امام صادق (علیہ السلام) کی مختصر سوانح حیات



انہوں نے اس متعلق لکھا ہے : امام صادق (علیہ السلام) حقیقت کی تلاش میں ہر طرح کی ہوائے نفس یا دنیوی غرض سے پاک رہتے تھے ۔ کبھی بھی دنیا کے پیچھے نہیںجاتے تھے اور جس چیز میں بھی شہوت یا شبہ کی شباہت پائی جاتی تھی اس کو حاصل نہیں کرتے تھے ، بلکہ آپ روشن اور واضح حقایق کو طلب کرتے تھے ... اور اگر کسی ایسی جگہ پر وارد ہوتے تھے جہاں پر شبہ پایا جاتا تھا تو آپ کا اخلاص آپ کو حقیقت کی طرف راہنمائی کرتا تھا ۔

امام صادق (علیہ السلام) کا اخلاص اصل وریشہ سے متصل تھا کیونکہ آپ شجرہ نبوت سے تعلق رکھتے تھے اور اصل اخلاص اسی طیب و طاہر گھر میں ثابت ہے ... انہوں نے اخلاص کو ایک دوسرے سے میراث میں حاصل کیا ہے اور فرع کو اصل سے لیا ہے ۔ یہ لوگ ہر چیز کو فقط خدا کی وجہ سے دوست رکھتے ہیں اور اس کو اصل ایمان اور ظاہر یقین جانتے ہیں ، کیونکہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا ہے : ''لا یومن احدکم حتی یحب الشیء الا اللہ '' (١) ۔ تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک ایمان نہیں لا سکتا جب تک کسی چیز کو صرف خدا کے لئے دوست نہ رکھو ۔

امام صادق (علیہ السلام) کی سخاوت

ابوزہرہ نے اس سلسلہ میں لکھا ہے : اکثر مفسرین کہتے ہیں : یہ آیت '' ویطعمون الطعام علی حبہ مسکینا و یتیما و اسیرا '' (٢) ۔ یہ اس کی محبت میں مسکینً یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں، حضرت علی (علیہ السلام) کی شان میں نازل ہوئی ہے ... یہ بات مسلم ہے کہ علی بن ابی طالب (علیہ السلام) تمام صحابہ میں سب سے زیادہ سخی بلکہ پورے عرب میں سب سے زیادہ سخی تھے ۔ آپ کی نسل اور ذریت بھی آپ کے بعد ایسی ہی تھی ۔ علی بن الحسین زین العابدین (علیہ السلام) رات کے وقت کھانے کو اپنے کندھوں پر رکھ کر محتاج اور ضرورت مند افراد کے گھروں میں لے جاتے تھے ۔

بالکل بھی تعجب کی بات نہیں ہے کہ امام صادق (علیہ السلام) جنہوں نے اسی کریم گھر میں پرورش پائی ہے ، بھی سخی اور اہل کرم ہوں ۔ آپ وہ شخص تھے و مستحقین کو عطا کرتے تھے ۔ ہمیشہ اپنے بعض چاہنے والوں کو حکم دیتے تھے کہ جن کاموں میں نقصان ہوجائے اس کو برداشت کرو اور اس کی وجہ سے لوگوں کے درمیان خصومت اور دشمنی ایجاد نہ ہو ۔ آپ فرماتے تھے : ''لا یتم المعروف الا بثلاثة : بتعجیلہ ، و تصغیرہ و سترہ'' ۔ کار خیر تین چیزوں کے بغیر پورا نہیں ہوتا : جلدی کرنے ، کام کو چھوٹا شمار کرنے اور اس کو چھپانے کے ذریعہ ۔

لہذا اکثر و بیشتر اپنی بخشش کو چھپاتے تھے اور اس امر میں اپنے جد امجد علی بن الحسین کی اقتداء کرتے تھے ، جب بھی قحط پڑتا تھا تو نان ، گوشت اور دراہم کو اپنی پشت پر اٹھاتے تھے اور پھر ان کو مدینہ کے ضرورت مند افراد کے درمیان تقسیم کرتے تھے اور کسی کو معلوم تک نہیں ہوتا تھا کہ یہ سب کس نے عطا کیا ہے ، جس وقت امام (علیہ السلام) کی رحلت ہوئی تو جو کچھ مخفی تھا وہ سب برملا ہوگیا ... کتاب ''حلیة الاولیاء '' میں ذکر ہوا ہے : ''جعفر بن محمد اس قدر ضرورت مندوں کی مدد کرتے تھے کہ خود ان کے اہل وعیال کے لئے کچھ نہیں بچتا تھا (٣) ۔

امام صادق (علیہ السلام) کی بردباری

اس سلسلہ میں ابوزہرہ لکھتے ہیں : امام صادق (علیہ السلام) بہت ہی عفو و در گذرکرنے والے اور کریم شخص تھے اور کبھی بھی سوء ادب او ربرے کام کا بدلہ نہیں لیتے تھے ، بلکہ اس کا اچھے عمل کے ذریعہ جواب دیتے تھے اور اس کام میں خدا کے حکم پر عمل کرتے ہوئے فرماتے تھے : ''ادفع بالتی ھی احسن فاذا الذی بینک و بینہ عداوة کانہ ولی حمیم '' (٤) ۔ تم برائی کا جواب بہترین طریقہ سے دو کہ اس طرح جس کے اور تمہارے درمیان عداوت ہے وہ بھی ایسا ہوجائے گا جیسے گہرا دوست ہوتا ہے ۔

ہمیشہ فرماتے تھے : ''اذا بلغک عن اخیک شیء یسوک ، فلا تغتم فان کنت کما یقول القائل ، کانت عقوبة قدعجلت ، و ان کنت علی غیر ما یقول ، کانت حسنة لم تعملھا'' ۔ جب بھی تمہارا کوئی دینی بھائی تمہیں ایسی بات کہے جو تمہیں ناراض کرتی ہو تو غمگین نہ ہو ، کیونکہ اگر تم ایسے ہی ہو جیسا کہ وہ کہتا ہے تو یہ ایسی برائی اور عقوبت ہے جس میں جلدی کی گئی ہے اور اگر ایسے نہیں ہو جیسا کہ وہ کہتا ہے تو اس کی برائی تمہارے لئے ایسا حسنہ ہوگی جس کو تم نے انجام نہیں دیا ہے ۔

جن لوگوں کے ساتھ آپ معاشرت کرتے تھے اور اگر وہ آپ کے خدمت گزار ہوتے تھے تو ان سے بھی مہربانی کے ساتھ پیش آتے تھے ۔ اس سلسلہ میں ایک روایت نقل ہوئی ہے کہ آپ نے اپنے ایک غلام کو کسی کام کے لئے بھیجا ، جب بہت دیر ہوگئی اور ووہ واپس نہ آیا تو آپ اس کی تلاش میں نکلے ، آپ نے دیکھا کہ وہ سو رہا ہے ، لہذا اس کے سرہانے بیٹھ کر اس کو پنکھا جھلنے لگے ، جب وہ بیدار ہوا تو آپ نے اس سے فرمایا : ایسا کرنا صحیح نہیں ہے ، تم رات میں بھی سوتے ہو اور دن میں بھی سوتے ہو ، رات تمہارے لئے ہے اور دن ہمارے لئے ہے ...۔



back 1 2 3 4 5 6 7 next