حضرت زهرا (سلام الله علیها)کی ولادت



امام محمد باقر سے روایت ہے کہ آپ کے نام فاطمہ رکھنے کی علت یہ ہے آپ نے علم دودھ کے ذریعہ سے اخذ کیا ہے یعنی وہ علم و دانش کا مرکز ہیں۔

امام جعفرصادق سے روایت ہے کہ آپ کا نام فاطمہ رکھنے کی علت یہ ہے کہ شر اور برائی آپ کے وجود اقدس سے جدا ہیں۔

(ب) ان کے ناموں سے ایک نام محدثہ ہے، محدث وہ ہوتا ہے جس پر فرشتہ نازل ہو، جس طرح بارہ امام محدث تھے اسی طرح فاطمہ بھی محدثہ ہیں۔

امام جعفرصادق سے روایت ہے کہ پیغمبر کی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیھا محدثہ تھیں البتہ پیغمبر نہ تھیں، اسی وجہ سے انکو محدثہ کہتے ہیں، کیونکہ فرشتے آسمان سے اتر کر آپ سے ہمکلام ہوتے جس طرح مریم بنت عمران سے ہمکلام ہوتے تھے۔

روایات میں واضح طور پر اس موضوع کے متعلق آیا ہے پیغمبر اسلام(ص) کی رحلت کے بعد خداوند تبارک و تعالیٰ نے آنحضرت(ص) کی تسلی اور تشفی کیلئے فرشتوں کو آپ سے مانوس کردیا، حضرت جبرئیل آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور آنحضرت(ص) کی زندگی کے بعد ہونے والے واقعات سے خبر دیتے، حضرت امام علی ان کو تحریری طور پر محفوظ کر لیتے، ان آثار کو مصحف فاطمہ کہتے ہیں، جو آئمہ سے ہوتے ہوئے اب امام زمان (عجل) کی خدمت میں ہیں۔

آپ کی تاریخ تولد اور اس کا تعین

فاطمہ زھرا انتہائی عظیم المرتبت والدین سے پیدا ہوئیں، لیکن تاریخ والادت بلکہ سال ولادت بھی صحیح طور پر واضح نہیں ہے۔ مورخین نے فقط آپ کے بارے میں ہی متفق نہیں ہیں بلکہ ھادیان اور آئمہ معصومین کی تاریخوں اور مزید یہ کہ انکی تاریخ تولد بلکہ پیغمبر اسلام(ص) کی تاریخ وفات جیسے اہم ترین موضوع پر بھی متفق نہیں ہیں۔ بہرحال جو کچھ آسمانی ستارے کی تاریخ تولد کے بارے میں کہا گیا ہے، اس میں تین مشہور قول ہیں۔ الف۔ بعشت سے پانچ سال قبل، ب۔ بعشت کے پانچ سال بعد پیدا ہوئیں۔ البتہ تمام راویوں اور علماء و محدثین کی باتوں میں ایک قوی اور قابل توجہ قرینہ پایا جاتا ہے، جو واضح کرتا ہے کہ آنحضرت(ص) کی ولادت بعثت کے بعد میں ہوتی ے اور وہ قرینہ آپ کی ولادت اور معراج النبی کے درمیان ارتباط سے ہے کیونکہ روایات میں آیا ہے کہ پیغمبر نے فرمایا ہے کہ شب معراج مجھے جنت سے سیب دیا گیاجس سے میری بیٹی زہرا کا وجود اقدس اسی سبب سے تشکیل پایا۔ علاوہ ازیں علماء شیعہ معراج کو بعشت سے دو سال بعد سے لیکر ہجرت سے چھ ماہ قبل تک لکھتے ہیں۔

دوسری طرف سے کتاب شریف امالی میں شیخ صدوق علیہ الرحمة سے روایت ہے کہ جناب سیدہ کی ولادت کے موقع پر قریش اور بنی ہاشم کی خواتین سے کوئی بھی حضرت خدیجہ کی مدد کیلئے نہیں آئیں۔ بلکہ کہنے لگیں کہ اے خدیجہ اس وقت ہماری بات نہیں سنی اور ابو طالب کے یتیم بھتیجی سے شادی کرلی۔

مسلمہ بات ہے کہ اگر تاریخ تولد کو بعثت سے پانچ سال بعد قبول کرلیں، تو اس مدت میں تو یقینا پیغمبر مددگار رکھتے تھے بلکہ ایک طبقہ ایسا تھا جو دل و جان سے پیغمبر کا شیدائی تھا اور حضرت خدیجہ غیر مسلموں سے امداد کی نیاز مند ہی نہ تھیں، اور یتیم ابوطالب کے طعنے بھی بے بنیاد تھے۔ دوسری طرف سے چند شیعہ اور سنی روایات جناب فاطمہ کی ولادت کو خانہ کعبہ کی تعمیر نو کے ساتھ مربوط کرتے ہیں، یہ تعمیر نو والی داستان، اور حجر اسود کے نصب کرنے میں پیغمبر کوقاضی قرار دینے والی باتیں مسلماً بعثت سے پہلے یا اوائل بعثت میں تھیں، کیونکہ بعثت کے پانچویں سال میں قریش پیغمبر سے دشمنی رکھتے تھے، لہذا اس حکم کی قضا پیغمبر کو نہ دیتے۔

شیعہ روایت میں اس طرح ہے کہ سیدہ بعثت سے پانچ یا دو سال بعد پیدا ہوئیں۔ جبکہ اہل سنت کی روایات بعثت سے پانچ سال پہلے والے قول کی تائید کرتی ہیں۔

حقیقی بات یہ ہے کہ بزرگ و عظیم المرتبت شخصیات کی تاریخ ولادت یا شہادت یا رحلت اتنی اہم نہیں ہوتی بلکہ جو چیز ایسے برجستہ اور عظیم المرتبت شخصیات کی زندگیوں سے آئندہ نسلوں کیلئے قابل توجہ ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ جان لیں کہ وہ بے نظیر لوگ کون تھے، کیسے زندگی بسر کرتے تھے اور اپنے دور میں اور آئندہ کیلئے معاشرے میں کیا اثر چھوڑ گئے ہیں۔

 



back 1 2