امام حسین علیه السلام اور آپ کی وصیت



امام حسین علیه السلام اور آپ کی وصیت

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ ھٰذٰا مٰا اَوْصٰی بِہِ اَلْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ اِلٰی اَخیہِ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِیَّةِ اَنَّ الْحُسَیْنَ یَشْھَدُ اَنْ لاٰ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہُ لاٰ شَریکَ لَہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ جٰاءَ بِالْحَقِّ مِنْ عِنْدِہِ وَاَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَ النّٰارَ حَقٌّ وَ السّٰاعَةَ آتِیَةٌ لاٰ رَیْبَ فِیْھٰا وَاَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ وَ اِنّی لَمْ اَخْرُجْ اَشَرًا وَلاٰ بَطَراً وَلاٰ مُفْسِدًا وَلاٰ ظٰالِماً وَ اِنَّمٰا خَرَجْتُ لِطَلَبِ الْإِصْلاٰحِ فی اُمَّةِ جَدّی (ص) اُریدُ اَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ اَنْھٰی عَنِ الْمُنْکَرِ وَ اَسِیْرَ بسیرَةِ جَدّی وَ اَبی عَلَیِّ بْنِ اَبیطٰالِبٍ فَمَنْ قَبِلَنی بِقَبُولِ الْحَقِّ فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِالْحَقِّ وَمَنْ رَدَّ عَلَیَّ ھٰذٰا اَصْبِرُ حَتّٰی یَقْضِیَ اللّٰہُ بَیْنی وَ بَیْنَ الْقَوْمِ وَ ھُوَ خَیْرُ الْحٰاکِمینَ وَ ھٰذِہِ وَصِیَّتی اِلَیْکَ یٰا اَخی وَمٰا تَوْفیقی اِلاّٰ بِاللّٰہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَ اِلَیْہِ اُنیبُ۔

۱ ترجمہ و توضیح : امام نے مدینے سے مکہ کی طرف روانگی کے وقت یہ وصیت نامہ لکھا، اس پر اپنی مہر ثبت کی اور اپنے بھائی محمد حنفیہ کے حوالے کیا۔ ”بسم الله الرحمن الرحیم۔ یہ وصیت حسین ابن علی کی طرف سے بھائی محمد حنفیہ کے نام۔ حسین توحید و یگانگت ِپروردگار کی اور اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ خداد کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد خدا کے عبد اور اس کے رسول ہیں اور آپ آئین حق (اسلام) خدا کی طرف سے لوگوں کے لئے لائے ہیں اور یہ کہ بہشت و دوزخ حق ہے۔ روزِ جزا بغیر کسی شک کے وقوع پذیر ہوگا اور خداوند عالم تمام انسانوں کو اس دن دوبارہ زندہ کرے گا“۔ امام نے اس وصیت نامے میں توحید و نبوت و معاد کے بارے میں اپنا عقیدہ بیان کرنے کے بعد اپنے سفر کے مقاصد اس طرح بیان فرمائے: ”

میں خود خواہی یا سیر و تفریح کے لئے مدینہ سے نہیں نکل رہا اور نہ ہی میرے سفر کا مقصد فساد اور ظلم ہے بلکہ میرے اس سفر کا مقصد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ اور میں چاہتا ہوں کہ اپنے اس سفر کے دوران امت کے مفاسد کی اصلاح کروں۔ اپنے جد امجد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قوانین اور ان کی سنتوں کو زندہ کروں اور اپنے پدر بزرگوار علیں کا راستہ اور ان کا طرز عمل اپناؤں۔ پس جو شخص یہ حقیقت قبول کرتا ہے (اور میری پیروی کرتا ہے) اس نے گویا راہ خداد کو قبول کیا اور جو شخص بھی میرے اس ہدف اور میری اس آرزو کو رد کرتا ہے (میری پیروی نہیں کرتا) میں صبر و استقامت کے ساتھ اپنا راستہ اختیار رکھوں گا یہاں تک کہ خداوند عالم میرے اور ان افراد کے درمیان فیصلہ کرے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا اور حاکم مطلق ہے۔ بھائی یہ میری وصیت آپ کے لئے ہے اور خداوند تعالیٰ سے توفیق کا طلبگار ہوں اور اسی پر توکل کرتا ہوں اور اسی کی طرف میری بازگشت ہے“۔

 

 

 

امام حسین کی زینب کو وصیت

امام حسین وصیت کرگئے تھے کہ زینب بہن!میرا کام ختم ہوااور تمہارا کام شروع ہوا،کربلا تک میرا کام تھا اور شام تک تمہاراہے۔زینب بہن!اپنے بھائی کو دعاوٴں میں یاد رکھنا۔ جب قیدی آئے ہیں دربار میں، بعض لوگ نہ سمجھے ہوں گے کہ یہ کون قیدی ہیں؟ ویسے قیدی چشم فلک نے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ بتلاؤں، آپ سمجھ گئے ہیں۔ رسول اللہ کی بیٹیاں، فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی بیٹیاں۔ یہ قید کی گئی تھیں۔ مسلمانو! اگر کسی نے یہ خبر نہ سنی ہوتی تو شاید یہ سننے کے بعد دل کی حرکت بند ہوجاتی۔ رسولِ خدا کی بیٹی قیدی اور اس طرح کہ پہلے بازارِشام میں پھرائی بھی گئی ہیں!! کبھی کبھی کچھ لوگوں کے دلوں میں یہ بات آتی ہے اور کبھی کبھی شکایت بھی پیدا ہوتی ہے کہ یہ کیوں ایسا ہوا؟ جنابِ زینب چاہتیں اور ذرا سے ہاتھ اُٹھا دیتیں کہ کیا مجال تھی ؟ کوئی قوت تھی کہ وہ اس طرح سے قید کرکے لے جاتا؟



1 2 next