توسل کے بارے میں ایک جد وجھد



۴(ع) میل و رغبت کے ساتھ کسی چیز تک پھونچنے کے لئے چارہ جوئی کرنا۔

۵(ع) ھر وہ چیز جس کے ذریعہ دوسرے سے نزدیک ھونا ممکن ھو۔[1]

توسل فطرت و طبیعت کی نگاہ سے

اس میں کوئی شک نھیں کہ انسان اپنے مورد نیاز معنوی و مادی کمالات کو حاصل کرنے کا محتاج ھے، زمین و آسمان سے لیکر ہزاروں جمادات و نباتات انسان و حیوان درکار ھوتے ھیں تاکہ انسان اس کائنات کے آثار و خواص وجودی کے ذریعہ اپنے نقائص و کمیوں کو دور کرے اور کچھ کمالات مادی و معنوی کو حاصل کرے۔

یھی قاعدہ تمام موجودات کے لئے جاری و ساری ھے، یعنی ھر ایک موجود ایک طرح سے دوسرے موجودات کی طرف دست نیاز دراز کئے ھوئے ھیں اور فعل و انفعال اور تاثیر و تاثر میں ایک دوسرے کے محتاج ھیں۔

اور یہ وھی قانون ”توسل“ ھے جو ایک تکوینی حقیقت اور مسلّم طبیعت ھے کہ خلقتِ نظام عالم اور عالم انسانیت میں برقرار اور ھر جگہ مشھود و عیاں ھے۔

اور کوئی با شعور انسان چاھے اس کا شعور مادی ھو یا الہٰی اس قانون کو جاری کرنے میں کسی طرح کی تردید محسوس نھیں کرتا اور موجودات کے تاثیر کا منکر نھیں ھے۔

جبکہ ھم لوگ جانتے ھیں کہ: پیاسا انسان ٹھنڈا پانی پینے سے سیراب ھو جاتا ھے اوردوا بیمار کے لئے شفابخش ھوتی ھے اور زھریلی چیزیں سالم افراد کی جان خطرے میں ڈال سکتی ھیں، اور اسی طرح جاھل افراد استاد کی تعلیم سے عالم بن جاتے ھیں اور فقیر مالدار کی بخشش سے غنی ھوجاتے ھیں برسات میں بادل پانی برساتا ھے اور وہ پانی زمین کو سر سبز کرتا ھے جانور سبزہ زار سے اپنے پیٹ بھرتے ھیں اور جانور خود حیات انسانی کی بقا کے سبب بنتے ھیں۔

اور اسی طرح کائنات کی تمام چیزیں سلسلے وار ایک دوسرے کے لئے موٴثر اور ایک دوسرے سے متاثر ھیں یھاںتک کہ مادی انسان تمام اشیا ء و خواصِ موجودات کو ایک دوسرے کے لئے معلول طبیعت جانتا ھے ،لیکن ایک مسلمان تمام اشیاء کی طبیعت و اجسام کی ترکیب کائنات کے نظم و نسق میں خدائے علیم و حکیم کو مستند و اصل جانتا ھے ایک ایسی تدبیر جو کہ :

چشمہ از سنگ برون آرد و باران از میغ



back 1 2 3 4 5 6 7 next