اسلام كی نظر ميں دوستی کی اهميت



مطلوب دوست

معصومین كی احادیث میں ان لوگوں كی خصوصیات كا ذكر كیا گیا ہے جن سے دوستی كی جاسكتی ہے اور جنہیں بطور دوست منتخب كیا جاسكتا ہے ۔حضرت امام صادق ں فرماتے ہیں :اِصحَب مَن تَتَزَیَّنَ بِہِ وِلاٰ تَصحَب مَن یَتَزَیَّنُ بِكَ ایسے شخص كو دوست بنائوجو تمہاری زینت بنے اور ایسے شخص كو دوست نہ بنائو جو (تم سے سوء استفادہ كرے) تمہارے ذریعے اپنی شان بناۓ (اور بالا خر تمہاری آبرو كم ہوجاۓ) ۔ یعنی ہم نشینی اور دوستی كے لۓ مفید شخص كا انتخاب كرو تاكہ اس دوران اس كے علم واخلاق سے استفادہ كر سكو۔ ایسے شخص كو دوستی كے لۓ منتخب نہ كرو جس سے مستفید نہ ہو سكواوروہ تمہیں اپنا دوست سمجھے جبكہ وہ تمہارا ہم پلہ نہ ہو بلكہ تم سے كمتر ہو۔حضرت امام حسن ںنے اپنی عمر كے آخری لمحات میں جنادہ كو نصیحت فرمائی: اِصحَب مَن اِذَا صَحِبتَہُ زَانَكَ وَاِذَا خَدَمتَہُ صٰانَكَ واِذٰا اَرَدتَ مِنہُ مَعُونََۃً اَعٰانَكَ وَاِن قُلتَ صَدِّقَ قَولَكَ وَاِن صِلتَ شَدَّ صَولَكَ وَاِن مَدَدتَ یَدَكَ بِفَضلٍ مَدَّہٰا وَاِن بَدَت عَنكَ ثُلمَةً سَدَّہٰا وَاِن رَایٰ مِنكَ حَسَنَۃً عَدَّہٰا وَاِن سَاَلتَہُ اَعطٰاكَ وَاِن سَكَتَّ عَنہُ اِبتَدَاكَ وَاِن نَزَلَت ِاحدَی المُلِمّٰاتِ بِہِ َسٰاوَاَكَ دوستی اورہم نشینی كے لۓ ایسے شخص كا انتخاب كروجس كی دوستی تمہارے لۓ زینت كا باعث ہو اور جب اس كی خدمت كرو تو وہ تمہارا خیال ركھے اگر اس سے مدد چاہو تو وہ تمہاری مددكرے اگر كوئ بات كہو تو تمہاری تصدیق كرے اگر گوئ حملہ كرو تووہ تمہارے حملے كو شدت بخشے اگر ہاتھ بڑھا كر اس سے كوئ چیز طلب كرو تو تمہاری مدد كرے اگر تم كوئ نقصان اٹھائو تو وہ اس كی تلافی كرے اگر تم اس كے حق میں نیكی اور بھلائ كرو تو اس كا لحاظ ركھے اگر اس سے كوئ چیز مانگو تو تمہیں عطاكرے، اگر (حیا كی وجہ سے) خاموش رہو تو مدد اور بخشش میں پیش قدم ہو اور اگر كسی مصیبت سے دوچار ہوجائو تو وہ بھی خود كو مصیبت میں مبتلا سمجھے۔حضرت علیںنے فرمایا: اَكثِرِالصَّوابَ وَالصَّلاٰحَ فِی صُحبَۃِ اُولی النُّہیٰ وَالاَلبٰابِاپنی خوش نصیبی اور شائستگی كوصاحبانِ خرد كی ہم نشینی سے بڑھائو۔ مزید فرماتے ہیں: صاحب الحكمائ (صاحبان حكمت كی صحبت اختیار كرو۔) تاكہ ان كی حكمت سے فائدہ اٹھائو۔ وَ جَالِسِ الحُلَمَاء (بردبار اور حلیم افراد كے ہم نشین بنو) بردبار افراد وہ ہیں جن كے قلوب میں وسعت پائ جاتی ہے ۔ وَاَعرِض عَنِ الدُّنیٰا تَسكُنُ جَنّۃََ المٰأویٰ (دنیا سے منھ موڑلو تاكہ بہشتِ بریں میں جگہ حاصل كرسكو) ۔ دوسرے مقام پر حضرت علی ں فرماتے ہیں: عَجِبتُ لِمَن یَرغَبُ فِی التَّكَثُّرِ مِنَ الاصحٰابِ كَیفَ لٰا یَصحَبُ العُلَمَاء الأَلِبَّاء الاَتقِیَاء اَلَّذِینَ یَغنِمُ فَضَائِلَہُم وَتُہَذِّبُہُ عُلُومُہُم وَتُزَیِّنُہُ صُحبَتَہُم ۔مجھے تعجب ہے ایسے شخص پر جو دوستوں كی كثرت كا خواہشمند ہوتا ہے آخر وہ كیوں صاحبانِ علم و خرد اور اہلِ تقویٰ كی صحبت اختیار نہیں كرتا ہے جن كے فضائل اسكے لۓ غنیمت ہوں گے جن كے علوم اسے مہذب بنائں گے نیز ان كی ہم نشینی اس كے لۓ زینت بخش ہو گی۔مَن دَعٰا كَ اِلَی الدَّارِالبَاقِیۃِ وَاَعٰانَكَ عَلَی العَمَلِ فَہُوَالصَّدیقُ الشَّفِیقُ جو بھی تمہیں دارِ بقا (آخرت) كی طرف بلاۓ اورمیدانِ عمل میں تمہارا معاون ومددگار ہو وہ تمہارامہربان اور حقیقی دوست ہے۔ كیونكہ ایسا ہی دوست تمہیں آخرت كی یاد دلانے والا خدا پسند كاموں میں تمہاری مدد كرنے والا اور تمہیں نجات اور اچھے راستے كی طرف لے جانے والا ہے۔ نیز آپ نے فرمایا: قٰارِن اَہلَ الخَیرِ تَكُن مِنہُم وَبٰایِن اَہلَ الشَّرِّ تَبِن مِنہُم بِہِ نیك افراد كا قرب اختیار كرو تاكہ انھیں میںسے ہوجائو او ربرے افراد سے دور رہو تاكہ ان میں شمار نہ كۓ جائو۔

اہلِ بیت (ع) كے افكار

میرے عزیزو! ائمہ ٔ اہل بیت كی امامت كا پیروكار ہونا ہم پر لازم كرتا ہے كہ ہم زندگی كے متعلق ان كی راہ وروش كا مطالعہ كریں وہی راہ و روش جو صحیح معنی میں حقیقی اور خالص اسلامی راہ و روش ہے ۔ ہمارا فرض ہے كہ ان كے كلمات او ران كے ارشادات بھی پیشِ نظر ركھیں اور واقعات وحوادث كے مقابل ان كے طریقے اور سیرت كو بھی مدِنظر ركھیں ۔اس لۓ كہ امامت كی پیروی كے معنی كتاب خدا اور سنتِ پیغمبر سے ماخوذ اسلام كی پیروی ہے۔ ائمۂ ہدیٰ كی سیرت سیرتِ پیغمبر ہی ہے اور ان كا كلام بھی وہی ہے جو رسولِ خدا كا كلام ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنی زندگی كو ان كی فكری اور عملی زندگی كے مطابق بنانا چاہۓ صرف ان كے غم اور مسرت كے ایام منانے پر اكتفانہ كریں۔ كیا یہ درست نہیں ہے كہ وہ اسلام كا ان حضرات نے جو كچھ بھی مظالم او رمصائب برداشت كۓ وہ صرف اسلام كے لۓ تھے۔اور یہ وہی چیز ہے جسے ہم معصومۂ كونین سیدة النساء العالمین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا كی زندگی میں بھی دیكھتے ہیں۔ بالخصوص فتنہ وآشوب كے ایام میں آپ نے جو كچھ فرمایا جب اس كا مطالعہ كرتے ہیں اور اس پر غور كرتے ہیں تو احساس ہوتا ہے كہ آپ كے كلام كا محور اسلام اور اس كا دفاع تھا۔حتی آپ نے حضرت علی كا دفاع بھی اس وجہ سے كیا تھا كہ وہ مسلمانوں كے برحق امام اور امیرِ اسلام تھے اس وجہ سے نہیں كہ علی آپ كے شوہر تھے۔ گو كہ ہم حضرت علی كے امامِ برحق اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا كے شوہر ہونے كے درمیان كسی فرق كے قائل نہیں ہیں لیكن انھوں نے آپ كی امامت كی وجہ سے آپ كا دفاع كیا اپنا شوہر ہونے كی بناپر نہیں۔ یہ وہ نكتہ ہے جسے ہمیں اپنی زندگی میں زیادہ سے زیادہ مدِ نظر ركھنا چاہۓ اور اہلِ بیت سے فكر عقیدے عمل اور زندگی كے میدان میں رابطہ استوار كرنا چاہۓ تاكہ ہم انہیں اپنے عصر اور زمانے میں لا سكیں اور انھیں تاریخ كے ایك خاص حصے او ردائرے میں محدود نہ كریں اسی طرح جیسے بدقسمتی سے تاریخ كے دوران ان كے ساتھ یہی سلوك ہوا ہے۔

ہمارا خیال ہے كہ ہمیں مسلمانوں اور غیر مسلموں نیز مغرب و مشرق میں پھیلے ہوۓ عصرِ حاضر كے انسانوں كے اذہان كو افكارِ اہلِ بیت سے معمور اور منور كرنا چاہۓ۔ كیونكہ صرف انہی كے افكار انسانی حیات كو روشن كر سكتے ہیں۔ پس ہمیں انہیں چھوٹا اور معمولی بنا كر پیش نہیں كرنا چاہۓ انہیں صرف اشك و عزا تك محدود نہیں كرنا چاہۓ بلكہ ہمیں چاہۓ كہ انہیں فكر و تہذیب كا سرچشمہ اور تمام عالم كو منور كرنے والا سمجھیں۔

قرآن كی نظر میں غیر مطلوب اور ناقابلِ معاشرت دوست

قرآن كی نظر میں غیر مطلوب اور ناقابلِ معاشرت دوست یہ بات جاننے كے لۓ كہ كن لوگوں سے دوستی اور فاقت كا رشتہ قائم نہ كیا جاۓ اور ان معیارات اور پیمانوں كی تشخیص كے لۓ جن پر مومن اور صالح افراد كی دوستیاں استوار ہونی چاہئں ہم كتابِ خدا قرآن مجید اور احادیثِ معصومین سے رجوع كرتے ہیں۔اس بارے میں قرآن مجید فرمارہا ہے: یَومَ یَعَضُّ الظّٰالِمُ عَلیٰ یَدَیہَ اس دن ظالم (مارے افسوس كے) اپنے ہاتھوں كو كاٹے گا۔یہاں ظالم سے مراد وہ شخص ہے جس نے كفر فسق وفجور او رانحراف كی راہ اپنا كر اپنے آپ پر ظلم كیا ہے۔ یَقُول یٰالَیتَنِی تَّخَذتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِیلاً اور كہے گا كہ كاش میں نے رسول كے ساتھ ہی راستہ اختیار كیا ہوتا۔یعنی اے كاش میں اس راستے كو اختیار كرتا جسكی پیغمبر نے دعوت دی تھی اور اسی راہ پر ان كے ہمراہ چلتا۔ پھر جانكاہ فریاد كے ساتھ كہے گا: یٰا وَیلَتیٰ لَیتَنی لَم اَتَّخِذُ فُلاَناً خَلِیلاً ہاۓ افسوس كاش میں نے فلاں شخص كو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا۔ یعنی كافر او رگمراہ شخص جس نے غیر مناسب فرد كو اپنا دوست بنایا ہو گا اب اس دوستی پر كفِ افسوس ملے گا۔لیكن كیوں پشیمان ہو گا؟ اس لۓ كہ: لَقَداَضَلَّنی عَنِ الذِّكرِ بَعدَ اِذجَائَنیاس (دوست) نے ذكر آنے كے بعد بھی مجھے گمراہ كر دیا۔وہ ذكر جسے پیغمبر لے كر آۓ وہ قرآنِ كریم ہے ایك ایسی كتاب جو انسان كو خداوندِ متعال اور اس راہ كی طرف متوجہ كرتی ہے جس پر انسان كو چلنا چاہۓ ۔وَكٰانَ الشَّیطٰانُ لِلانسٰانِ خُذُولاً اور شیطان تو انسان كو ذلت ورسوائ میں چھوڑدیتاہے ۔ اور روز قیامت كوئ ذمے داری قبول نہیں كرتا۔ ایك اور طرح كے دوست جن كی قرآنِ مجید میں مذمت كی گئ ہے اور جنہیں نامناسب قرار دیا گیا ہے وہ افراد ہیں جو باطل اور غلط طریقے سے آیاتِ الٰہی میں غور و خوض كرتے ہیں تاكہ بخیال خود ان میں نقص اور كمی ڈھونڈ كر ان كا انكار كریں ان كا مذاق اڑائں او ران كی مخالفت كریں۔ اس طرح كے دوستوں كے متعلق قرآن مجید فرماتا ہے: وَاِذ رَاَیتَ الَّذِینَ یَخُوضُونَ فی آیٰاتِنٰا فَاَعرِض عَنہُم حَتّٰی یَخُوضُوا فی حَدِیثٍ غَیرَہُ وَاِمّٰا یُنسَیَنَّكَ الشَّیطٰانُ فَلاٰتَقعُد بَعدَ الذِّكریٰ مَعَ القَومِ الظّٰالِمِینَ اور جب تم ان لوگوں كو دیكھو جوہماری آیتوں كے متعلق بیہودہ بحث كررہے ہیں تو ان (كے پاس) سے ہٹ جائو یہاں تك كہ وہ لوگ كسی اور بات پر بحث كرنے لگیں او راگر شیطان تمہیں یہ حكم بھلادے تو یاد آنے كے بعد ظالم لوگوں كے ساتھ ہرگز نہ بیٹھنا۔ (سورہ انعام ۶ آیت ۶۸)

قرآنِ مجید كی اس آیت سے اچھی طرح سمجھا جاسكتاہے كہ ہمیں اسلام كے خلاف زہر اگلنے والے افراد سے دور رہنا چاہۓ۔ پردگارِعالم كو یہ بات پسند نہیں كہ ہم اس بزم میں شریك ہوں جس بزم میں لوگ اسلام كے خلاف گفتگو میں مصروف ہوں۔ لہذا ظاہر ہے كہ وہ ہمیں اس بات كی اجازت بھی نہ دے گا كہ ہم اس طرح كے افراد كے ساتھ نشست وبرخاست ركھیں۔جب االله تعالیٰ یہ چاہتا ہے كہ ہم اس محفل تك سے نكل جائں جس میں اسلام كے خلاف گفتگو ہورہی ہو تو پھر كیسے یقین كیا جاسكتا ہے كہ وہ ایسے افراد كے ساتھ ہماری دوستی او ران سے ہمارا میل جول قبول كرے گا؟ پروردگارِعالم ہم سے كہتا ہے كہ ایسی دوستی قائم كریں جس كی بنیاد ایمان اورتقویٰ پر ہو۔ لہٰذا ایسے مومن سے دوستی كا رشتہ قائم كریں جو خدا رسول اولیاۓ الہٰی اور روزِقیامت پر ایمان نیز تقویٰ خشوع اوراطاعتِ خدا میں آپ سے نزدیك ہو۔ كیونكہ ایسی ہی دوستیاں باقی رہتی ہیں یہاں تك كہ ایسے دوست باہم بہشت بریں میں داخل ہوں گے اور وہاں بھی اسی طرح دوست بن كر رہیں گے جس طرح دنیا میں ایك دوسرے كے دوست تھے۔ لیكن وہ لوگ جو دیانت اور تقوا میںآپ كی مثل و مانند نہ ہوں روز قیامت ان كی دوستی ختم ہو كر دشمنی میں تبدیل ہوجاۓ گی: آج (قیامت) كے دن صاحبانِ تقویٰ كے سوا تمام دوست ایك دوسرے كے دشمن ہو جائں گے۔ جی ہاں! صرف متقین كی دوستیاں روزِ قیامت تك باقی رہیں گی ۔ارشاد الٰہی ہوتا ہے: اِذ تَبَرَّاَ الَّذِینَ اتُّبِعُوا مِنَ الَّذِینَ اتَّبَعُوا وَرَأؤُا العَذٰابَ وَتَقَطَّعَت بِہِمُ الاَسبٰابَ وَقٰٰالَ الَّذِینَ اتَّبَعُوا لَو اَنَّ لَنٰا كَرَّةً فَنَتَبَرَّا مِنہُم كَمٰا تَبَرَّأَوامِنّٰا كَذالِكَ یُرِیہِمُ اللّٰہُ اَعمٰالَہُم حَسَرَاتٍ عَلَیہِم وَمٰاہُم بِخٰارِجِینَ مِنَ النّٰار جب پیشوا اپنے پیروكاروں سے لاتعلقی كا اظہار كریں گے اور سب كے سامنے عذاب ہو گا اور تمام وسائل منقطع ہو چكے ہوں گے۔ اور پیروكار كہیں گے كہ اے كاش ہم ان سے اسی طرح لاتعلق رہتے ہوتے جس طرح یہ آج ہم سے لاتعلقی كا اظہار كر رہے ہیں ۔خدا ان سب كے اعمال كو اسی طرح حسرت بنا كے پیش كرے گا اور ان میں سے كوئ بھی جہنم سے نكلنے والا نہیں ہے۔ (سورئہ بقرہ ۲ آیت ۱۶۶ ۱۶۷) پس متقی اور پرہیز گار شخص كو دوست بنانا چاہۓ او راگر آپ ایسے دوست كے طالب ہیں جسے پروردگارِعالم انبیائ اولیاۓ الہٰی او رمومنین پسند كریں اور وہ روزقیامت آپ كے ہمراہ اور آپ كا رفیق ہو تو آپ كومعلوم ہونا چاہۓ كہ اس قسم كا دوست وہ ہے جو آپ كے اندر یادِ خدا پیدا كرے۔ ایسے ہی خدا محو ردوستوں كے بارے میں كہا گیا ہے كہ: اِخوَاناً عَلیٰ سُرُرٍ مُتَقٰابِلِینَ وہ بھائیوں كی طرح آمنے سامنے تخت پر بیٹھے ہوں گے۔ (سورئہ حجر ۱۵ آیت ۴۷)

معصومین كی نظر میں نامطلوب دوست

ہم نے كتابِ خدا اور سنتِ نبوی كے ذریعے نامطلوب اور نامناسب دوستوں كے بارے میں معلومات حاصل كیں آیۓ اب اسی طرح اس بارے میں اہلِ بیت كے كلام سے رجوع كرتے ہیں۔وہ كون لوگ ہیں جنہیں دوست نہیں بنانا چاہۓ؟اس بارے میں حضرت امام علی فرماتے ہیں:صُحبَةُ الاَشرَارِ تَكسِبُ الشَّرّ برے لوگوں كی دوستی سے برائ ہی حاصل ہوتی ہے جی ہاں حقیقت بھی یہی ہے كہ اگر آپ كے دوست برے اور بدكار لوگ ہوں گے تو آپ ان سے برائ اور بدی ہی حاصل كریں گے ۔ حضرت ں نے مزید فرمایا: كَالرِّیحِ اِذَا مَرَّت بِالنَّتَن حَمَلَت نَتناً باكل اسی طرح جیسے ہوا جب بدبودار چیز پر سے گزرتی ہے تو اس كی بدبو اپنے ہمراہ لے آتی ہے۔ قدرتی طور پر دو دوستوں كے درمیان ایك دوسرے كی طرف باہمی الفت و محبت كی ہوائں چلتی رہتی ہیں اور وہ ان ہوائوں سے متاثر ہوتے ہیں۔حضرت علی ں نے ایك دوسرے مقام پر فرمایا ہے: مُصٰاحِبُ الاَشرَارِكَرَاكِبِ البَحرِ اِن سَلِمَ مِنَ الغَرقِ لَم یَسلِم مِنَ الفَرقِ برے لوگوں كے ساتھ دوستی ایسی ہے جیسے انسان سمندری سفر میں ہو كہ ڈوبنے سے محفوظ رہنے كے باوجود خوف و اضطراب سے محفوظ نہیں رہتا ۔ جی ہاں ممكن ہے سمندری سفر كے دوران اسكی تند و تیز موجیں كشتی كو اپنی لپیٹ میں لے لیں یہاں تك كہ وہ الٹ جاۓ اور اس پر بیٹھنے والے سمندر میں غرق ہو جائں۔ یہ لوگ اگر غرق ہونے سے محفوظ رہیں تب بھی وہ انتہائ خوف و ہراس میں مبتلا ہو جائں گے اور كبھی یہ حالت اس قدر شدت سے ان پر طاری ہو گی كہ مستقبل میں ہمیشہ ہمیشہ كے لۓ ان كی شخضیت اور روح پر اثر انداز رہے گی۔ حضرت امام جواد ں (ہم میں سے بہت كم لوگ ہیں جو حضرت كی فكر اور آپ كی علمی میراث سے آشنا ہوںگے) فرماتے ہیں: اِیّٰاكَ وَمُصٰاحِبَةَ الشَّرِیرِ فَاِنَّہُ كَالسَّیفِ المَسلُولِ یَحسُنُ مَنظَرُہُ وَیَقبَحُ اَثَرُہُ برے انسان كے ساتھ میل جول سے ہمیشہ پرہیز كرو كیونكہ وہ ننگی تلوار كی مانند ہوتا ہے جو دیكھنے میں تو خوبصورت نظر آتی ہے لیكن اسكااثر بہت برا ہوتا ہے۔

تلوار جب برہنہ ہوتی ہے تو چمكتی ہے اورنگاہوں كوخیرہ كرتی ہے لیكن جب گرتی ہے تو قتل وغارت اور خونریزی بپا كرتی ہے۔حضرت امام علیں كی ایك حدیث میں ہے: مَن لاٰیَصحَبُكَ مُعِیناً عَلٰی نَفسِكَ فَصُحبَتُہُ وَبَالٌ عَلَیكَ تمہارے دوستوں میں سے جو بھی تمہارے نفس كے خلاف جد و جہد میں تمہارا مددگار نہ ہو اس كی دوستی تمہارے لۓ وبال اور باعثِ زحمت ہے۔ لہٰذا وہ دوست جو تمہارے اندر كوئ عیب دیكھے او رتمہیں اس سے منع نہ كرے تمہارے اندر انحراف وكج روی كا مشاہدہ كرے اورتمہیں راہِ راست كی طرف لانے كے لۓ كوشش نہ كرے ، تمہیں خطا میں مبتلا پاۓ اور درستگی كے لۓ اقدام نہ كرے تو ایسے دوست كی دوستی سے پرہیز كرو اس لۓ كہ اس كی دوستی بالكل بے سودہے بلكہ ممكن ہے كہ نصیحت كے سلسلے میں اس كا خاموش رہنا كوئ قدم نہ اٹھانا تمہیں انحراف گمراہی اور خطا كے راستے پر باقی ركھے اور یہ چیز تمہارے لۓ باعثِ وبال بن جاۓ گی۔حضرت امام محمد باقرں سے وارد ہوا ہے: مَن لَم تَنتَفِع بِدِینِہِ وَدُنیٰاہُ فَلاٰ خَیرَلَكَ فی مَجٰالِسَتِہِ وَمَن لَم یُوجِب لَكَ فَلاٰ تُوجِب لَہُ وَلاٰكَرَامَةَ جس شخص كے بھی دین یادنیا سے تمہیں كوئ فائدہ حاصل نہ ہو اس كے ساتھ ہم نشینی میں تمہارے لۓ كوئ خیر نہیں ہے اور جوشخص بھی تمہاری (دوستی كے حق كی) رعایت نہیں كرتا تم بھی اسكی رعایت نہ كرو اور نہ ہی (ایسے شخص كی دوستی میں) كوئ عزت ہے۔ در حقیقت یہاں امام یہ كہنا چاہتے ہیں كہ انسانی روابط و تعلقات كا نتیجہ لازماً كسی غیر حرام (حلال) فائدے كی صورت میں نكلنا چاہۓ۔ انسانی زندگی ہے ہی لوگوں كے باہمی مفادات كے تبادلے پر قائم اور یہ كوئ ناپسندہ اور قبیح بات نہیں ہے ۔ كیونكہ انسان كو حق حاصل ہے كہ جس طرح وہ آخرت كے فائدے كے حصول كی جدوجہد مےں مشغول رہتا ہے اسی طرح كسی حرام میں مبتلا ہوۓ بغیر دنےاوی مفاد كے حصول كے لۓ بھی كوشش كرے۔ اور یہی وجہ ہے كہ پروردگارِ عالم نے حبِ ذات كی بالكل ہی نفی نہیں فرمائ ہے بلكہ اس كے لۓ گنجائش ركھی ہے اوراس كی ایك حدمعین اورمخصوص فرمائ ہے كیونكہ حب ذات كی دواقسام ہیں:

كبھی حبِ ذات خود پرستی اور انانیت كو كہاجاتا ہے اس صورت میں انسان پوری دنیا صرف اپنے لۓ چاہتا ہے اپنی ذات كے حصار میں اسیر ہوتا ہے اپنے اردگرد رہنے والے انسانوں سے بے خبر ہوتا ہے دوسروں كی ذمے داری نہیں اٹھاتا او رزندگی كے فلسفے اور اسكی ضروریات سے نا بلد ہوتا ہے۔ اس طرح كی حبِ ذات خود پرستی اورخودخواہی مردود ومنفور ہے اور اسلام مردِ مسلمان سے اس طرح كی كوئ چیز نہیں چاہتا۔ كیونكہ پروردگارِعالم انسان سے چاہتا ہے كہ وہ زندگی كے میدان میں آگے بڑھے زندگی بسر كرے زندگی بخشے بلكہ زندگی كو معنی عطاكرے۔

1۔ قابلِ مذمت حبِ ذات

حضرت امام علی ا بن موسیٰ الرضا ںسے سوال كیا گیا :مَن اَسوَأُ النّٰاسِ مَعَاشاً؟ قٰالَ مَن لَم یَعِش غَیرُہُ فی مَعٰاشِہِ (زندگی او رمعاشرت كے لۓ سب سے بدترشخص كون ہے؟) فرمایا: وہ شخص جس سے دوسرے لوگ اپنی زندگی میں فائدہ نہ اٹھاسكیں ۔ یعنی ایسا شخص جوصرف اپنے لۓ زندہ رہے اور دوسروں كو كوئی فائدہ نہ پہنچاۓ۔ اس كے علم تجربے قدرت مال اسكے مقام و منصب اور اسی طرح كی دوسری چیزوں سے كسی دوسرے كو كوئی فائدہ نہ پہنچے۔ اسلام كی نظر میں ایسی حبِ ذات منفور ومردود ہے ۔ اسی ناپسندیدہ حبِ ذات میں لذت طلبی اور حرام كی گئ شہوتوں كا طلبگار ہونا بھی ہے ۔ پروردگار عالم انسان سے چاہتا ہے كہ وہ اس طرح كی خودپرستی اور حب ذات سے مقابلہ كرے اور اپنے آپ كو ہر طرح كی حرام شہوت اورہر اس لذت سے محفوظ ركھے جس سے پروردگارعالم راضی نہ ہو۔ اس طرح كی لذتیں انسان كو ذلیل رسوا اورزوال سے دوچار كر دیتی ہیں۔اسی مذموم حبِ ذات میں ظالم كی مدد اسے تقویت پہنچانا كفار كے مقابل تواضع و انكساری دكھانا اور مستكبروں كی اعانت كرنا بھی شامل ہے۔ یہی وہ مقام ہے كہ اگر نفسانی خواہش تم سے چاہے كہ مستكبرین كفار اور ستمگروں كے ساتھ مل بیٹھو تو لازماًاپنی اس خواہش كا مقابلہ كرو اور پروردگارعالم كے ساتھ ہوجاؤ: یٰااَیُّہَا الَّذِینَ اٰمَنُوا اتَّقُو اللّٰہَ وَكُونُوا مَعَ الصّٰادِقِینَاے اہل ایمان ! تقوا اختیار كرو اور سچوں كے ساتھ ہوجائو۔ (سورئہ توبہ ۹ آیت ۱۱۹)

2۔ قابلِ تعریف حبِ ذات

البتہ اگر حبِ ذات سے مراد یہ ہو كہ انسان شرعاً جائز اور حلال چیزوں كے ساتھ زندگی بسر كرنا چاہتا ہو تو پروردگارِ عالم نے اس خواہش كو حرام قرار نہیں دیا ہے ۔نہ ہی االله نے لباس كو حرام كیا ہے نہ ہی كھانے اورپینے كی چیزوںكو، او رنہ ہی سكونت وتجارت كو بلكہ فرمایا ہے: اَلكٰادُّ عَلیٰ عَیٰالِہِ كَالمُجٰاہِدِ فی سَبِیلِ اللّٰہِ (اپنے اہل وعیال كے رزق كے لۓ تلاش وكوشش كرنے والا شخص راہِ خدا میں جہاد كرنے والے كی مانند ہے) نیز فرمایا ہے: وَالعِبٰادَةُ سَبعُونَ جُزئً اَفضَلُہٰا طَلَبُ الحَلاٰلِ (عبادت كے سترّ حصے ہیں اوران میں سب سے بہتر حصہ رزقِ حلال كے سلسلے میں كوشش ہے) پس اگر حبِ ذات اس مفہوم میں ہواور اس رنگ كی حامل ہو تو اس كے معنی آخرت میں بلند درجات كی طلب اور جستجو ہے۔ اور اس قسم كی حبِ ذات كی بنیاد پر خداوندِ عالم نے ہمیں خطاب كرتے ہوۓ كہا ہے كہ اگر تم اپنی ذات كو دوست ركھتے ہو اسكے خیر خواہ اور محب ہو تو رضاۓ الٰہی كے لۓ عمل انجام دو: فَمَن یَعمَل مِثقٰالَ ذَرَّةٍ خَیراً یَرَہُ پھر جس نے ذرّہ برابر نیكی كی ہے وہ اسے دیكھے گا۔ (سورئہ زلزلہ ۹۹ آیت۷)



back 1 2 3 4 5 next