تیسرے امام حضرت امام حسین علیه السلام



لیکن اس دفعہ امام کے وفادار اصحاب نے مختلف بیانات میں جواب دئے:

”ھم ھرگز حق کے اس راستے سے منہ نھیں پھیریں گے جس کے آپ امام اور رھبر ھیں۔ ھم ھرگز آپ کے دامن پاک کو نھیں چھوڑیں گے اور جب تک ھمارے بدنوں میں خون کی آخری رمق باقی ھے اور ھمارے ھاتھوں میں تلوار موجود ھے، ھم آپ کی حفاظت کریں گے۔“ (11)

دشمن کی طرف سے نویں محرم کو امام حسین علیہ السلام کو ”بیعت یا جنگ“ کا آخری انتباہ دیا گیا۔ امام حسین علیہ السلام نے عبادت کے لئے ایک رات کی مھلت مانگی اور آنے والے کل کی جنگ کے لئے تیار ھو گئے۔(12)

دس محرم الحرام  Û¶Û±Ú¾ Ú©Ùˆ امام حسین علیہ السلام اپنے نھایت قلیل اصحاب Ú©Û’ ساتھ دشمن Ú©Û’ بے انتھا لشکر Ú©Û’ سامنے صف آرا ھوگئے اور اس طرح جنگ شروع Ú¾Ùˆ گئی۔

اس دن صبح سے لے کر شام تک جنگ جاری رھی۔ امام، تمام ھاشمی جوان اور ان کے باوفا اور جاں نثار اصحاب یکے بعد دیگرے شھید ھوگئے (شھید ھونے والوں میں امام حسن(ع) کے دو چھوٹے کمسن بچے، امام حسین(ع) کا ایک چھوٹا اور ایک شیر خوار بچہ بھی شامل تھا)۔(13)

دشمن Ú©ÛŒ فوج Ù†Û’ جنگ Ú©Û’ بعد امام حسین علیہ السلام Ú©Û’ حرم Ú©Ùˆ لوٹ لیا اور خیموں Ú©Ùˆ آگ لگا دی۔ اس Ú©Û’ بعد شھیدوں Ú©Û’ سروں Ú©Ùˆ ان Ú©Û’ جسموں سے الگ کرکے لاشوں کوبے گور Ùˆ کفن اِدھر اُدھر پھینک دیا۔ پھر اھل حرم Ù†Û’ جو کہ بے آسرا Ùˆ بے وارث مستورات اور بچیاں تھیں، شھیدوں Ú©Û’ ساتھ کوفہ Ú©ÛŒ طرف Ú©ÙˆÚ† کیا۔ (قیدیوں میں مرد بھت Ú©Ù… تھے۔ ان میں امام حسین علیہ السلام Ú©Û’ فرزند امام زین العابدین جو سخت بیمار تھے یعنی شیعوں Ú©Û’ چوتھے امام اور ان Ú©Û’ چار سالہ فرزند محمد بن علی (امام باقرعلیہ السلام) جو بعد میں پانچویں امام ھوئے۔  قیدیوں Ú©Û’ ساتھ کوفہ Ú©ÛŒ طرف Ù„Û’ جائے گئے۔ پھر کوفہ سے دمشق Ù„Û’ جا کر یزید Ú©Û’ دربار میں ان Ú©Ùˆ حاضر کیا گیا۔

واقعۂ کربلا، حرم اھلبیت علیھم السلام کو شھر بشھر پھرانے اور امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی بیٹی حضرت زینب سلام اللہ علیھا اور امام زین العابدین علیہ السلام کی تقاریر نے (جو انھوں نے کوفہ اور شام میں کی تھیں، بنو امیہ کی حکومت کو ھلا کر رکھ دیا اور ذلیل و خوار کر دیا اور معاویہ کے پروپیگنڈوں کا اثر زائل کر دیا بلکہ نوبت یھاں تک پھنچی کہ یزید نے سب کے سامنے اپنے جرنیلوں اور ماموروں کے عمل سے بیزاری اور نفرت کا اظھار شروع کردیا۔ کربلا کا واقعہ ایک اھم عنصر تھا جس کے فوری اثر نے بنی امیہ کی حکومت کا خاتمہ کردیا تھا اور مذھب شیعہ کی بنیاد بھت مضبوط کر دی تھی۔ اس واقعہ کا فوری اثر یہ ھوا کہ انقلاب اورشورشیں شروع ھو گئیں اور ساتھ ھی خونریز جنگوں کا ایک طویل سلسلہ بھی شروع ھوگیا جو بارہ سال تک جاری رھا۔ جن لوگوں نے امام حسین علیہ السلام کے قتل میں شرکت کی تھی ان میں سے ایک شخص بھی انتقام سے نھیں بچ سکا۔

جو شخص امام حسین علیہ السلام کی زندگی، یزید کی حکومت کی تاریخ اور اس زمانے کے حالات و واقعات پر غور کرے اور تاریخ کے اس حصے میں تحقیق کرے اس کے لئے کوئی شک و شبہ باقی نھیں رھے گا کہ اس وقت امام حسین علیہ السلام کے سامنے صرف ایک یھی راستہ تھا اور وہ تھا شھادت کا راستہ ۔ یزید کی بیعت کرنے کا مطلب یہ تھا کہ اعلانیہ طور پر اسلام کے اصولوں کو پامال اور قربان کردیا جائے اور یہ چیز امام حسین علیہ السلام کے لئے ھرگز قابل قبول نہ تھی کیونکہ یزید نہ صرف دینِ مقدس اسلام کے قوانین اور اصولوں کا کوئی احترام نہ کرتا تھا بلکہ اسلام کے قوانین اور اصولوں کو پامال کرنے میں بھی بے باکانہ اور بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔

اس کے بر خلاف اس سے پھلے حکمراں اگر چہ اصولوں کی مخالفت کیا کرتے تھے مگر جو کچھ بھی کرتے دین کے پردے میں انجام دیتے تھے۔ دینی امور کو ظاھری طور پر محترم شمار کیا کرتے تھے۔

جیسا کہ بعض مفسرین نے کھا ھے کہ یہ دونوں امام (امام حسن(ع) اور امام حسین(ع)) مختلف نظریات رکھتے تھے یعنی امام حسن علیہ السلام صلح پسند تھے اور امام حسین(ع) علیہ السلام جنگ اور جھاد کو ترجیح دیتے تھے، کیونکہ ایک بھائی چالیس ھزار جنگی سپاھی رکھتے ھوئے بھی معاویہ کے ساتھ صلح کرلیتا ھے اور دوسرا بھائی صرف چالیس افراد کے ساتھ یزید کے خلاف جنگ کا اعلان کردیتا ھے، یہ بات بالکل بے جا ھے۔



back 1 2 3 4 next