جاہلانہ زندگی کا معیار



“مٰاتَ مٖیتَۃَ الجٰاھِلِیَّۃَ” ([4]) Ú©ÛŒ تعبیر دیگر متعدد مقامات پر بھی استعمال ہوئی ہے، جیسے مقام وصیت میں: “مَن مٰاتَ بِغَیرِ وَصِیَّۃٍ مٰاتَ مٖیتَۃَ الجٰاھِلِیَّۃَ”[5] لیکن ان دو تعبیروں میں فرق ہے: حدیث وصیت میں جاہلیت Ú©ÛŒ موت، کمال Ú©ÛŒ نفی کر رہی ہے، لیکن جو حدیث ہر عصر Ú©Û’ امام Ú©ÛŒ شناخت Ú©Û’ بارے میں ہے ا س میں حقیقت Ú©ÛŒ نفی ہو رہی ہے۔ مثال Ú©Û’ طور پر “ حدیث نبوی “لا صلاۃ لجار المسجد إلّا فی مسجدہ” ([6]) اور رسول اکرم ï·º Ú©ÛŒ حدیث: “لاصلاۃ إلا بفاتحۃ الکتاب”[7] میں لاصلوۃ Ú©ÛŒ تعبیر کا آنا کہ  دونوں حدیث  میں نماز Ú©Û’ تمام ہونے Ú©Ùˆ بتا یا گیا ہے اس فرق Ú©Û’ ساتھ کہ پہلی حدیث میں مراد نفی کمال ہے اور دوسری حدیث میں نفی حقیقت مقصود ہے۔

 Ø§Ø³ Ú©ÛŒ وضاحت  یہ ہے کہ دوسری حدیث میں، عبارت”لاصلوۃ” کا معنی یہ ہے کہ اگر نمازپڑھنے والا جان بوجھ کر سورہ حمد Ú©ÛŒ تلاوت نہ کرے تو گویا اس Ù†Û’ سرے سے نماز ادا نہیں Ú©ÛŒ ہے جس طرح اگر کوئی بغیر وضو Ú©Û’ نمازپڑھے تو اس Ú©ÛŒ نماز ادا نہیں ہوئی ہے “لا صلاۃ إلَّا بطہور” ([8]) لیکن پہلی حدیث میں عبارت “لاصلاۃ” مسجد Ú©Û’ پڑوسی Ú©ÛŒ نمازمیں کمال Ú©ÛŒ نفی پر تاکید کررہی ہے یعنی بتارہی ہے کہ وہ نماز جو مسجد کا پڑوسی مسجد میں ادا نہیں کرتا ہے، وہ کامل نماز نہیں ہے اور اس نماز Ú©ÛŒ کمال Ú©ÛŒ اس منزل تک رسائی نہیں ہے کہ جہاں تک ہونا چاہئے۔

اور حدیث وصیت میں عقلی ومنقول قرائن Ú©ÛŒ بنا پر جاہلیت Ú©ÛŒ موت سے مراد، نفی کمال ہے، یعنی یہ کہ اگر کوئی شخص بغیر وصیت Ú©Û’ مرجائے، اس نےمعقول  زندگی سےکامل فائدہ نہیں اٹھا یا ہے اگر چہ اس معقول زندگی Ú©ÛŒ Ú©Ú†Ú¾ مقدار اس  میں موجود ہے،لیکن حدیث  معرفت میں  معقول زندگی  Ú©ÛŒ نفی در اصل حقیقت Ú©ÛŒ نفی  ہے نہ صرف کمال Ú©ÛŒ نفی کررہی  ہے، یعنی ایسا شخص سرے سے ہی جاہلانہ زندگی کا مالک تھااور یہ کبھی بھی معقول زندگی سےفیضیاب نہیں ہوا ہے اور اسی بنیاد پر اس Ú©ÛŒ موت بھی جاہلانہ موت ہے۔

زبان وحی میں جاہلیت کی موت وحیات

خدا کا کلام اور وحی الٰہی، انسانی معاشروں کو زندگی عطاکرتی ہے:

{ $pkš‰r'¯»tƒ z`ƒÏ%©!$# (#qãZtB#uä (#qç7ŠÉftGó™$# ¬! ÉAqߙ§=Ï9ur #sŒÎ) öNä.$tãyŠ $yJÏ9 öNà6‹ÍŠøtä†﴾ ([9])

اے ایمان والو اللہ اور رسول Ú©Ùˆ لبیک کہو جب وہ تمہیں  حیات آفرین باتوں Ú©ÛŒ طر ف بلائیں۔ وحی اورنبوت انسانی معاشرہ Ú©Ùˆ زندہ کرتی ہیں ۔چونکہ قرآن وعترتِ پیغمبر علیہم السلام  Ú©Û’ درمیان ضابطہ یہ ہے کہ یہ دونوں اس میں ہم آہنگ اور یکساں ہیں لہذا ان میں سے جو ایک  کاحکم ہے وہی دوسرے کاحکم ہے۔ لہٰذا عترت Ú©ÛŒ آواز پر لبیک کہنا بھی حیات بخش ہے۔

جاہلیت کی موت، جاہلانہ زندگی کی علامت ہے اور وحی کی زبان میں جاہلیت کی زندگی موت کے برابر ہے، قرآن کریم جاہلانہ فکر کرنے والوں کو زندہ نہیں سمجھتا ہے:

﴿ u‘É‹ZãŠÏj9 `tB tb%x. $wŠym ¨,Ïts†ur ãAöqs)ø9$# ’n?t㠚úï͍Ïÿ»s3ø9$# }([10])

تاکہ  جو زندہ ہیں انہیں تنبیہ کرے اور کافروں Ú©Û’ خلاف حتمی فیصلہ ہوجائے. اللہ تعالیٰ Ù†Û’ اس آیت میں، زندہ اور کافر Ú©Ùˆ ایک دوسرے Ú©Û’ مقابل قرار دیا ہے  نہ کہ مومن اور کافروں Ú©Ùˆ گویا وہ فرما رہا ہے کہ انسان یا زندہ ہے یا کافر ہے۔

قرآن کریم بہت سے مقامات پر چار مطالب Ú©Ùˆ مختصر اور مفید انداز میں بیان کرتا ہے، اس طرح کہ ان میں دوچیزیں جو ظاہری اعتبار سے برابر نہیں ہیں لیکن باطن اور حقیقت میں برابر ہیں اس لیے ذکر کرتا ہے اور دیگر دومطالب پہلے دومطالب Ú©ÛŒ نسبت سے  ثابت ہو جائیں Ú¯Û’ØŒ مثال Ú©Û’ طور پر اس آیت میں، زندہ اورکافر کوایک دوسرے Ú©Û’ مقابلہ میں قرار دیا اور فرمایا کہ انسان یا زندہ ہے یا کافر جبکہ رائج تقسیم Ú©Û’ لحاظ سے انسان یا زندہ ہے یا مردہ اور پھر زندہ یا مسلمان ہے یا کافر، قرآن مجید Ú©ÛŒ روش اس تقسیم میں اس طرح ہے کہ وہ  فرما رہا ہے کہ انسان یا مومن ہے یا مردہ۔



back 1 2 3 next