حضرت زهرا (سلام الله علیها)کی ولادت



کسی بھی شخصیت کا زیادہ تعلق خاندان، والدین اور معاشرے سے ہوتا ہے۔ والدین اپنی گود سے ہی اولاد کی اساس اور بنیاد تشکیل دیتے ہیں اور اس کو اپنے روحانی اور اخلاقی سانچے میں ڈھال کر معاشرے کے حوالے کرتے ہیں۔

پیغمبر اسلام(ص) جیسی عظیم الشان شخصیت جو روحانی برتری، اخلاق حسنہ، بلند ہمتی اور فدا کاری اور شجاعت جیسے اوصاف سے مزین ہے سے ہر مسلمان بلکہ کسی بھی صاحب دانا وبینا سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ان کی عظمت و بزرگی کیلئے یہی کافی ہے کہ خداوند تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے، اے محمد آپ خلق عظیم کے مالک ہیں۔ آپ کی مادر گرامی خدیجہ نامی خاتون تھیں، جو سرمایہ دار عورت تھیں اور تجارت کرتی تھیں، بہت سے لوگ خدیجہ کیلئے تجارت کرتے تھے، جبسے انہوں نے پیغمبر اسلام(ص) کو تجارت کی غرض سے منتخب کیا، تو انکی ایمانتداری اور صداقت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں، لہذا انہیں شادی کا پیغام بھجوایا، کیونکہ حضرت خدیجہ نے بعض دانشمندوں سے سن رکھا تھا کہ یہ آخرالزمان نبی ہیں۔

وہ پہلی خاتون ہیں جنہوں نے پیغمبر اسلام(ص) کی دعوت پر لبیک کہا اور اپنی تمام تر دولت بغیر کسی شرائط کے ان کے اختیار میں دے دی، عائشہ کہتی ہیں کہ پیغمبر اسلام(ص) ہر وقت خدیجہ کو خوبیوں کے ساتھ یاد کرتے تھے، تو ایک دن میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ خدیجہ ایک بوڑھی عورت تھی، جبکہ خدا نے اس سے بہتر آپ کو عطا کیں ہیں، تو پیغبر اسلام غضبناک ہوئے اور فرمایا، خدا کی قسم، اس سے بہتر خدا نے مجھے نہیں دیں، خدیجہ اس وقت مجھ پر ایمان لائیں جب دوسرے انکار کر رہے تھے، اس وقت میری تصدیق کی جب دوسرے مجھے جھٹلا رہے تھے، اور اس وقت اپنی تمام دولت میرے اختیار میں دی جب دوسروں نے مجھے محروم کیا، اور میری نسل کو اس کی اولاد سے قرار دیا۔

روایات میں ہے، کہ جب جبرئیل پیغمبر اسلام(ص) پر نازل ہوتے تو عرض کرتے کہ بارگاہ ایزدی سے خدیجہ کو سلام پہنچادیں اور انہیں کہیں خداوند تبارک و تعالیٰ نے بہشت میں ان کے لئے ایک خوبصورت محل تعمیر کیا ہے۔ ایک روز جبرئیل نازل ہوئے اور عرض کیا کہ خداوند تبارک و تعالیٰ نے سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ چالیس دن اور چالیس راتیں خدیجہ سے الگ ہو کر عبادت اور تہجد میں مشغول رہیں اور پھر پیغمبر اسلام(ص) خداوند حکیم کے حکم کے مطابق چالیس دن تک خدیجہ کے گھر نہیں گئے، اس عرصے میں پیغمبر اسلام(ص) راتوں کو نماز اور عبادت میں مصروف ہو تے اور دن میں روزے رکھتے۔ جیسے ہی چالیس دن پورے ہوئے فرشتہ آیا اور جنت سے لائی ہوئی غذا پیش کرتے ہوئے عرض کی آج رات اس بہشتی غذا سے تناول فرمانا، رسول خدا نے ان ہی جنتی اور روحانی غذاؤں سے روزہ افطار کیا، جیسے ہی پیغمبر اسلام(ص) نماز کیلئے اٹھے، جبرئیل آئے اور عرض کی، کہ اے رسول خدا آج رات مستجی نمازوں کو چھوڑ کر حضرت خدیجہ کے گھر جائیں، کیونکہ خدا نے ارادہ کیا ہے کہ آپ کی صلب سے ایک پاکیزہ اولاد پیدا کرے۔

امام جعفرصادق فرماتے ہیں جب سے خدیجہ نے رسول خدا سے عقد کیا، مکہ کی عورتوں نے آپ سے قطع تعلق کر لیا تھا اور آپ کے گھر آنا جانا بند کردیا تھا، وہ اس وجہ سے غمگین رہتی تھیں، لیکن جیسے ہی حضرت فاطمہ سے حاملہ ہوئیں تو تنہائی کے غم سے نجات پاگئیں اور اپنے شکم میں موجود بچے سے مانوس ہوگئیں اور اس سے باتیں کرتی رہتیں۔ جبرئیل پیغمبر اسلام(ص) اور حضرت خدیجہ کو خوشخبری سنانے کیلئے آئے اور کہا کہ اے پیغمبر اسلام(ص) خدیجہ کے رحم میں ایک ایسی بیٹی ہے جس سے تیری نسل چلے گی، وہ پیغمبر دین کے پیشواؤں اور اماموں کی ماں ہوگی جو وحی کے منقطع ہوجانے سے تیرے جانشین ہوں گے، جیسے ہی پیغمبر اسلام(ص) نے پروردگار جہاں کا پیام خدیجہ کو پہنچایا تو وہ بہت خوش ہوئیں۔

جی ہاں!پروردگار جہاں نے کچھ اس طرح کا ارادہ کر رکھاتھا کہ پاک و پاکیزہ نسل نبوی فقط فاطمہ سے ہی چلے اور یہ پاکیزہ زمین اس شرف و عزت والے درخت کو اپنے دامن میں پروان چڑھائے، نسل پیغمبر ہی اولاد فاطمہ ہیں اور پیغمبر کی ان پر خصوصی توجہ اس کی بہترین دلیل ہے۔

نام

امام جعفرصادق سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ کے نو نام ہیں، فاطمہ، صدیقہ، مبارکہ، طاہرہ، ذکیہ، راضیہ، مرضیہ، محدثہ، زہرا۔

آپ کے نام مختلف مناسبتوں سے رکھے گئے ہیں، اسم اور مسمی کے درمیان مطابقت توجہ طلب ہے اور یہاں پر فقط دو ناموں (فاطمہ، محدثہ) کے متعلق عرض کرنا ہے۔

نام اور شخصیت

اس بات کی تائید بہت سی روایت سے ملتی ہے۔

(الف) لغت میں فطم کے معنی کاٹنے والا، جدا کرنے والا کے ہیں، اور فاطم اور فاطمہ بمعنی کٹا ہوا کے ہیں، امام رضا علیہ السلام پیغمبر اسلام(ص) سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت(ص) کیلئے فاطمہ نام دکھنے کی علت یہ ہے کہ وہ اور ان کے شیعہ جہنم کی آگ سے الگ ہیں۔



1 2 next