ظلم و ستم



برٹرانڈر اسل کھتا ھے : انسانى نفس بخار کى طرح ھميشہ روبترقي ھے۔ اس لئے بچوں کى صحيح تربيت کا طريقہ يہ ھے کہ خارجى تعليمى دباؤ کو اس طرح قرار ديں کہ بچوں کے ذھن و فکر ، قلبى ميلان و جذبات اس کو قبول کر ليں ۔ تربيت کا طريقہ يہ نھيں ھے کہ ان کو ھر وقت زود کوب کيا جائے اس سلسلے ميں سب سے زيادہ ضرورى چيز عدالت کا برتنا ھے ۔ عدالت ايک ايسا مفھوم ھے جس کے لئے ھماري کوشش يہ ھونى چاھئے کہ بچوں کے افکار و عادات ميں رفتہ رفتہ کر کے داخل کريں ۔ عدل کى صحيح تربيت اسى وقت ھو سکتى ھے جب اس بچے کے ساتھ کئى اور بچے ھوں جو چيز ايسى ھو کہ جس سے ايک وقت ميں صرف ايک ھى بچہ لذت و مسرت حاصل کر سکتا ھو اور اس کے حصول کے لئے ھر ايک کى کوشش ھو مثلا سائيکل کى سوارى کہ ھر بچے کى خواھش يہ ھوتي ھے کہ بلا شرکت غير سے صرف وھى استفادہ کرتے تو يھاں پر عدالت کى تربيت دينا ممکن ھے ۔ اس طرح کہ بزرگ حضرات نمبر لگا ديں آپ کو تعجب ھو گا کہ تمام بچوں کى خواھشات مغلوب ھو جائيں گى اور سب اس پر تيار ھو جائيں گے، ميں اس بات کو تسليم نھيں کرتا کہ حس عدالت جبلى و فطرتى ھے ليکن جب ميں نے ديکھا کہ کتنى جلدى يہ عدالت اس نے مان لى تو مجھے بھت تعجب ھوا ليکن اس ميں عدالت حقيقى ھونا چاھئے اس ميں ايک بچے کو دوسرے پر ترجيح نھيں دينى چاھئے ۔ اگر آپ کسى ايک بچے سے زيادہ محبت کرتے ھيں تو اس کا لحاظ رکھئے کہ اپنے جذبات پر کنٹرول کيجئے ۔ ايک قاعدہ ٴکليہ يہ ھے کہ کھيل کود کے اسباب ( اور کھلونوں ) ميں مساوات رکھيئے ۔ کسي مشق يا اخلاقى ورزش کے ذريعے بچوں ميں عدالت پيدا کرنا سعى لا حاصل ھے ۔

معصوم عليہ السلام کا ارشاد ھے : اگر تم چاھتے ھو کہ تمھارى اولاد تمھارے ساتھ نيکى و حسن سلوک کرے تو اپنى اولاد کے درميان عدالت و مساوات برتو اور خدا سے ڈرو! (۶)

حضرت على عليہ السلام نے جب محمد ابن ابى بکر کو مصر کي گورنرى دى ھے تو جو دستوران کو ديے ھيں ، ان ميں سے ايک يہ ھے : ان کے لئے اپنے بازووں کو جھکادو ۔ ان کے ساتھ خوشروئى سے پيش آؤ ۔ان کے ساتھ اوقات و لمحات ميں مواسات کرو تاکہ بڑوں کو تم سے ظلم کى توقع نہ رھے اور غريبوں کو تمھارے انصاف سے مايوسى نہ ھو ۔(۷)

سفرائے الٰھى بنيان گزار عدالت اور انسان Ú©Ù‰ تکميل Ú©Ù‰ سعى کرنے والے تھے ØŒ حضرت على عليہ السلام Ú©ÙŠ ظاھرى خلافت ميں جناب عقيل ( حضرت علي  عليہ السلام Ú©Û’ حقيقى بھائى ) ايک مرتبہ حضرت على عليہ السلام Ú©Û’ پاس آئے اور اپنى تھى دستى Ùˆ پريشانى کا شکوہ کيا اور اصرار کيا کہ آپ مجھے ميرے حق سے تھوڑا سا Ú¯ÙŠÚ¾ÙˆÚº زيادہ ديديں Û” حضرت على عليہ السلام Ù†Û’ بھت سمجھايا Û” جب ان کا اصرار بڑھتا گيا تو آپ Ù†Û’ ايک لوھے Ú©Û’ Ù¹Ú©Ú‘Û’ Ú©Ùˆ گرم کر Ú©Û’ عقيل Ú©Û’ بدن سے قريب کيا Û” عقيل تڑپ اٹھے Û” اس وقت حضرت على عليہ السلام Ù†Û’ فرمايا : اے عقيل! تمھارى ماں تمھارے ماتم ميں بيٹھے Û” تم تو اس آگ سے جس Ú©Ùˆ ايک انسان Ù†Û’ روشن کيا Ú¾Û’ اتنا بيتاب Ú¾Ùˆ گئے اور نالھٴ Ùˆ فرياد کرنے Ù„Ú¯Û’ ۔ليکن ميں اس آگ سے نہ ڈروں ØŒ جس Ú©Ùˆ قھر Ùˆ غضب الٰھى Ù†Û’ روشن کيا Ú¾Ùˆ ØŸ بھلا ميں کيونکر اس کا متحمل Ú¾Ùˆ سکتا Ú¾ÙˆÚº ØŸ کيا يہ انصاف Ú¾Û’ کہ تم تو ذرا سا جسم Ú©Û’ متاثر Ú¾Ùˆ جانے پر داد Ùˆ فرياد کرو اور ميں عذاب الٰھى پر صبر کروں !ØŸ اسى Ú©Û’ ساتھ يہ بھي فرمايا : خدا Ú©Ù‰ قسم اگر پورى دنيا Ú©Ù‰ حکومت مع اس Ú©Ù‰ دولت Ùˆ ثروت Ú©Û’ اس شرط Ú©Û’ ساتھ ميرے سپرد Ú©Ù‰ جائے کہ ايک چيونٹى Ú©Û’ منہ سے ظلم Ùˆ ستم Ú©Û’ ساتھ جو Ú©Û’ Ú†Ú¾Ù„Ú©Û’ Ú©Ùˆ چھين لوں تو ميں ھر گز قبول نہ کروںگا Û” يہ پوري دنيا اور تمھارى محبت اس چيز سے Ú©Ú¾ÙŠÚº پست Ú¾Û’ کہ اس Ú©Ù‰ خاطر ميں کسى چيونٹى Ú©Ùˆ آزردہ کروں !

امام حسين عليہ السلام نے يزيدى ظلم کے خلاف اور آئين عدالت و مقصد انسانيت کے لئے اتنا عظيم قدم اٹھايا تھا کہ آج بھى تاريخ بشريت کي پيشانى پر وہ اقدام روشن و منور ھے ۔

حوالہ

 Û±Û” سورہٴ کھف/ ÛµÛ¹   

 Û²Û” سورہ ٴحديد /Û²Ûµ   

Û³Û” سورہ ٴمائدہ / Û¸   

۴۔سورہٴ نساء /ÛµÛ¸  

 ÛµÛ”نھج الفصاحة ص/ Û¶Û¶

۶۔نھج الفصاحة ص/ ۸

۷۔نھج البلاغہ ص/ ۸۷۷



back 1 2 3 4