صبرو استقامت



2) (طور 29_31)

 Ø±Ø³ÙˆÙ„ خدا Ù†Û’ فرمايا : كہو كيا كرنا ہے ØŸ انہوں Ù†Û’ كہا ہم يہ چاہتے ہيں كہ اس درخت كو آپ اپنے پاس بلاليں اور يہ درخت جڑ سے اگھڑ كر آپ ÙƒÛ’ پاس آجائے حضرت Ù†Û’ فرمايا : خدا ہر كام كى قدرت ركھتا ہے ليكن اگر ميں تمہارى يہ خواہش پورى كردوں تو كيا تم ايمان Ù„Û’ آؤگے اور حق كى گواہى دوگے ØŸ سب Ù†Û’ كہا ''ہاں'' آپ (ص) Ù†Û’ فرمايا : اب تم Ù†Û’ جو كہاہے وہ ميں كردكھاتاہوں ليكن مجھ كو اس بات كا اطمينان ہے كہ تم اس ÙƒÛ’ باوجود اسلام اور سچے قانون كو نہيں قبول كروگے_

ان لوگوں نے جس چيز كى فرمائشے كى تھى پيغمبر (ص) نے وہ كردكھائي ليكن انہوں نے اپنے كئے ہوئے وعدہ كے خلاف كہا نہيں يہ جادوگر اور چھوٹا ہے ، جادوگرى ميں يہ كتنا ہوشيار اور تيز ہے (معاذ اللہ)_

ان تكليف دہ باتوں سے اگر چہ پيغمبر (ص) كو قبلى طور پر رنج ہوا مگر حكم خدا پر عمل كرتے ہوئے صبر كيا اور مخالفين كى غلط باتوں كے جواب ميں سوائے حق كے زبان پر كچھ نہ لائے_

 1) (نہج البلاغہ خطبہ 234)_

خلاصہ

1) صبر اور استقامت كاميابى كا سرمايہ اور مشكلات پر غلبہ كا راز ہے _

2) لغت ميں صبر كے معنى شكيبائي ، بردبارى ، بلا اور شداءد پر شكايت نہ كرنے كے ہيں_ ا ور استقامت كے معنى ثبات قدم كے ہيں _

3 ) صبر كے اصطلاحى معنى ہيں ، مصيبتوں اور نامناسب حالات ميں ثبات نفس، شجاعت اور انكے مقابل يوں ڈٹ جانا كہ سعہ صدر ختم نہ ہو اور سابقہ وقار و خوش حالى زاءل نہ ہو_

4)پيغمبر اعظم (ص) كا دوسرے اولوالعزم پيغمبروں كى طرح صبر پر مامور ہونا اس بات كا ظاہر كرتاہے كہ نبوت كا دشوار گذار راستہ بغير صبر كے ناممكن ہے _

5 ) دوسرے پيغمبروں كى طرح پيغمبر اسلام(ص) بھى تبليغ رسالت ميں خدا كى طرف سے صبر پر مامور تھے_ اور اس راستہ ميں دوسرے تمام پيغمبروں سے زيادہحضور (ص) كو مصيبتوں كا سامنا كرنا پڑا جيسا كہ آپ(ص) نے فرمايا ہے كہ كسى بھى پيغمبر كو خدا كے راستہ ميں ميرے جتنى تكليف نہيں دى گئي _

6) مشكرين نے پيغمبر خدا (ص) كو اذيت پہونچانے اور ان كى تعليمات كى اساس كو متزلزل كرنے كيلئے جو حربے استعمال كئے ان ميں سے زبان كا زخم بھى تھا_ناروا گفتگواگر چہ پيغمبر(ص) كے دل كو تكليف پہونچاتى تھى ليكن آپ(ص) خدا كے حكم سے صبر كرتے اور مخالفين كى بدزبانى كے جواب ميں سوائے حق كے اور كچھ نہيں كہتے تھے_



back 1 2 3 4 5 6 7