فلسفہٴ شفاعت کیا ہے؟ اور کیا شفاعت کی امید ،گناہ کی ترغیب نہیں دلاتی؟



 

شفاعت ØŒ نہ تو گناہ Ú©ÛŒ ترغیب ہے ،نہ گنہگار Ú©Û’ لئے گرین لائٹ، نہ عقب ماندگی کا سبب اور نہ ہی آج Ú©Ù„ Ú©ÛŒ دنیا میں رائج پارٹی بازی، بلکہ تربیت کا  اہم مسئلہ ہے جو مختلف لحاظ سے مثبت اور مفید آثار لئے ہوئے ہے، منجملہ:

الف۔ امید کی کرن اور مایوسی سے مقابلہ: بعض اوقات انسان پر ہوائے نفس کا غلبہ ہوجاتا ہے اور بہت سے اہم گناہوں کا مرتکب ہوجاتا ہے جس سے گنہگار انسان مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہوجاتا ہے، جس سے گنہگار کو مزید گناہ انجام دینے میں مدد ملتی ہے کیونکہ ایسے موقع پر یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اب تو پانی سر سے گزر گیا ہے چاہے ایک بالشت ہو یا سو بالشت؟!

لیکن شفاعت ِاولیاء اللہ ان کو بشارت دیتی ہے کہ بس یہیں رک جاؤ اور اپنی اصلاح کی کوشش کرو، ممکن ہے ان کے گزشتہ گناہ شافعین کی شفاعت پر بخش دئے جائیں، لہٰذا شفاعت کی امید انسان کو مزید گناہ سے روکتی ہے اور تقویٰ واصلاح نفس میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔

ب۔ اولیاء اللہ سے معنوی تعلق پیدا ہونا: شفاعت کے معنی کے پیش نظر یہ نتیجہ حاصل کرنا آسان ہے کہ شفاعت اسی وقت ممکن ہے جب ”شفیع“ اور ”شفاعت ہونے والے شخص“ کے درمیان ایک قسم کا رابطہ ہو، لہٰذا شفا عت کے لئے ایمان اور عمل صالح کے ذریعہ معنوی رابطہ ہونا ضروری ہے۔

اگر کوئی شخص کسی کی شفاعت کی امید رکھتا ہو تواس کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ شفاعت کرنے والے سے بہترین تعلقات قائم رکھے ، اور ایسے اعمال انجام دے جن سے وہ خوش رہے، بُرے کاموں سے اجتناب کرے، اس کی محبت و دوستی کو بالکل ختم نہ کرڈالے۔

یہ تمام چیزیں انسانی تربیت کے لئے بہترین اسباب ہیں، جن کے ذریعہ انسان آہستہ آہستہ گناہوں کی گندگی سے باہر نکل آتا ہے، یا کم از کم بعض برائیوں کے ساتھ ساتھ نیک کام بھی انجام دیتا ہے، اور شیطان کے جال میں مزید پھنسنے سے بچ جاتا ہے۔

ج۔ شفاعت کے شرائط حاصل کرنا: قرآن مجید کی متعدد آیات میں شفاعت کے لئے بہت سے شرائط ذکر ہوئے ہیں ان میں سب سے اہم خداوندعالم کی طرف سے اذن و اجازت ہے، اور یہ بات مسلم ہے کہ جو شخص شفاعت کا امیدوار ہے تو اسے خدا وندعالم کی رضایت حاصل کرنی ہوگی، یعنی اسے ایسے اعمال انجام دینے ہوں گے جن سے خداوندعالم راضی و خوشنود ہوجائے۔

بعض آیات میں بیان ہوا ہے کہ روز قیامت صرف ان ہی لوگوں کے بارے میں شفاعت قبول کی جائے گی جن کے بارے میں خدا نے اجازت دی ہو، اور اس کی باتوں سے راضی ہوگیا ہے۔ (سورہ طٰہٰ، آیت ۱۰۹)

سورہ انبیاء ، آیت نمبر ۲۸ میں بیان ہوا ہے کہ شفاعت کے ذریعہ صرف انھیں لوگوں کی بخشش ہوگی جو”مقام ارتضاء“ (یعنی خوشنودی خدا) تک پہنچ چکے ہوں گے، اور سورہ مریم ، آیت۷ ۸ کے مطابق جن لوگوں نے خدا سے عہد کرلیا ہو، اور جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ یہ تمام مقامات اس وقت حاصل ہوتے ہیں جب انسان خداوندعالم اور اس کی عدالت پر ایمان رکھتا ہو ، نیکیوں اور برائیوں میں حکم خداکو قبول کرتا ہو، اور خدا کی طرف سے نازل شدہ تمام قوانین کے صحیح ہونے پر گواہی دے۔



1 2 3 next