فلسفہٴ شفاعت کیا ہے؟ اور کیا شفاعت کی امید ،گناہ کی ترغیب نہیں دلاتی؟



یہی معنی نہج البلاغہ میں امام المتقین حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے بیان ہوئے ہیں: ”فَإنَّہُ شَافِعٌ مُشَفِّعٌ“(1) ”قرآن کریم ایسا شفاعت کرنے والا ہے جس کی شفاعت بارگاہ الٰہی میںقبول ہے“۔

متعدد روایات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ شفاعت کرنے والوں میں سب سے بہترین شفاعت کرنے والا”توبہ“ ہے: ”لَاشَفِیْعَ اٴنجَح مِنَ التَّوبَةِ“(۲) ”توبہ سے زیادہ کا میاب کوئی شفیع نہیں ہے“۔

بعض احادیث میں انبیاء، اوصیاء، مومنین اور ملائکہ Ú©ÛŒ شفاعت Ú©ÛŒ تصریح Ú©ÛŒ گئی ØŒ جیسا کہ پیغمبر اکرم  (ص) Ú©ÛŒ حدیث ہے:

”الشَّفَاعةُ للِاٴنبیَاءِ وَالاٴوْصِیاءِ وَالمَوٴمِنِینَ وَالمَلائِکَةِ ،وَفِي المَوٴمنِینَ مَنْ یَشفَعُ مِثْلَ رَبیعةَ و مضر ! واٴقلَّ المَوٴمِنِیْنَ شَفَاعة مَنْ یَشْفَعُ ثَلاثِینَ إنسَاناً!“(۳)

 Ø§Ù†Ø¨ÛŒØ§Ø¡ØŒ اوصیاء ،مومنین اور فرشتے شفاعت کرنے والے ہیں، اور مومنین Ú©Û’ درمیان شفاعت کرنے والے ایسے بھی ہوں Ú¯Û’ جو قبیلہ ”ربیعہ“ اور ”مُضر“ Ú©Û’ برابر شفاعت کریں Ú¯Û’ØŒ اور سب سے Ú©Ù… شفاعت کرنے والے مومنین (بھی) تیس افراد Ú©ÛŒ شفاعت کریں گے“۔

حضرت امام صادق علیہ السلام سے ایک دوسری حدیث میں بیان ہوا ہے کہ خداوندعالم روز قیامت ”عابد“ اور ”عالم“ کو مبعوث کرے گا، اور جس وقت یہ دونوں عدل الٰہی کے مقابل کھڑے ہوں : ”قِیلَ لِلْعَابِدِ اِنطَلِقْ إلیَ الجَنَّة، وَقِیْلَ لِلْعَالِمِ قِفْ، تَشفَع لِلنَّاسِ بِحُسْنِ تَادِیبِکَ لَھُم“(۴) (عابد سے کہا جائے گا کہ تم جنت میں چلے جاؤ، اور عالم کو روک لیا جائے گا، اور اس سے کہا جائے گاکہ تم ان لوگوں کی شفاعت کرو جن کی تم نے نیک تربیت کی ہے“۔

                                    

(1) نہج البلاغہ خطبہ ۱۷۶․                                    (Û²)نہج البلاغہ ،کلمات قصار ،کلمہ ۳۷۱․

(Û³) بحار الانوار ØŒ جلد ۸، صفحہ ۵۸،حدیث ۷۵․         (Û´)  بحار الانوار ØŒ جلد ۸، ۵۶،حدیث۶۶․

محترم قارئین ! گزشتہ روایات خصوصاً آخری روایات میں ایسے الفاظ بیان ہوئے ہیں جن سے صاف صاف یہ معلوم ہوتا ہے کہ شفاعت کی امید رکھنے والے کے لئے نیک افراد ،مومنین اور علماسے ایک معنوی رابطہ ہونا ضروری ہے۔

شہداء ِراہ خدا Ú©Û’ بارے میں بھی پیغمبر اکرم  (ص) سے منقول ہے کہ آپ Ù†Û’ فرمایا: ”وَیَشْفَعُ الرَّجُلُ مِنھُم مِن سَبْعِینَ اٴلفَا مِن اٴہلِ بَیتِہِ وَجِیرَانِہ“(1) (شہداء میں سے ہر شہید اپنے خاندان اور پڑوسیوں میں سے Û·Û°/ ہزار افراد Ú©ÛŒ شفاعت کرے گا“۔

یہاں تک بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ”شفیع انسان، خداوندعالم کی اطاعت اور عمل حق ہے“: ”شَافِعُ الخَلْقِ :العَمَلُ بِالحَقِّ وَلزومِ الصِّدْقِ“(۲)

خلاصہ گفتگو یہ ہے کہ اسلامی معتبر کتابوں میں بیان شدہ ان تمام روایات کے پیش نظر صاف طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ شفاعت اسلام کے اہم ترین تربیتی مسائل میں ہے، جس کی شفاعت کرنے والوں کی قسموں کے اعتبار سے بہت زیادہ اہمیت ہے، اور تمام مسلمانوں کو شفاعت کی اس عظیم منزلت کی طرف اور شفاعت کرنے والوں سے معنوی رابطہ قائم کرنے کی دعوت دی گئی ہے، اور مسئلہ شفاعت کے غلط اور تحریف شدہ شفاعت کے معنی کو الگ کردیتی ہے۔(۳)(۴)

                                           

(1) مجمع البیان ØŒ جلد ۲، صفحہ ۵۳۸، (سورہ آل عمران آیت Û±Û·Û± Ú©Û’ ذیل میں)      (Û²) غررا لحکم․

(۳) تفسیر المیزان میں علامہ طبا طبا ئی علیہ الرحمہ شفاعت کے معنی ”مسببات میں اسباب کی تاثیر“ کرتے ہو ئے شافعین کی دو قسم بیان کرتے ہیں(”عالم تکوین“ اور ”عالم تشریع“) اور تشریعی شافعین میں توبہ، ایمان، عمل صالح، قرآن، انبیاء ، ملائکہ اور مومنین کا شمار کرتے ہیں، پھراس سلسلہ میں دلالت کرنے والی ان آیات کو بیان کر تے ہیں جو گناہوں کی بخشش میں مذکورہ چیزوں یا ان حضرات کی تاثیر کو بیان کرتی ہیں، (اگرچہ ان آیات میں شفاعت کا لفظ نہیں ہے) جیسے سورہ زمر ، آیت ۵۴، سورہ حدید ، آیت ۲۸، سورہ مائدہ ، آیت ۹، اور ، آیت ۱۶، سورہ نساء ، آیت ۶۴، سورہ مومن (غافر) ، آیت ۷/ اور سورہ بقرہ ، آیت ۲۸۶․

 (Û´) تفسیر پیام قرآن ØŒ جلد ۶، صفحہ ۵۲۳․

 



back 1 2 3