جهوٹ



دروغ گو را حافظہ نباشد !

اس برى عادت کے عام ھونے کى ايک وجہ جس نے پورے معاشرے کو زھر آلود کر ديا ھے وہ مشھور مقولہ ھے جو زباں زد خاص و عام ھے کھ” دروغ مصلحت آميز بھتر ازراستى فتنہ انگيز “يھى وہ خوشنما پردہ ھے جس نے اس برائى کى خباثت کو چھپا رکھا ھے اور عموما لوگ اپنے سفيد جھوٹ کے جواز کے لئے اسى مقولہ کا سھارا ليتے ھيں ۔ ليکن اس بات کى طرف توجہ نھيں ديتے کہ عقل و خرد اور شريعت مطھرہ نے مخصوص شرائط کے ساتھ اس کو جائز قرار ديا ھے چنانچہ عقل و شريعت کا يہ فيصلہ ھے کہ اگر کسى مسلمان کى جان ، آبرو يا مال کثير کو خطرہ ھو تو اس کا ھر ممکن طريقہ سے دفاع کيا جا سکتا ھے يھاں تک کہ اگر جھوٹ بول کر ان تينوںميں سے کسى ايک کى حفاظت ممکن ھو تو جھوٹ بھى بول سکتا ھے ۔ ليکن يہ صرف ضرورت ھى کے وقت ھو سکتا ھے کيونکہ ضرورت حرام کو مباح کر ديتى ھے ليکن اس کے ساتھ يہ شرط ھے کہ انسان بقدر ضرورت ھى استعمال کر سکتا ھے ۔ مقدار ضرورت سے زيادہ جھوٹ نھيں بولا جا سکتا !

اور اگر اس مصلحت Ú©Û’ دائرے Ú©Ùˆ اپنے شخصى منافع اور نفسانى خواھشات تک Ú©Û’ لئے وسيع کر ديا جائے اور Ú¾Ù… يہ سمجھ ليں کہ اپني ذاتى مصلحت Ùˆ منفعت اور شھوت Ùˆ خواھش کےلئے بھى اسى قاعدہ پر عمل کيا جا سکتا تو پھر بلا مصلحت والے جھوٹ Ú©Û’ لئے کوئى جگہ باقى Ù†Ú¾ÙŠÚº رھے Ú¯Ù‰ Û” جيسا کہ اڑہ   ڑھعظيم رائٹر Ù†Û’ لکھا Ú¾Û’ : ” ويسے تو ھر چيز Ú©Û’ لئے ايک سبب ھوتا Ú¾Û’ ( اور نہ بھى Ú¾Ùˆ تو ) Ú¾Ù… اپنے عمل Ú©Û’ لئے بھت سے عوامل اور بھت سي علتيں تخليق کر سکتے Ú¾ÙŠÚº اور ÙŠÚ¾Ù‰ وجہ Ú¾Û’ کہ مجرم سے جب مواخذہ کيا جاتا Ú¾Û’ تو وہ اپنے جرم Ú©Û’ لئے پچاسوں عذر ØŒ دليل اور علت تلاش کر ليتا Ú¾Û’ اور اسى لئے پورى دنيا ميں جو جھوٹ بولا جاتا Ú¾Û’ اس ميں کوئى نہ کوئى نفع Ùˆ خير کا پھلو بھرحال Ú¾Ùˆ تا Ú¾Û’ Û” اور اگر ايسا نہ Ú¾Ùˆ تو وہ جھوٹ لغو اور عبث Ú¾Ùˆ جائے گا اور پھر اس ميں کوئى زيادہ ضرر Ùˆ نقصان بھى نہ رھے گا Û”

جس چيز ميں بھى انسان کا ذاتى فائدہ ھوتا ھے اس کو وہ فطرى طور سے خير سمجھتا ھے اور پھر جب وہ اپنے شخصى منافع کو سچ بولنے کى وجہ سے خطرہ ميں ديکھتا ھے يا وہ جھوٹ بولنے ميں اپنا فائدہ ديکھتا ھے تو دھڑلے سے جھوٹ بولتا ھے اور دور دور تک اس کى برائى کا تصور بھى نھيں کرتا کيونکہ سچائى ميں شر و فتنہ ديکھتا ھے اور جھوٹ بھرحال ايک شر ھے اگر حصول شرائط کے ساتھ جھوٹ بول کر شر کو دفع کيا گيا تو ( يہ مطلب نھيں ھے کہ وہ جھوٹ نيک ھو گيا بلکہ ) اس کا مطلب يہ ھے کہ ايک زيادہ فاسد چيز کو کم فساد والى چيزکے ذريعہ دور کيا گيا ھے ۔

آزادي بيان کى اھميت آزادى فکر سے بھت زيادہ ھے ۔ کيونکہ اگر افکار ميں کسى قسم کى لغزش يا انحراف ھو گيا تو اس کا نقصان صرف فکر کرنے والے کو پھونچے گا ليکن اگر گفتار ميں لغزش يا انحراف ھو گيا تو اس کا اثر پورے معاشرے پر پڑے گا ۔

امام غزالى کھتے ھيں : زبان ايک بھت بڑى نعمت ھے اور پروردگار عالم کا ايک نھايت ھى لطيف و دقيق عطيہ ھے ۔يہ عضو ( زبان ) اگر چہ حجم و جسم کے اعتبار سے بھت ھى چھوٹا ھے ليکن اطاعت و معصيت کے اعتبار سے بھت ھى سنگين و بڑا ھے ۔ کفر يا ايمان کا اظھار زبان ھى سے ھوا کرتا ھے اور يھى دونوں چيزيں بندگى و سر کشى کي معراج ھيں ۔ اس کے بعد اضافہ کرتے ھوئے فرماتے ھيں ؛ وھي شخص زبان کى برائيوں سے نجات حاصل کر سکتا ھے جو اس کو دين کى لگام ميں اسير کر دے اور سوائے ان مقامات کے کہ جھاں دنيا و آخرت کا نفع ھو کسى بھى جگہ آزاد نہ کرے !

بچوں کے باطن ميں جھوٹ جڑ نہ پکڑنے پائے اس کے لئے بچوں سے کبھى بھي جھوٹ اور خلاف واقع بات نھيں کرنى چاھئے کيونکہ بچے جن لوگوں کے ساتھ ھمہ وقت رھتے ھيں فطرى طور سے انھيں کى گفتار و رفتار کو اپنے اندر جذب کرنے کى کوشش کرتے ھيں۔ گھر بچوں کے لئے سب سے اھم تربيت گاہ ھے “۔

جھوٹ اور خلاف واقع کا دور دورہ ھو گيا اور والدين کے اعمال خلاف واقع ھونے لگے تو کسى بھى قيمت پر اچھے و سچے بچے تربيت پا کر نھيں نکل سکتے ۔ بقول موريش ۔ ٹى ۔يش : حقيقت کے مطابق سوچنے کى عادت، حقيقت کے مطابق بات کرنے کى سيرت ،ھر سچ و حقيقت کو قبول کرنے کى فطرت صرف انھيں لوگوں کا شيوہ ھوتا ھے جن کى تربيت طفوليت ھى سے اسى ماحول ميں ھوئى ھو ۔

دين کى نظر ميں جھوٹ

قرآن مجيد صريحى طور سے جھوٹ بولنے والے کو دين سے خارج سمجھتا ھے چنانچہ ارشاد ھے : ” انما يفترى الکذب الذين لا يومنون باٰ ياٰت اللہ “(۱) جھوٹ وبھتان تو بس وھى لوگ باندھا کرتے ھيں جو خدا کى آيتوں پر ايمان نھيں رکھتے۔

آيت کا مفھوم يہ ھوا کہ ايمان والے جھوٹ نھيں بولتے ۔

رسول اکرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم کا ارشاد ھے : تم پرسچ بولنا واجب ھے ۔ اس لئے کہ سچ اعمال خير کى طرف لے جاتا ھے ،اوراعمال خيرجنت ميں لے جاتے ھيں جو شخص سچ بولتا ھے اور اس کى کوشش کرتا ھے وہ خدا کے پاس صديق لکھا جاتا ھے ۔ خبردار جھوٹ نہ بولنا کيونکہ جھوٹ فسق ( و فجور ) کى طرف دعوت ديتا ھے اور فسق ( و فجور ) انسان کو جھنم ميں ڈھکيل ديتے ھيں ۔ جو انسان برابر جھوٹ بولتا ھے وہ خدا کے يھاں ( کذاب ) لکھا جاتا ھے ۔( ۲)



back 1 2 3 4 next