شيعه مذهب کا آغاز



تاريخى اعتبار سے مذھب شيعہ کے ماننے والے کو سب سے پھلے حضرت علي(ع) کا شيعہ يا پيرو کار کھا گيا ھےـ مذھب شيعہ کى پيدائش يا آغاز کا زمانہ وہ زمانہ ھے جب پيغمبر اکرم (ص)اس دنيا ميں موجود تھے ـ پيغمبر اکرم کى ولادت سے لے کر23 سالہ زمانۂ بعثت تک اور تحريک اسلام کى ترقى کے دوران بھت سے ايسے اسباب و واقعات رونما ھوئے جن کے نتيجے ميں خود رسول خدا (ص) کے اصحاب ميں ايک ايسى جماعت کا پيدا ھونا ناگزير اور لازمى ھوگيا تھا ـمندرجہ ذيل امور اس امر کى توثيق کرتے ھيں (1)

(1)رسو ل خدا کو اپنى بعثت کے اوائل ميں ھى قرآن مجيد کى آيت کے مطابق حکم ملا کہ اپنے خويش و اقارب کو اپنے دين کى طرف بلائيں ـ لھذا آپ نے واضح طور پر ان لوگوں سے فرمايا کہ جو شخص تم ميں سب سے پھلے ميرى دعوت کو قبول کرے گا وھى ميرا وصى ، وزير او ر جانشين ھوگا ـ حضرت علي(ع) نے سب سے پھلے اسلام قبول کيا اور پيغمبر اکرم (ص) نے بھى ان کے ايمان کو تسليم کرليا اور اپنے وعدہ کو پورا کيا ـ

فطرى طورپريہ بات محال ھے کہ ايک تحريک کا قائداور رھبر اپنى تحريک کے آغاز ميں اپنے قرابت داروں اور ـ دوستوں ميں سے ايک شخص کو اپنے وزير ، جانشين يا نائب کے طور پر دوسروںکے سامنے پيش کرے ليکن اپنے فداکاراور جاں نثار اصحاب اور دوستوں سے اس کا تعارف نہ کرائے يا اسکى صرف وزارت اورجانشينى کو خود بھى قبول کرے اوردوسروں سے بھى قبول کرائے ليکن اپنى دعوت اور تحريک کے پورے عرصے ميں اس کو وزارت اور جانشينى کے فرائض سے معزول رکھے اور اسکى جانشينى کو نظر انداز کرتے ھوئے اس کے اور دوسروں کے درميان کوئى فرق روانہ رکھے ـ

(2)پيغمبر اکرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے کئى مستفيض اور متواتر روايات جو شيعہ اور سنى دونوں ذرائع سے ھم تک پھنچى ھيںکے ذريعے واضح طور پر فرمايا ھے کہ حضرت على عليہ السلام اپنے قول و فعل ميں خطا اور گناہ سے پاک ھيں ، وہ جو کچھ بھى کھتے ھيں يا جوکام بھى انجام ديتے ھيں وہ دين اسلام کى دعوت و تبليغ کے ساتھ مطابقت رکھتا ھے نيز وہ اسلامى معارف کے بارے ميں سب سے زيادہ جانتے ھيں ـ

(3)حضرت على عليہ السلام نے بھت گراں بھا خدمات انجام ديں اور بے اندازہ فداکارياں کيں مثلاً ھجرت کى رات دشمنوںکے نرغے ميں پيغمبر اکرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم کے بستر مبارک پر سوئےـ بدر ، احد ، خندق اور خيبرکى جنگوں ميںاسلام کوحاصل ھونے والى فتوحات آپ ھى کے ايثار کانتيجہ تھيں اگر ان ميں سے ايک معرکے ميں بھى على عليہ السلام موجود نہ ھوتے تو دشمنان حق کے ھاتھوں اسلام اور اھل اسلام کى بيخ کنى ھوجاتى ـ (2)

(4)غدير خم کا واقعہ جس ميں پيغمبر اکرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے حضرت على عليہ السلام کواپنے جانشين کے طور پرمسلمانوں کے سامنے پيش کيا اور ان کو اپنا وصى بنايا ـ (3)

ظاھر ھے کہ ان خصوصى امتيازات اورفضائل (4)کے علاوہ جو سب افراد کے لئے قابل قبول تھے حضرت على عليہ السلام کے ساتھ پيغمبر اکرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم کى بے اندازہ محبت (5)نے فطرى طور پر رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم کے اصحاب ميں سے ايک بڑى تعداد کوان کى فضيلت اور حقيقت کاشيفتہ بناديا تھا ـ يھى وجہ تھى کہ انھوں نے حضرت على عليہ السلام کومنتخب کيا اور ان کے گرد جمع ھوگئے اوران کى پيروى اور اطاعت شروع کردى يھاں تک کہ بعض لوگوں نے اس پسنديدگى کى وجہ سے آپ سے حسدبھى کرنا شروع کرديا اورآپ کے دشمن ھو گئے ـ

ان سب کے علاوہ شيعۂ علي(ع) اور شيعۂ اھلبيت(ع) کالفظ پيغمبر اکرم (ص)کى احاديث ميں بھت زيادہ نظر آتا ھے ـ

شيعہ اقليت کى سنى اکثريت سے جدائى کى وجہ اور اختلافا ت کا پيدا ھونا

رسول پاک صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم ، صحابۂ کرام اور تمام مسلمانوں کى نظر ميں حضرت على عليہ السلام کى قدرو منزلت کے باعث آپ کے پيروکاروں کو يقين تھا کہ آنحضرت صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم کى رحلت کے بعد خلافت اور رھبرى حضرت على عليہ السلام کا مسلمہ حق ھے ـ اس کے علاوہ تمام شواھد و حالات بھى اس عقيدے کى تصريح کرتے تھے ، سوائے ان واقعات کے جو پيغمبر اکرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم کى بيمارى کے زمانے ميں رونما ھو,(ئے(6) ليکن ان لوگوں کى توقعات کے بالکل بر خلاف ٹھيک اس وقت جبکہ پيغمبراکرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے رحلت فرمائى اور ابھى آپ کى تجھيز و تکفين بھى نھيں ھوئى تھى اور اھلبيت عليھم السلام اور بعض اصحاب کفن ودفن کے انتظامات کررھے تھے ،خبر ملى کہ ايک جماعت نے جو بعد ميں اکثريت کى حامل ھوئى ،نھايت جلد بازى ميں پيغمبر اکرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم کے اھل و عيال ، رشتہ داروں اور پيروکاروں سے مشورہ کئے بغير حتى ان کو اطلاع ديئے بغير ، ظاھرى خير خواھى اور مسلمانوں کى بھبودى کى خاطر مسلمانوں کے لئے خليفہ کا انتخاب کرلياھےـ اس کى خبر حضرت على عليہ السلام اور آپ کے پيرروکاروں کوخليفہ کے انتخاب کے بعد دى گئى تھى ـ (7)حضرت رسول اکرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم کے کفن ودفن کے بعد جب حضرت على عليہ السلام اور آپ کے پيروکاروں عباس ، زبير ، سلمان ، ابوذر ،مقداد اور عماروغيرہ کو اس واقعے کى اطلاع ملى تو انھوں نے انتخابى خلافت اورخليفہ کو انتخاب کرنے والوں پر سخت اعتراضات کئے اور اس ضمن ميں احتجاجى جلسے بھى ھوئے مگر جواب ديا گيا کہ مسلمانوں کى اسى ميں بھترى ھے ـ

يھى اعتراضات تھے جنھوں نے اقليت کو اکثريت سے جدا کرديا تھا اورحضرت على عليہ السلام کے پيروکاروں کو معاشرے ميں ”شيعۂ علي(ع) “ کے نام سے پھچنوايا تھا البتہ حکومت اور خلافت کے مامو رين بھى سياسى لحاظ سے کڑى نظر رکھے ھوئے تھے کہ مذکورہ اقليت اس نام سے مشھور نہ ھو اوراسلامى معاشرہ اکثريتى اور اقليتى گروھوں ميں تقسيم نہ ھونے پائے کيونکہ وہ خلافت کو اجماع امت جانتے تھےـ



1 2 3 4 5 6 next