شيعه مذهب کا آغاز



اور پھر کھا : ”ميں نے حسن کے ساتھ جو معاھدہ کيا تھا وہ اب باطل اور منسوخ ھوچکا ھے “ (تارى طبرى ج 4، ص 124) اور دوسرى تمام تاريخى کتابيںـ

معاويہ نے اپنے خطبے ميں اشارہ کيا کہ وہ سياست کو دين سے الگ کردے گا اوراس طرح دينى قوانين کے بارے ميں بھى کوئى ضمانت نھيں دے گا ـ البتہ يہ واضح ھے کہ ايسى حکومت ، سلطنت اور بادشاھت ھے نہ کہ خلافت يا پيغمبر اکرم کى جانشينى ـيھى وجہ ھے کہ بعض لوگ جو معاويہ کے پاس پھنچے تھے اور اس کے دربار ميں رسائى حاصل کرسکے تھے ، انھوں نے بادشاہ کى طرح اس کو سلام کيا تھا (37)ـ وہ خود بھى بعض خصوصى مجالس ميں اپنى حکومت کو خصوصى ملوکيت اور بادشاھى سے تعبير کيا کرتا تھا (38)ـ اگرچہ وہ عام او ر ظاھرى طور پر لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو خليفہ ھى کھا کرتاتھا ليکن وہ بادشاھت ياسلطنت جوزور اور طاقت کے بل بوتے پرقائم ھو اس ميں وراثت خو د بخود آجاتى ھے اور آخر کار اس نے اپنى نيت او رخواھش کوعملى جامہ پھنايا اور اپنے بيٹے يزيد کو جو ايک نھايت ھى لاابالى ، آوارہ اور عياش شخص تھا، جسے ذرہ برابر بھى دينى شعور نہ تھا اور نہ ھى کوئى مذھبى شخصيت رکھتا تھا ، اپنا جانشين اورولى عھد بنايا(39)ـجس نے اپنى حکومت اور سلطنت کے دوران اس قدر شرمناک حوادث اور واقعا ت کو جنم ديا کہ قيامت تک تاريخ اس پر شرمندہ رھے گى ـ

معاويہ اپنے بيانات ميں ھميشہ اشارہ کيا کرتا تھا کہ وہ کبھى امام حسن کو دوبارہ خليفہ نھيں بننے دے گاـ خلافت کے بارے ميں اپنے مرنے سے پھلے اس کے دماغ ميں کچھ اور ھى خيال تھااور يہ وھى خيال تھا جس کے ذريعے اس نے امام حسن(ع) کوزھر دے کر شھيد کراديا تھا (40)اور اس طرح اپنے بيٹے يزيد کے لئے راستہ ھموار کرديا تھا ـ معاويہ نے اپنے معاھدے کى خلاف ورزى کرکے عوام کوسمجھاديا تھا کہ وہ کبھى بھى اھلبيت(ع) کے شيعوں کو امن وامان کے ماحول ميں زندگى گزارنے کى اجازت نھيں ديگاکہ پھلے کى طرح اپنى دينى سرگرمياں جارى رکہ سکيں اور آخر کار اس نے اپنے خيالات کو عملى جامہ پھناھى دياـ

اس نے اعلان کيا کہ جو شخص بھى اھلبيت(ع) کى تعريف اور شان ميں کوئى حديث بيان کرے گا اس کے جان ومال کى حفاظت کى کوئى ضمانت نھيں دى جائے گى ـ (41)اسى طرح اس نے حکم دياکہ جو شخص تمام اصحاب رسول او رخلفاء کى تعريف ميںکوئى حديث بيان کرےگا اس کو بے حد انعام واکرام سے نوازا جائے گا ـاس حکم کے نتيجے ميں صحابہ کى شان ميں بھت زيادہ احاديث گھڑھ لى گئيں ـ (42) اس نے حکم ديا کہ تمام اسلامى ممالک ميں منبروں پر خطبوں کے دوران علي(ع) پر شب وستم کياجائے گا ( يہ حکم اموى خليفہ عمربن عبد العزيز 99ـ101 ھجرى قمرى کے زمانے تک جارى رھا )اس نے اپنے مددگاروں اور پيروکاروں کى مدد اور کوشش کے ذريعے جن ميں بعض اصحاب رسول بھى تھے ، حضرت علي(ع) کے شيعوں اورمخصوص پيروکاروں کو شھيدکروادياتھا ـان ميں سے بعض کے سروں کو نيزوں پر چڑھا کر شھروں ميں پھرايا تھا ـ وہ عام شيعوں کو جھاں کھيں بھى ديکھتاتھا تکليفيں ، آزار او ر شکنجے ديا کرتا تھاـ ان کو تلقين وتاکيد کى جاتى تھى کہ وہ حضرت علي(ع) کى پيروى کرنے سے باز رھيں اور جو شخص اس حکم کو قبول نہ کرتا اس کوقتل کرديا جاتاتھا ـ(43)

شيعوں کے لئے سب سے مشکل زمانہ

شيعہ افراد اور شيعہ مذھب کے لئے تاريخ ميں سب سے زيادہ مشکل حالات معاويہ کى بيس سالہ حکومت کے دوران تھے جس ميں شيعوں کے لئے کسى قسم کا امن و چين موجود نہ تھا ـ ادھر شيعوں کے دو امام (امام دوم اور امام سوم )معاويہ کے زمانے ميں حالات کو بھتربنانے او ر خلافت کو لوٹانے ميں بے بس اور بے اختيار تھے حتيٰ کہ تيسرے امام امام حسين(ع) يزيد کى سلطنت کے پھلے چہ مھينوں کے دوران ھى اس کے خلاف اٹھ کھڑے ھوئے ـ آپ(ع)اپنے دوستوں او ر اصحاب و اولاد کے ساتھ يزيد کى مخالفت کرتے ھوئے شھيد ھوگئے ـ معاويہ کى آخرى دس سالہ خلافت کے دوران اس بات کا امکان بھى نہ تھا کہ خلافت دوبارہ اھل بيت(ع) کو واپس مل جائے ـ

اھلسنت کے اکثر افراد اس قسم کى خلاف ورزيوں او ر ناحق قتل و غارت جو بعض اصحاب رسول اور خصوصا ً معاويہ کے ھاتھوں ھوئيں ،کى اس طرح توجيہ کرتے ھيں کہ وہ رسول اکرم (ص)کے اصحاب تھے اور اصحاب رسول مجتھد اور پيغمبر اکرم (ص) کى احاديث کے مطابق ھرکام ميں معذور ھوتے ھيں ـلھذا خدا ان سے راضى ھے اورکسى بھى قسم کے جر م او ر قتل کا خداوند تعاليٰ ان سے حساب نھيں ليتا اورہ بخش دئے جاتے ھيں ليکن شيعہ اس عذر کو تسليم نھيںکرتے ـ

سب سے پھلے تو يہ بات معقول او رصحيح نظر نھيں آتى کہ پيغمبر اکرم (ص) جيساايک عمومى اورمعاشرتى رھبر ايک جماعت ياگروہ کو عدل و آزادى کى خاطر اپنا ھم عقيد ہ بنائے اور اس کو ظلم و ستم کے خلاف ابھارے ساتھ ھى اپنى تمام زندگى اسى مقدس او ر پاک مقصد کى خاطر وقف کردے اور اپنے خدائى نظريے کو عملى جامہ پھنائے ليکن جب اپنے مقصد اور مطلب کوحاصل کرنے ميں کامياب ھوجائے تو اپنے دوستوں اوراصحاب کو عوام اور مقدس قوانين کے بارے ميںمکمل آزادى ديدے تاکہ ھر قسم کى حق کشي، خلاف ورزى ، تخريب کارى اور لاقانونيت وغيرہ ان کے لئے معاف ھو جائے ـ اس کا مطلب يہ ھوگا کہ اس رھبرنے جن ھاتھوں سے اور جن ذرائع سے ايک عظيم الشان عمارت کى بنياد رکھى تھى انھيں ھاتھوں سے اسے تباہ وبرباد کردياـ

دوسرے يہ کہ وہ روايات جن سے صحابہ کرام کو مقدس ، پا ک اور ان کے ھر ناجائز اعما ل کو صحيح اور جائز کھے جانے کے ساتھ ساتھ ان کو قابل بحشش سمجھا جاتا ھے ،خود صحابہ ھى سے ھم تک پھنچى ھيں يا ان سے منسوب کردى گئى ھيں ـ تاريخى شواھد کے مطابق خود صحابہ آپس ميں ايک دوسرے کے بارے ميں اس قسم کى معذوريت اور بخشش کے قائل نھيں تھے کيونکہ يہ اصحاب ھى تھے جنھوں نے سب سے پھلے ايک دوسرے کوبدنام کرنے اور ايک دوسرے کو برا بھلا کھنے کے لئے زبان کھولى تھى اورايک دوسرے کے عيوب اور اشتباھات کوقطعاً نظر انداز نھيں کيا کرتے تھے ـ

مندرجہ بالانکات کى روشنى ميں خود صحابہ کى گواھى کے مطابق يہ روايات واحاديث صحيح نھيں ھيں اور اگر ھوں بھى تو انکے معنى کچھ اور ھوں گے،ان سے صحابہ کى تقديس (مقدس اور پا ک ھونے )حا قابل بخشش ھونے کا مقصد ھرگز نھيںھوگا ـ

اور اگر فرض کريں کہ اللہ تعاليٰ نے صحابہ کے بارے ميں کسى وقت اپنے کلام پاک ميں ان کى خدمت دين کے صلہ ميں ياکسى خدائى فرمان کے جارى اور نافذ کرنے کى خاطر ان سے راضى ھوجانے کا اعلان فرماياھے تو اس کا مطلب ان اصحاب کى گزشتہ فرمانبردارى اور اطاعت کى ستائش ھوگا نہ کہ آئندہ اورمستقبل ميں ھرقسم کى نافرمانى اورخلاف ورزى يا اپنى مرضى سے کام کرنے کى اجازت کے متعلق تصديق ـ



back 1 2 3 4 5 6 next