کاتبان وحی



اس کے علاوہ خود لکھنا پڑھنا آنا کمال ھے نقص وعیب نھیںھے اور کیونکہ پیغمبر کو تمام کمالات خدا کی طرف سے خاص طور پر عنایت ھوئے تھے لہٰذا ان کے لئے کسی استاد کی ضرورت نھیں تھی اور یہ بات ناممکن تھی، کہ پیغمبر کے کمالات میں اس کمال کی کمی ھوتی۔

پیغمبر اکرم (ص)کا اپنے لکھنے کو ظاھر نہ کرنا سبب بنا کہ آپ اپنے پاس کچھ کاتبوں کو رکھیںجومختلف باتوں کومنجملہ ان میں سے وحی کو آپ کے لئے کتابت کریں لہٰذا چاھے مکی زندگی ھو یا مدنی زندگی آنحضرت(ص) نے اچھے کاتبوں کو اپنے پاس کتابت کے لئے رکھا ھواتھا،سب سے پھلے شخص جنھوں نے مکہ میں پیغمبر کے لئے کتابت کاکام مخصوصاًوحی کی کتابت کاکام شروع کیا وہ علی بن ابی طالبں تھے جو پیغمبر کی آخری عمر تک اس کام کو انجام دیتے رھے اور پیغمبر کا بھی اکثر اصرار حضرت علی (ع) سے یھی ھوتا تھا کہ تم ھی میرے اوپر نازل ھونے والی وحی کو لکھاکرو تاکہ کوئی بھی قرآن اور وحیٴ آسمانی کی بات علی (ع)سے پوشیدہ نہ رھے۔

سلیم بن قیس ھلالی کہتے ھیں میں ایک دفعہ مسجد کوفہ میں علی (ع) کے ساتھ بیٹھا ھوا تھا اور لوگ بھی علی (ع)کے اطراف میں گھیر ا ڈالے بیٹھے ھوئے تھے کہ علی (ع)نے فرمایا: ”تم لوگوں کو جو کچھ بھی پو چھنا ھے مجھ سے پو چھو مجھ سے کتاب خدا کے بارے میں پو چھو خدا کی قسم کوئی ایسی آیت نھیں جو پیغمبر (ص)پر نازل ھوئی ھو اور آنحضرت (ص)نے اسے میرے لئے تلاوت نہ کیا ھواور اس کی تفسیروتاٴویل مجھے نہ سکھائی ھو“ ایک شخص نے سوال کیا:جو آیات آپ کی عدم موجودگی میں نازل ھوا کرتی تھیں ان کے لئے آپ کیا کرتے تھے؟تو حضرتں نے فرمایا:”جب میں بعد میںپیغمبر کی خدمت میں پہنچتا تھا تو پیغمبر(ص) مجھ سے فرماتے تھے کہ اے علی (ع)! تمھاری عدم موجودگی میںیہ یہ آیات نازل ھوئی ھیں اور ان کی میرے سامنے تلاوت کیاکرتے تھے اور ان کی تاویل کی بھی مجھے تعلیم دیتے تھے“۔([7])

دوسرے نمبر پر مدینہ میں سب سے پھلے کتابت وحی کے لئے اُبیّ بن کعب انصاری منتخب ھوئے جو کہ زمانہٴ جاھلیت سے لکھنے میں کافی مھارت رکھتے تھے پیغمبر(ص)نے پورے قرآن کو ان کے

 

سامنے پڑھا تھا اور انھو ں نے لکھا تھا اسی لئے عثمان کے دور میں جب قرآن کی جمع آوری کا مسئلہ پیش آیاتو اس جمع آوری کر نے والے گروپ کا سر پرست اْبیّ بن کعب کو بنایا گیا لہٰذا کسی وقت بھی کوئی مشکل پیش آتی تو اْبیّ بن کعب کی رائے کے تحت اس مشکل کو حل کردیا جاتا تھا۔( [8])

زید بن ثابت مدینہ میں پیغمبر(ص) کے پڑوس میں رہتے تھے اور لکھنا جانتے تھے لہٰذا پیغمبر(ص)نے انھیں بھی کتابت وحی کی دعوت دی اور ان کی کتابت بھی ھلکے ھلکے مشھورھوگئی،حتی انھوں نے پیغمبر(ص) کے حکم سے عبرانی زبان پڑھنا لکھنا سیکھ لی تھی اور عبرانی زبان میں آنے والے خطوط کو پیغمبر(ص) کے سامنے پڑھتے اور ان کے جواب لکھا کرتے تھے زید بن ثابت دوسرے اصحاب کی نسبت لکھنے کے مسائل میں پیغمبر(ص) کی خدمت میں زیادہ رھے۔ ( [9])

لہٰذا سب سے پھلے نمبر پر کاتب وحی حضرت علی (ع) پھر اْبیّ بن کعب اور پھر زید بن ثابت تھے بقیہ کاتبان وحی کا درجہ ان تینوں کے بعد ھے۔

ابن اثیر لکھتے ھیں:”پیغمبر اسلام (ص)کی خدمت میں کتابت وحی کے لئے عبداللہ بن ارقم زھری بھی تھے جو پیغمبر(ص) کے خطوط کے جواب دیاکرتے تھے مگر پیغمبر(ص) کے معاھدوں اور صلح ناموں کی لکھنے کی ذمہ داری علی بن ابی طالب (ع) کی تھی“اور پھر لکھتے ھیں”منجملہ اور بھی کا تبان وحی تھے جن میں خلفاء ثلاثہ،زید بن عوام،خالد، ابان اور سعید بن عاص کے دو بیٹے ،حنظلہ ،اْسَیدی،علاء بن حضرمی،خالد بن ولید، عبداللہ بن رواحہ،محمد بن مُسلمہ ،عبداللہ بن ابی سلول،مغیرة بن شعبہ،عمر وبن العاص، معاویہ بن ابی سفیان،جھم یاجھیم بن صلت ،معیقب بن ابی فاطمہ وشرجیل بن حسنہ تھے ‘ ‘ ۔

ظاھراً یہ وہ افراد تھے جو اس وقت عرب میں لکھنا پڑھنا جاننے والے شمار ھوتے تھے جن سے کبھی کبھار پیغمبر لکھوانے کا کام لیا کرتے تھے لیکن کاتبان وحی فقط تین افراد تھے دیگر افراد سے صرف کبھی کبھار لکھوانے کاکام لیا جاتا تھا۔( [10])



back 1 2 3 4 next