امام حسین علیه السلام اور آپ کی وصیت



 Ø¨Ø§Øª یہ تھی کہ امام حسین وصیت کرگئے تھے کہ بہن! میرا کام ختم ہوا اور تمہارا کام شروع ہوا۔ کربلا تک میرا کام تھا، شام تک تمہارا کام ہے۔ جب سے حکومت دنیا میں بنی ہے، اس کا طریق کار یہ رہا ہے کہ کسی اپنے دشمن Ú©Ùˆ اگر وہ ذلیل کریں یا قتل کریں یا قید خانے میں ڈال دیں تو کوئی نہ کوئی عیب اس میں نہیں بھی ہے تو عیب اس میں لگایا جاتا ہے۔ پروپیگنڈا کروایا جاتا ہے اپنے آدمیوں Ú©Û’ ذریعے سے کہ یہ شخص اچھا نہ تھا، اس لئے قید خانے میں ڈالا گیا۔ یزید اس چیز Ú©Ùˆ اچھی طرح سے جانتا تھا کہ پروپیگنڈا کیوں اور کیسے کروایا جاتا ہے کیونکہ اُس Ù†Û’ اُس جگہ پرورش پائی تھی جو اس قسم Ú©Û’ پروپیگنڈے کا گھر تھا اور روزانہ وہ ان چیزوں Ú©Ùˆ دیکھتا تھا۔ وہ اچھی طرح سے سمجھ سکتا تھا کہ کسی شخص پر الزام لگانے Ú©Û’ کتنے طریقے ہوسکتے ہیں اور کس طرح سے لوگوں میں اس Ú©Û’ اثرورسوخ کا زائل کیا جاسکتا ہے۔

امام حسین علیہ السلام یہ جانتے تھے اور اس کیلئے جنابِ امام حسین نے جنابِ زینب کو منتخب کیاتھا۔ میری بہن! حکومت جو پروپیگنڈا میرے خلاف کرے گی، اگر تم شام تک چلی جاؤ گی تویہ تمام قوتیں ختم ہوجائیں گی۔ ایک تمہاری آواز دنیا پر چھا جائے گی۔ اور یہی ہوااور جنابِ زینب سلام اللہ علیہا اسی خیال سے چلیں۔ لوگوں میں اعلان کیا گیا کہ ایک شخص نے ہم پر حملہ کیا تھا۔ ہم نے اُسے قتل کردیا۔ اس کے ساتھیوں کو مار ڈالا۔ اُس کے بال بچوں کو گرفتار کیا اور وہ فلاں دن دمشق میں داخل ہوں گے۔ پچاس پچاس میل تک، سو سو میل تک جب یہ خبریں پہنچیں تو لوگوں نے یہ سمجھا کہ کوئی غیر مسلم ہوگا، مسلمان نہ ہوگا جس نے یہ حملہ کیا ہے۔ وہ مسلمان نہ ہوگا جس کی عورتیں قید ہوکر آرہی ہیں۔ یہ لوگ جمع ہوگئے ، لاکھوں آدمیوں کا ہجوم، قافلہ قیدیوں کا آرہا ہے۔ کالے عَلَم دکھائی دئیے اور زیادہ متوجہ ہوگئے لوگ کہ یہ کیا ہے؟ ابھی تک خیال وہی ہے۔ اس کے جب قریب آئے وہ اونٹ جن کے ساتھ سر تھے تو لوگوں نے گھبرا گھبرا کردیکھنا شرو ع کیا اور آخر میں ایک دوسرے سے کہنے لگے:

ارے بھائی! کہا جاتا ہے کہ مسلمان نہیں! ان کی پیشانیوں پر تو سجدوں کے نشان ہیں اور اس کے بعد دوسرا کہتا ہے کہ اس کو تو چھوڑا، یہ تو دیکھو ان بیبیوں کی گودوں میں جو بچے ہیں، وہ قرآن پڑھتے ہوئے چلے آرہے ہیں۔ یہ جو چیزیں دیکھیں تو اس کے بعد لوگوں نے پوچھنا شروع کیا:ارے بھئی! یہ کہاں کے قیدی ہیں؟ یہ کون لوگ ہیں؟ کس خاندان کے ہیں؟ تو کسی نے بتلایا کہ جس کا کلمہ پڑھتے ہو، اُس کی بیٹیاں ہیں۔ وہ جو پروپیگنڈے ہورہے تھے، ایک مرتبہ ایک نظر میں ختم ہوگئے۔ اس کے بعد وہ طبقہ جو اُمراء کا طبقہ سمجھا جاتا تھا، جن کے خیالات دنیا کی طرف مرکوز رہتے ہیں، اُن سے سامنا ہوا۔ حضور! جب دربار میں یہ قافلہ پہنچ گیاتووہاں کم سے کام سات سو کرسیاں تھیں جن پر ارکانِ دولت اور روٴسائے وج بیٹھے ہوئے تھے۔ بڑے بڑے آدمی اِدھر اُدھر کے بیٹھے ہوئے تھے۔ اُنہوں نے دیکھا کہ دروازے کی طرف سے زنجیروں کی آواز آئی۔ اب جو نظر پڑی تو دیکھا کہ ایک بیمار ہے، ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنے ہوئے، نظر جھکائے ہوئے چلا آرہا ہے۔ اس کے بعد بیبیاں نظر آئیں اور بیبیاں کس طرح سے زبان سے الفاظ نکلتے نہیں ہیں مگر کیا کروں؟

 Ú©ÛÙ„وایا زمانے Ù†Û’ØŒ کسی Ú©Û’ سر پر چادر نہیں، ایک طرف بیٹھ گئیں یہ بیبیاں سرجھکائے۔ یزید یہ سمجھ رہا تھا کہ میری فتح Ú©ÛŒ خوشی ہے۔ وہ اپنی فتح Ú©ÛŒ خوشی میں مخمور تھا۔ شمر Ù†Û’ آکر سرپیش کیا بطور تحفہ۔یزید Ù†Û’ رومال ہٹایا۔ جب لوگوں Ú©ÛŒ نظریں پڑیں ØŒ قتل ہوئے چار پانچ مہینے گزر گئے ہیں مگر دیکھنے والوں Ú©Û’ بیان ہیں کہ خدا Ú©ÛŒ قسم! اتنا خوش Ø´Ú©Ù„ چہرہ کبھی نہیں دیکھا جتنا یہ کٹا ہوا سر تھا۔ چہرے سے نور Ù†Ú©Ù„ رہا تھا۔ بعض لوگ جن Ú©ÛŒ روحوں میں سعادت تھی، سر Ú©Ùˆ دیکھتے ہی گھبراگئے۔ یہ کیا ہوا؟ کس کا سر ہے؟ کبھی بیبیوں Ú©ÛŒ طرف نگاہ ہے، کبھی امام زین العابدین Ú©ÛŒ طرف۔ امام زین العابدین سر نہیں اُٹھاتے، سر جھکائے ہوئے ہیں۔ آپ Ú©Û’ متعلق یہ لکھا ہے کہ کربلا سے قید ہو کر جب Ú†Ù„Û’ØŒ کوفے میں قید رہے، ابن زیاد Ú©Û’ دربار میں پیش ہوئے، کوفے سے پھر شام Ú©Û’ راستے دمشق، بارہ سو میل کا راستہ،اس تمام راستے میں امام زین العابدین Ú©ÛŒ حالت یہ رہی کہ ہمیشہ سرجھکائے ہوئے رہتے تھے۔ دل میں نشتر چبھنے لگتے ہیں۔

خدا کی قسم! جب یہ چیز میرے خیال میں آجاتی ہے، بنی ہاشم کا جوان،22سال کی عمر، رسول کا نواسہ، علی کا پوتا،امام حسین علیہ السلام آخری وصیت میں فرماگئے تھے: بیٹا! ماں اور بہنوں کا ساتھ ہے، گھبرا نہ جانا، میری محنت برباد ہوجائے گی۔ ایک فقرہ اگرآپ کے سامنے عرض کروں تو شاید یہ بے محل نہ ہوگا، ایک مرتبہ ایسا ہوا اور یہ ہوتا چلا آرہا ہے، ذرا ذرا سی بات پر شمرجنابِ امام زین العابدین علیہ السلام کو ستاتا تھا۔ نوکِ نیزہ سے اذیت دیتا تھا، بازارِ شام میں ایک مرتبہ امام زین العابدین گر پڑے۔ بیمار کو ٹھوکر لگی، گر پڑے، اُس نے نیزے کی نوک سے تکلیف دی، تڑپ کو اُٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے باپ کے سر کی طرف نظر کرکے عرض کرتے ہیں: بابا! میری کمرکو دیکھئے، کتنی زخمی ہوچکی ہے۔

جنابِ زینب نے جب یہ دیکھا تو آواز دی: بیٹا! منزل قریب آگئی ہے، گھبراؤ نہیں۔ جب یزید نے دربار میں خطاب کیا، تمہارے بھائی کو خدا نے قتل کیا، تم کو رُسوا کیا کہ قید ہوکر میرے دربار میں آئے ۔ جنابِ زینب کوموقعہ ملا کہ یہ وقت ہے کہ اُس تمام پروپیگنڈے کو اسی جگہ ختم کردوں تو ایک مرتبہ آپ نے آواز دی: "یزید! خاموش ہوجا، کیا بک رہا ہے؟ تو یہ کہتا ہے کہ میرا بھائی قتل ہوا، اُس کی ہمیں پروا نہیں، قتل ہونا ہماری میراث ہے۔ رہ گئی یہ چیز کہ تو نے ہمیں گرفتار کیا اور دربار میں لایا، ہماری ذلت نہیں ، تو ذلیل ہوگا جب قیامت کا میدان ہوگا تو میرے نانا پوچھیں گے"۔ اتنی باتیں کی تھیں جنابِ زینب نے کہ دربار والے گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگے کہ علی کی آوازکہاں سے آئی۔ آپ نے فرمایا:"دربار والو! تم ہمارا تماشہ دیکھنے کیلئے بیٹھے ہو، تمہیں پتہ نہیں کہ میں کون ہوں؟ ارے تمہارے رسول کی جو بیٹی تھیں ناں فاطمہ زہرا ، اُن کی بیٹی زینب ہوں۔ یہ کٹا ہوا سر میرے بے گناہ مظلوم بھائی کا ہے۔

 

 

شب ِ عاشور امام حسین کے اشعار

یا دھر اف لک من خلیل کم لک بالأشراق و الأصیل من صاحب او طالب قتیل و الدھر لا یقنع بالبدیل و انما الامر الی الجلیل و کل حی سالک سبیل ۔۔۔ یا اختاہ تعزی بعزاء اللہ و اعلمی أن اھل الارض یموتون و اھل السماء لا یبقون و أن کل شئ ھالک الا وجہ اللہ الذی خلق الأرض بقدرتہ و یبعث الخلق فیعودون و ھو فرد و حدہ ابی خیر منی و امی خیر منی و اخی خیر منی ولی ولھم و لکل مسلم برسول اللہ اسوہ۔ ۔۔۔ یا اختاہ یا ام کلثوم یا فاطمہ یا رباب انظرن اذا قتلت فلا تشققن علی جیبا ولا تخمشن وجھا ولا تقلن ھجرا۔۱ ترجمہ و توضیح: حضرت امام زین العابدینں سے روایت ہے کہ شب عاشور میرے والد بزرگوار اپنے چند اصحاب کے ساتھ خیمہ میں تشریف رکھتے تھے اور آپ کا غلام جون، ابوذر کا غلام جون امام کی تلوار صیقل کر رہا تھا، آنحضرت کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے ﴿یا دھر اف لک من خلیل۔۔۔﴾ اے دنیا تف ہے تمہاری دوستی پر کہ صبح و شام تو اپنے کتنے دوستوں اور چاہنے والوں کو موت کی راہ میں دھکیلتی ہے اور سا کے عوض پر قناعت بھی نہیں کرتی۔ بتحقیق سارے کام خداوند متعال کی طرف محول ہے اور ہر زندہ شخص اور ہر زندہ چیز اسی راہ (موت کے راہ پر) چلنے والی ہے۔ امام سجادں فرماتے ہیں کہ

 Ù…یں Ù†Û’ یہ سن کر امام حسین کا ہدف اور نصب العین، ان اشعار Ú©Û’ Ù¾Ú‘Ú¾Ù†Û’ سے امام کا مقصد یعنی موت اور اپنی شہادت Ú©ÛŒ خبر دے رہے تھے۔ یہاں تک کہ میری آنکھیں آنسوؤں سے پر ہوگئیں لیکن میں Ù†Û’ رونے سے گریز کیا مگر میری پھوپھی زینب جو میرے بستر Ú©Û’ قریب بیٹھی ہوئی تھیں یہ اشعار سن کر اور جناب سجادں فرماتے ہیں کہ میں یہ اشعار امام Ú©Û’ سن کر مقصد یعنی اعلانِ شہادت Ú©Ùˆ سمجھ گیا میری آنکھیں آنسوؤں سے پر ہوگئیں یعنی رونے سے پرہیز کیا البتہ میری پھوپھی زینب جو میرے بستر Ú©Û’ کنارے بیٹھی ہوئی تھیں یہ اشعار سن کر مضطرب ہوئیں اور امام Ú©Û’ اصحاب Ú©Û’ Ú†Ù„Û’ جانے Ú©Û’ بعد آپ Ú©Û’ خیمے میں پہنچیں اور کہا: وائے ہو مجھ پر، اے کاش میں مر گئی ہوتی اور ایسا دن نہ دیکھتی۔ اے گزرے ہوؤں Ú©ÛŒ یادگار (باقی ماندہ افراد Ú©ÛŒ پناہ گاہ)

کیا میں یہ سمجھوں کہ آج میں نے سارے عزیز گنوا دیئے ہیں کہ اس پیش آنے والے واقعہ میں میرے باپ کی مصیبت میرے اہل حرم کی اور بھائی حسن کی مصیبت کو زندہ کر دیا ہے۔ امام حسین نے جناب زینب کو تسلی دی اور انہیں صبر و شکیبائی کی وصیت کی اور فرمایا: ﴿یا أختاہ تعزّی بعزاء اللہ۔۔۔﴾ اے میری بہن صبر کا راستہ اختیار کرو۔ جان لو کہ دنیا کے سارے افراد جوکہ آسمانوں میں ہیں زندہ نہیں رہیں گے اور موجودات نے ختم ہو جانا ہے۔ بے شک خداوند متعال جس نے دنیا کو اپنی قدرت سے پیدا کیا ہے اور تمام لوگوں کو دوبارہ مبعوث کرے گا، زندہ کرے گا، باقی رہے گا۔ اور وہی خدائے یکتا ہے میرے باپ، میرے بھائی حسن جو مجھ سے بتر تھے سب دوسرے جہان کو چلے گئے اور میں اور وہ اور سب مسلمانوں کو خداوند عالم رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرنی چاہیئے کہ وہ بھی اس جہان سے جہانِ بقا کو تشریف لے جائیں۔ اس کے بعد فرمایا: اے ام کلثوم، اے فاطمہ، اے رباب، میری موت کے بعد اپنے گریبان چاک نہ کرنا اور جو بات تمہارے لئے مناسب نہیں اسے زبان پر نہ لانا۔

 

 



back 1 2