شيعه مذهب کا آغاز



1ـ آپ نے اپنى منصفانہ سيرت کے ذريعے پيغمبر اکرم کى پرکشش اور ھردلعزيز شخصيت کو عوام او ر خاص طور پر جديد نسل کے سامنے پيش کيا ـ معاويہ کى شاھانہ شان و شوکت کے مقابلے ميں آپ ھميشہ غريبوں اور فقيروں کى طرح اور بيکس وناداروں افراد کى مانند زندگى گزارتے تھے اور ھرگز اپنے دوستوں ،اعزاء و اقارب او رخاندان کے افراد کو دوسروں پر ترجيح اور امير کو غريب پر يا طاقتور کو کمزور پر فوقيت نھيں ديتے تھے ـ

2ـ ان تمام طاقت فرسا اور طولانى مشکلات کے باوجود آپنے معارف الھى اور علوم انسانى کے گرانبھا اور قيمتى ذخائردنياکے حوالے کئے ھيں ـ

حضرت علي(ع) کے مخالفين کا دعوى ھے کہ آپ بڑے بھاد ر اور شجاع انسان توتھے ليکن اچھے سياستداں نھيں تھے کيونکہ اپنى خلافت کے اوائل ميں مخالف عناصر کے ساتھ وقتى طور پر صلح کرکے ان کو راضى رکہ سکتے تھے اور اس طرح اپنى خلافت کومستحکم اور مضبوط بنانے کے بعد ان کا قلع قمع کرسکتے تھے ليکن آپ نے ايسانھيںکياـ

ان افراد نے اس نکتہ کو نظرانداز او ر فراموش کرديا ھے کہ حضرت علي(ع) کى خلافت ايک انقلابى تحريک تھى او رايک انقلابى تحريک کو بے جا تعريف ، چاپلوسى ، ظاھرپرستى اور ريا کارى سے دور رھنا چاھئے ـ ايسى ھى حالت پيغمبر اکرم کے زمانے ميں بھى پيش آئى تھى کہ کفار و مشرکين نے کئى بار آنحضرت کو تجويز پيش کى تھى کہ اگر آنحضرت ان کے خداؤں کى مخالفت اور توھين نہ کريں يا ان کو برا بھلا نہ کھيں تو وہ بھى ان کى دعوت اور تحريک کى مخالفت نھيں کريں گے ليکن پيغمبر اکرم نے ان کى يہ تجويز مسترد کردى تھى حالانکہ ان سخت حالات ميں ان کى تعريف کرکے يا ان کے ساتھ مصالحت کرکے اپنى حالت اور طاقت کو مضبوط بنا سکتے تھے اور پھر دشمنوں کى مخالفت کرکے ان کا قلع قمع بھى کر سکتے تھے ليکن درحقيقت ايک اسلامى اور انقلابى تحريک ھرگز يہ اجازت نھيں دے سکتى کہ ايک حقيقت کو زندہ کرنے کے لئے دوسرى حقيقت کو مٹايا يا پاما ل کرديا جائے اور ايک باطل کو دوسرے باطل کے ذريعے رفع کيا جائے ـ قرآن ميں متعددآيات اس بارے ميں موجود ھيںـ اس کے برعکس حضرت علي(ع) کے مخالفين اپنے مقصد ميں کاميابى حاصل کرنے کى خاطر کسى بھى جرم، غدارى اور اسلامى قوانين کى واضح اور اعلانيہ خلا ف ورزى کو نظر انداز نھيں کرتے تھے اور ھر بدنامى کو اپنے صحابى اور مجتھد ھونے کے بھانے سے دھوڈالتے تھے ليکن حضرت علي(ع) اسلامى قوانين پر سختى سے کار بندرھتے تھے ـ

حضرت علي(ع) سے عقلى ، دينى اور اجتماعى علوم و فنون کے بارے ميں گيارہ ھزار مختصر ليکن پر معنى متفرقہ فقرے موجود ھيں (29)آپ نے اپنے خطبوں کے دوران اسلامى علوم ومعارف (30)کونھايت فصيح و بليغ اور سليس و رواں زبان ميں بيا ن کيا ھےـ (31) آپ نے عربى زبان کى گرامر بھى تدوين کى اور اس طرح عربى زبان وادبيات کى بنيادڈالى تھى ـ آپ اسلام ميں سب سے پھلے شخص ھيں جس نے الھى اور دينى فلسفے پرغور و خوض کيا تھاـ (32)آپ ھميشہ آزاد استدلال اور منطقى دلائل کے ساتھ گفتگو کيا کرتے تھے اور وہ مسائل جن پردنيا کے فلسفيوں نے بھى اس وقت تک توجہ نھيں کى تھى ، آپ نے ان کو پيش کيا اور اس بارے ميں اس قدر توجہ اورانھماک مبذول فرماتے تھے کہ حتيٰ عين جنگ کے دوران (33) بھى آپ(ع) علمى بحث ومباحثہ ميں مشغول ھوجاتے تھے ـ

3ـ آپ نے اسلامى ، مذھبى اور دينى دانشوروںپرمشتمل ايک بھت بڑى جماعت تربيت دى تھي (34)کہ ان افراد کے درميان نھايت پارسا ، زاھد اور اھل علم و معرفت افرادمثلا ً اويس قرنى ، کميل بن زياد ، ميثم تماراور رشيد ھجرى وغيرہ موجود تھے جواسلامى عرفاء اورعلماء ميں علم و عرفان کے سرچشمے مانے اور پھچانے جاتے ھيں ـ اس کے علاوہ ايک دوسرى جماعت کى تشکيل اورتربيت کى تھى جس ميں بعض لوگ علم فقہ ، علم کلام ، علم تفسير اور علم قراٴت وغير ہ ميں اپنے زمانے کے بھتيرين علماء اور اساتذہ شمار ھوتے تھے ـ

خلافت کا معاويہ کى طرف چلاجانا اور پھر موروثى سلطنت ميں تبديل ھوجانا

حضرت على عليہ السلام کى شھادت کے بعد آپ کى وصيت اور عوام کى بيعت کے مطابق حضرت امام حسن(ع) نے خلافت سنبھالى جو بارہ امامى شيعوں کے دوسرے امام ھيںـ

اس بيعت سے معاويہ کا چين وسکون غارت ھوگياتھاـ اس نے عراق پر چڑھائى کردى جو اس زمانے ميں خلافت کا مرکز تھااور حضرت امام حسن(ع) کے خلا ف اعلان جنگ کرديا ـ

معاويہ نے مختلف فريبوں ، حيلوں اوربھانوں سے نيزبھت زيادہ مال و دولت خر چ کرکے آھستہ آھستہ امام حسن بن علي(ع) کے طرفداروں اور اصحاب کو اپنے ساتھ ملاليا تھا اورآخر کار امام حسن(ع) کو مجبور کرديا کہ صلح کے عنوان سے خلافت کو معاويہ کے حوالے کرديں اور امام حسن بن علي(ع) نے بھى اس شرط پر کہ معاويہ کى وفات کے بعدخلافت دوبارہ انھيںواپس لوٹا دى جائے اور ساتھ ھى ان کے دوستوں اور پيروکاروں پر بھى کسى قسم کا جبر وتشدد يا ظلم نہ ھو ،خلافت معاويہ کے سپرد کردى تھى ـ(35)

40 ھ ميں معاويہ نے خلافت پر قبضہ کرليا اور فورا ً عراق آيا ـ اس نے اپنے خطبوں ميں لوگوں کو متنبہ کيا او رکھا : ”ميں تمھارے ساتھ نماز ، روزہ کے لئے جنگ نھيں کررھا تھا بلکہ ميں چاھتا تھا کہ تم پر حکومت کروں اور اب ميں اپنے مقصد ميں کامياب ھوگياھوں “ (36)



back 1 2 3 4 5 6 next