تیسرے امام حضرت امام حسین علیه السلام



تیسرے امام حضرت امام حسین علیه السلام

سید الشھداء حضرت امام حسین علیہ السلام، حضرت علی علیہ السلام اور رسول خدا صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم Ú©ÛŒ بیٹی حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا Ú©Û’ دوسرے فرزند تھے۔ آپ Ú©ÛŒ ولادت  ۴ھء میں ھوئی تھی۔ اپنے بڑے بھائی امام حسن مجتبی ٰعلیہ السلام Ú©ÛŒ شھادت Ú©Û’ بعد خدا Ú©Û’ Ø­Ú©Ù… اور دوسرے امام Ú©ÛŒ وصیت Ú©Û’ مطابق منصب امامت پر فائز ھوئے Û”(1)

امام حسین علیہ السلام نے دس سال امامت کی اور اس تمام عرصے میں بھت ھی سخت حالات اور سیاسی گھٹن کی حالت میں زندگی گزاری ، کیونکہ اس زمانے میں دینی اصول و قوانین کی حیثیت ختم ھو چکی تھی اور حکومتی قوانین و احکام، خدا و رسول کے احکام کے جاگزیں ھو چکے تھے۔ ادھر معاویہ اور اس کے ساتھی اھلبیت علیھم السلام اور ان کے پیروکاروں کو ختم و نابود کرنے اور اسی طرح علی علیہ السلام اور اھلبیت علیھم السلام کا نام مٹانے کے لئے ھر کوشش اور امکان سے استفادہ کیا کرتے تھے۔

امام حسین علیہ السلام مجبوراً اس تاریک دور میں زندگی گزار رھے تھے اور ھر قسم کی سختیوں، روحانی شکنجوں اور اذیتوں کو جو معاویہ اور اس کے پیروکاروں کی طرف سے آپ پر وارد ھوتی تھیں، برداشت کر رھے تھے یھاں تک کہ ۶۰ھ میں معاویہ فوت ھوگیا اور اس کا بیٹا یزید اس کی جگہ بادشاہ بن گیا۔(2)

بیعت کرناایک عربی رسم تھی جو اھم کاموں مثلاً سلطنت اور امارات میں جاری تھی اور ما تحت  یا خاص کرمشھور لوگ اپنے سلطان،بادشاہ یا امیرکے ھاتھ پر بیعت کیا کرتے تھے اور اس طرح اپنی وفاداری ،اطاعت اورموافقت کا اظھار کرتے تھے اورپھر بیعت Ú©Û’ بعد مخالفت کرنا قومی غداری اورشرمساری شمار Ú©ÛŒ جاتی تھی۔ یہ مخالفت ایک قطعی اور مضبوط معاھدے Ú©ÛŒ خلاف ورزی اور جرم Ú©Û’ مترادف تھی۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم Ú©ÛŒ سیرت میں بھی مجموعی طور پر ÙˆÚ¾ÛŒ بیعت قابل قبول ھوتی تھی جو پورے اختیار Ú©Û’ اور کسی دباؤ Ú©Û’ بغیر ھو، نہ کہ دباؤ Ú©Û’ ذریعے۔

معاویہ نے بھی قوم کے بڑے بڑے اور مشھور لوگوں سے یزید کے لئے بیعت حاصل کرلی تھی لیکن امام حسین علیہ السلام پر کسی قسم کا بیعت کا دباؤ نھیں ڈالا گیا تھا یا ان سے بیعت کے لئے نھیں کھا گیا تھا اور نہ ھی یزید کی بیعت امام حسین(ع) کے لئے فرض کی گئی تھی۔ اس نے یزید کو خصوصاً نصیحت اور وصیت کی تھی (3)کہ اگر حسین ابن علی علیہ السلام تمھاری بیعت سے انکار کرے تو زیادہ اصرار نہ کرنا اور خاموشی اور چشم پوشی سے کام لینا، کیونکہ وہ اس مسئلے میں کافی تحقیق کرچکا تھا اوراس کام کے سخت نتائج کو اچھی طرح سے سمجھتا تھالیکن یزید اپنے غرور و تکبر اور دیدہ دلیری میں اپنے باپ کی نصیحت کو بھول چکا تھا اور اس نے اپنے باپ کی وفات کے فوراً بعد مدینے کے حاکم کو حکم دیا کہ امام حسین علیہ السلام سے اس کی بیعت لے ورنہ ان کا سر کاٹ کر شام بھیجا جائے۔(4)

جب مدینے کے حاکم نے یزید کی خواھش کو امام حسین علیہ السلام کے سامنے بیان کیا تو امام حسین علیہ السلام نے اس پر غور کرنے کے لئے کچھ مھلت چاھی۔ اس کے بعد راتوں رات اپنے خاندان کے ساتھ مدینہ سے مکہ چلے آئے اور حرم کعبہ اور خانہ خدا میں جو روایتی پناہ گاہ تھی، پناہ گزیں ھو گئے۔

یہ واقعہ  Û¶Û°Ú¾ Ú©Ùˆ ماہ رجب  Ú©Û’ آخر یا شعبان Ú©Û’ شروع میں پیش آیاتھا Û” امام حسین علیہ السلام چار مھینے تک شھر مکہ میں پناہ گزیں Ú©Û’ طور پر زندگی گزارتے رھے۔ ایک طرف تو وہ لوگ جو معاویہ Ú©Û’ زمانہ خلافت میں اس Ú©Û’ ظلم Ùˆ ستم Ú©ÛŒ وجہ سے ناراض تھے اور پھر یزید Ú©ÛŒ خلافت Ù†Û’ ان Ú©ÛŒ ناراضگی میں اور بھی اضافہ کردیا تھا، امام حسین علیہ السلام سے ھمدردی کا اظھار کرتے تھے اور دوسری طرف عراق خصوصاً شھر کوفہ سے یکے بعد دیگرے خطوط آرھے تھے جن میں امام حسین علیہ السلام Ú©Ùˆ عراق آنے اور ان لوگوں Ú©ÛŒ قیادت سنبھالنے Ú©ÛŒ دعوت دی گئی تھی، تاکہ ظلم Ùˆ ستم Ú©Ùˆ ختم کرنے Ú©Û’ لئے انقلاب برپا کریں۔لیکن یہ واقعات یزید اور اس Ú©ÛŒ حکومت Ú©Û’ لئے سخت خطرہ تھے۔

مکہ معظمہ میں امام حسین علیہ السلام کا قیام جاری تھا،یھاں تک کہ حج کا زمانہ آگیا اور دنیا کے مسلمان گروہ در گروہ اور جوق در جوق مکہ میں آنا شروع ھوگئے اور حج کرنے کے لئے تیار ھوگئے۔ اس وقت حضرت امام حسین علیہ السلام کو اطلاع ملی کہ یزیدی لوگوں کی ایک جماعت حاجیوں کی شکل میں مکہ میں داخل ھوگئی ھے جن کو مامور کیا گیا تھا کہ اپنے احرام کے نیچے ھتھیار کے ذریعے فریضہ حج کے دوران امام حسین(ع) کو شھید کردیں ۔(5)

امام حسین علیہ السلام نے فریضہ حج کو مختصر طور پر ادا کرتے ھوئے وھاں سے نکل جانے کا فیصلہ کیا۔ آپ نے لوگوں کی ایک جماعت کے سامنے مختصر سی تقریر کرتے ھوئے (6)عراق کی جانب جانے کی اطلاع دی۔ آپ نے اپنی شھادت کی خبر بھی دی اور اس کے ساتھ ھی مسلمانوں سے مدد کی درخواست بھی کی کہ اس اھم کام میں ان کی مدد کریں اور خدا کی راہ میں اپنا خون بھادیں۔ اس سے اگلے دن آپ اپنے خاندان اور چند ساتھیوں کے ساتھ عراق کی طرف چل پڑے۔

امام حسین علیہ السلام نے پختہ ارادہ کر لیا تھا کہ ھرگز یزید کی بیعت نھیں کریں گے اور یہ بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ بیعت سے انکار کرنے کے بعد قتل ھوجائیں گے۔ بنی امیہ کی دھشتناک جنگی فوج جو عمومی بد عنوانیوں اور فکری تنزل میں رچی بسی ھوئی ھے حتماً آپ کو شھید کردے گی کیونکہ اس کے پاس کوئی اختیار نھیں ھے بلکہ وہ ھر یزیدی حکم کی ماننے والی ھے اور پھر اھل عراق بھی اس کے حامی اور مددگار ھیں۔



1 2 3 4 next