شيعه مذهب کا آغاز



بنى اميہ کى سلطنت کاقيام

60 ھ ميں معاويہ فوت ھوگيا اور اس کے بيٹے يزيد نے اس بيعت کے مطابق جو اس کے باپ نے اس کے لئے عوام سے حاصل کى تھى ، اسلامى حکومت کى باگ ڈور سنبھالى ـ

تاريخى شواھد کے مطابق يزيد کوئى دينى شخصيت نہ رکھتا تھا ، وہ ايک ايسا جوان تھا جو حتيٰ کہ اپنے باپ کى زندگى ميں بھى اسلامى قوانين و اصول کوقابل اعتنا نھيں سمجھتا تھا بلکہ عياشى ، لاقانونيت اور شھوت رانى کے سوا اسے کوئى کام ھى نہ تھا ـ اس نے اپنى تين سالہ حکومت کے دوران ايسى تباھى اوربربادى مچائى اورايسے جرائم کامرتکب ھوا جن کى مثال تاريخ اسلام ميں ھرگز نھيں ملتى ، اگرچہ اسلامى تاريخ ميں اس سے پھلے بھت سے فتنے منظر عام پر آچکے تھے مگر يزيد ان سب پر بازى لے گيا تھا ـ

اس نے اپنى حکومت کے پھلے سال ميں حضرت حسين ابن علي(ع)جو پيغمبر اکرم کے نواسے تھے ، کوان کے اصحاب و اولاد ، بچوں اور عورتوں سميت بڑى بے دردى اور بے رحمى سے شھيد کرديا تھا اورحرم اھلبيت(ع) کوشھيدوں کے سروں کے ساتھ شھر بشھرپھرايا تھا ـ (44)

پھر دوسرے سال اس نے مدينہ منورہ ميں قتل عام کيا جھاں عوام کے مال وجان کوتين دن تک کے لئے اپنى افواج پر حلال کردياتھاـ (45)تيسرے سال خانۂ کعبہ کوگرا کرآگ لگادى تھى ـ (46) يزيد کے بعد بنى اميہ کے خاندان آل مروان نے حکومت اپنے ھاتھوں ميں لى جيسا کہ تاريخ ميں اس کى تفصيل موجود ھے ـ اس خاندا ن کے گيارہ حکمرانوں نے تقريبا ً 70/سال تک حکومت کى ـ انھوں نے مسلمانو ںاور اسلام کے لئے بدترين اور مشکل ترين حالات پيدا کردئے تھے ـ لھذا اس زمانے ميں اسلامى ممالک ميں ايک استبداد ى اور ظالمانہ بادشاھت وجود ميں آگئى تھى جس کواسلامى خلافت کانام دے دياگياتھا اور اس دوران حالات يھاں تک پھنچ گئے تھے کہ خليفہ ٴوقت جوپيغمبر اکرم کا جانشين اوردين مبين کا حامى سمجھا جاتا تھا ، نے يہ فيصلہ کياکہ خانۂ کعبہ کے اوپر ايک بارہ درى بنائے تاکہ زمانہ حج ميں وھاں بيٹھ کر خاص طور پر عياشى کر سکے ـ (47)

خليفہٴ وقت نے قرآن مجيد کو تيرکا نشانہ بنايا اورقرآن مجيد کے متعلق ايک نظم لکھى جس ميں کھا گيا تھا :”اے قرآن ! قيامت کے دن تو اپنے خدا کے حضور ميںحاضرھوگا تو اس وقت خدا سے کھنا کہ خليفہ نے مجھے پھاڑ ديا تھا ـ“(مروج الذھب جلد 3 ص 238)

شيعہ جو اھلسنت سے بنيادى طور پر خلافت اور دينى رھبرى کے مسائل ميں اختلاف نظر رکھتے تھے ، اس تاريک دور ميں سخت حالات ميں زندگى گزاررھے تھے ليکن اس زمانے کى حکومتوں کے ظلم و ستم اورلا قانونيت نيز دوسرى طرف ائمہ اطھار(ع) کى مظلوميت ، تقويٰ وپاکيزگى وغيرہ ان کو اپنے عقائد ميں مضبوط اور مستحکم کررھى تھى خصوصاً تيسرے امام حضرت حسين عليہ السلام کى دلخراش شھادت شيعوں کى افزائش کا باعث بنى خاص کر مرکز خلافت (دارالخلافہ)سے دور ـدراز علاقوں مثلا ً عراق ، يمن اور ايران ميں ـ

اس دعوے کا ثبوت يہ ھے کہ کے پانچويں امام کے زمانۂ امامت ميں جبکہ پھلى صدى ھجرى ابھى ختم نھيں ھوئى تھى اور تيسرے امام کى شھادت کو چاليس سال بھى نھيں ھوئے تھے ، اموى حکومت ميں کمزورى اور ضعف کے باعث شيعہ ، اسلامى ممالک کے کونے کونے سے پانچويں امام کے اردگر د جمع ھونا شروع ھوگئے تھے تاکہ علم حديث اور علم دين حاصل کرسکيں ـ (48)ابھى پھلى صدى ھجرى اختتام کو نھيں پھنچى تھى کہ حکومت کے چند اعليٰ عھديداروں نے ايران ميں شھر قم کى بنياد رکھى اور اس شھر ميں شيعوں کو لا کرآباد کيا (49)ليکن اس کے باوجود شيعہ چھپ چھپا کراوراپنے مذھب کا اعلان کئے بغير زندگى گذارتے رھے ـاس دوران کئى بارعلوى سادات نے اپنے اپنے زمانے کى حکومتوں کے ظلم و ستم اوردباؤ کے خلاف تحريکيں شروع کيں ليکن ان کو ھر بار شکست کا منہ ديکھنا پڑا اور آخر کار اس راہ ميں اپنى جان کى بازى لگاتے رھےـ اس وقت کى حکومتوں نے ان کے جان ومال کو پامال کرنے ميں کوئى کسر اٹھانھيں رکھى تھى ـ حضرت زيد بن علي(ع) جوشيعہ زيديہ کے اما م تھے ، کى لاش کو قبر سے نکال کر سولى پرچڑھا يا گيا اور يہ لاش تين سال تک سولى پر لٹکى رھيـ اس کے بعد لاش کوسولى سے اتار کر آگ ميں جلا ديا گيا اور راکہ کو ھوا ميں اڑا ديا گيا ـ (50)يھاں تک کہ اکثر شيعہ جوچوتھے اور پانچويں امام کے معتقد اور پيروکار تھے، بنى اميہ کے ھاتھوں زھر دے کر شھيد کردئے گئے اسى طرح امام دوم اور امام سوم کى شھادت بھى انھى کے ھاتھوں ھوئى تھى ـ

امويوں کے ظلم و ستم اس قدر واضح اور زيادہ تھے کہ اکثر اھلسنت اگرچہ عام طور پر خلفاء کى اطاعت کو اپنا فرض سمجھتے تھے ليکن ان کے ظلم و ستم کى وجہ سے مجبور ھوگئے تھے کہ خلفاء کو دوگروھوں ميں تقسيم کرديں يعنى ايک طرف خلفائے راشدين جو پھلے چار خلفا ء تھے اور پيغمبر اکرم کى وفات کے بعد آپ کے جانشين بنے (ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علي(ع) ) اور دوسرى طرف خلفائے راشدين کے علاوہ دوسرے خلفاء جو معاويہ سے شروع ھوتے ھيں ـ

اموى خاندان اپنى حکومت ميں ظلم و ستم اور بيداد گردى ولا قانونيت کى وجہ سے لوگوں کے لئے باعث نفرت بن چکا تھا ـ امويوں کى شکست اوراس خاندان کے آخرى خليفہ کے قتل کے بعد خليفہ کے دو بيٹے اپنے خاندان کے ھمراہ دارالخلافہ سے بھاگ کھڑے ھوئے ـ وہ جھاں کھيں بھى جاتے ان کو پناہ نھيں ملتى تھى ـآخر کار پريشانى اورسرگردانى کى حالت ميں نوبہ ، حبشہ اور بجادہ کے ميدانوں اور صحراؤں ميں اس خاندان کے اکثر افراد بھوک و پياس سے ھلاک ھوگئے ـجو افراد بچے وہ يمن کے جنوبى حصے ميں پھونچ گئے تھے اور لوگوں سے راستے کا خرچ حاصل کرنے کے لئے گداگرى کيا کرتے تھے ـآخرکار ذى حمالان شھرسے مکہ کى طرف روانہ ھوئے اوروھاں جاکر لوگوں کے درميان روپوش ھوگئے ـ

حوالہ :


(1) تاريخ طبرى ج/2 ص / 63 ، تاريخ ابو الفداء ج/ 1 ص / 116 ، البدايہ و النہايہ ج/ 3 ص / 39 ، غاية المرام ص / 320
(2) مختلف تواريخ اور جامع کتب احاديث
(3) حديث غدير خم شيعہ اور اہلسنت کے درميان مسلمہ احاديث ميں سے ہے اور ايک سو سے زيادہ اصحاب نے اسنا د اور مختلف عبارات کے ساتھ اس کو نقل کيا ہے اور عام و خاص کتابوں ميں لکھى ہوئى ہے تفصيل کے لئے ديکھئے کتاب غاية المرام ص /79 ،اور طبقات جلد غدير اور کتاب الغدير
(4) تاريخ يعقوبى طبع نجف ج/ 2 ص / 137 140 ، تاريخ ابو الفداء ج/ 1 ص / 156 ، صحيح بخارى ج / 4 ص /107 ، مروج الذہب ج/ 2 ص /437 ، تاريخ ابى الحديد ج/ 1 ص 127 161
(5) صحيح مسلم ج / 15 ص / 176 ، صحيح بخارى ج / 4 ص / 207 ، مروج الذہب ج/ 2 ص 23 437 ، تاريخ ابو الفداء ج/ 1 ص / 127 181
(6) آنحضرت صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے مرض الموت کى حالت ميں اسامہ بن زيد کى سر کردگى ميں ايک لشکر تيار کيا اور تاکيد کى کہ سب لوگ اس جنگ ميں شرکت کريں اور مدينے سے باہر نکل جائيں ايک جماعت نے آپ کے حکم کى خلاف ورزى کى اس ميں ابو بکر اور عمر بھى تھے اس واقعہ نے پيغمبر اکرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم کو بہت زيادہ صدمہ پہنچايا (شرح ابن ابى الحديد طبع مصر ج/ 1 ص / 53 ) پيغمبر اکرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے رحلت کے وقت فرمايا کہ قلم اور دوات لاؤ تاکہ ميں تمہارے لئے ايک چٹھى لکھوں کہ تمہارى ہدايت اور راہنمائى کا باعث بنے اور تم گمراہ ہونے سے بچ جاؤ حضرت عمر نے اس کام سے منع کر ديا اور کہا کہ آپ کا مرض بہت زيادہ بڑھ گيا ہے اور شديد بخار کى حالت ميں آپ کو ہذيان ہے ( تاريخ طبرى ج /2 ص / 436 ، صحيح بخارى ج / 3 ، صحيح مسلم ج/ 5 ، البدايہ و النہايہ ج / 5 ص / 227 ، تاريخ ابن ابى الحديد ج / 1 ص 133 )
(7) شرح ابن ابى الحديد ج/ 1 ص/ 58 123 تا 135 ، تاريخ يعقوبى ج/ 2 ص / 102 ، تاريخ طبرى ج/ 2 ص / 445 تا 460
(8) البدايہ و النہايہ ج/ 7 ص 360
(9) تاريخ يعقوبى ص/ 111 126 129
(10) تاريخ يعقوبى ج/ 2 ص /110 ، تاريخ ابى الفداء ج/ 1 ص / 158
(11) کنز العمال ج / 5 ص / 237 ، طبقات ابن سعد ج/ 5 ص /140
(12) تاريخ ابى الفداء ج/ 1 ص / 151
(13) تاريخ يعقوبى ج/ 2 ص / 131 ، تاريخ ابى الفداء ج / 1 ص / 160
(14) اسد الغابہ ج / 4 ص / 386 ، الاصابہ ج / 3
(15) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص /150 ، تاريخ ابى الفداء ج / 1 ص /168 ، تاريخ طبرى ج / 3 ص / 377
(16) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 150 ، تاريخ طبرى ج / 3 ص / 397
(17) تاريخ طبرى ج / 3 ص / 377
(18) صحيح بخارى ج/ 6 ص / 98 ، تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 113
(19) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 111 ، تاريخ طبرى ج / 3 ص / 129 132
(20) تاريخ يعقوبى ج/ 2 ص / 13، تاريخ ابن ابى الحديد ج/ 1 ص/ 9
(21) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 154
(22) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 155 ، مروج الذہب ج / 2 ص / 36
(23) نہج البلاغہ خطبہ /15
(24) مروج الذہب ج / 2 ص / 392 ، نہج البلاغہ خطبہ / 122 ، تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 160 ، تاريخ ابن ابى الحديد ج / 1 ص / 180
(25) تاريخ يعقوبى ج / 2 ، تاريخ ابى الفداء ج / 1 ص / 172 ، مروج الذہب ج / 2 ص / 366
(26) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 152
(27) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 152 ، تاريخ ابى الفداء ج / 1 ص / 171، تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 152
(28) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 152 ، مروج الذہب ج / 3 ص / 25 ، تاريخ طبرى ص / 402 ، مروج الذہب ج / 2 ص / 415
(29) کتاب الغرر و الدرر آمدى و متفرقات جوامع الحديث
(30) مروج الذہب ج / 2 ص / 43 ، تاريخ ابن ابى الحديد ج / 1 ص / 181
(31) اشباہ و نظائر سيوطى در نحو ج / 2 ، تاريخ ابن ابى الحديد ج/ 1 ص / 6
(32) نہج البلاغہ کى طرف رجوع کريں
(33) بحار الانوار ج/ 2 ص / 65
(34) تاريخ ابن ابى الحديد ج / 1 ص / 69
(35)تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 191 اور دوسرى تمام کتب تواريخ
(36) تاريخ ابن ابى الحديد ج / 4 ص / 160 ، تاريخ طبرى ج / 4 ص / 124 ، تاريخ ابن الاثير ج / 3 ص / 203
(37) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 193
(38) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 202
(39) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 196 ، مروج الذہب ج / 3 ص / 77
(40) مروج الذہب ج / 3 ص / 5 ، تاريخ ابو الفداء ج / 1 ص / 183
(41) النصائح الکافيہ ص / 194
(42) النصائح الکافيہ ص / 7273
(43) النصائح الکافيہ ص / 58647778
(44) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 216 ، تاريخ ابو الفداء ج / 1 ص / 190 ، مروج الذہب ج / 3 ص / 64
(45) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 243 ، تاريخ ابو الفداء ج / 1 ص / 192 ، مروج الذہب ج / 3 ص /78
(46) تاريخ يعقوبى ج / 2 ص / 224 ، تاريخ ابو الفداء ج / 1 ص / 192 ، مروج الذہب ج / 3 ص / 81
(47) وليد بن يزيد تاريخ يعقوبى ج / 3 ص / 73
(48) بحث امام شناسى ،مروج الذہب ج / 3 ص / 228
(49) معجم البلدان ، مادہٴ قم
(50) مروج الذہب ج / 3 ص / 217 219 ، تاريخ يعقوبى ج / 3 ص / 66
(51) تاريخ يعقوبى ج/3ص/84



back 1 2 3 4 5 6