصرف نہ کرنا ہماری وجہ سے ہے، بالفاظ دیگر ، امام کا وجود خواہ غائب ہی کیوں نہ ہو، لطف الٰہی اور اس کا عظیم احسان ہے۔ ([8])

جو صاحب بصیرت انسان یہ جان لےکہ امامت، خدا وند متعال کا احسان اور عظیم لطف ہے، وہ امامت کی معرفت رکھتا ہے اور اس کے نتیجہ میں وہ امام شناس بھی ہےپھراس کی پیروی بھی کرتا ہے اور آخر کار انوار ولایت کے زیر سایہ، معنوی زندگی جو کہ آب حیات ہےاس کے وجود کی گہرائیوں سے جاری ہوجائیگی۔

آب حیات، بارش یا برف کی طرح نہیں ہےکہ آسمان سے برسے ،یا چشمہ کی طرح زمین سے ابل پڑے ،بلکہ وہ جان وروح سے نکلتا ہے اور دل سے جاری ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ عمل کرنے والے علماء ہمیشہ زندہ ہیں:

(ھلک خزّان الاموال وہم احیاء العلماء باقون مابقی الدھر)([9])

مال ودولت کو جمع کرنے والے ہلاک ہوگئے اور وہ (علما) زندہ ہیں، علما ہمیشہ ہیں جب تک زمانہ باقی ہے۔

مال ودولت کا ذخیرہ کرنے والے ظاہری طور یہ زندہ ہیں لیکن باطن میں  مردہ ہیں چونکہ ان Ú©ÛŒ حیات انسانی نہیں ہے بلکہ نباتاتی اورحیوانی ہے، لیکن سچے علماءاورپاکیزہ لوگ مرنے Ú©Û’ بعد بھی زندہ ہیں کیونکہ انہوں Ù†Û’ انسانی حیات سے اپنا نصیب لیا ہے اور ان Ú©Û’ نفوس Ú©Û’ اندر آب حیات کا چشمہ پھوٹا ہے۔

 



back 1 2 3 4 next