امام علیہ السلام کے لشکر کے سرداروں کی شعلہ ور تقریریں



عبد اللہ ، حملہ شروع کرنے سے پھلے اپنے دوستوں کی طرف متوجہ ھوئے اور کہا -: معاویہ نے ایسے مقام و منصب کا دعویٰ کیا ھے جس کا وہ اھل نھیں ھے، مقام ومنصب کے حقیقی وارثوں سے لڑائی کے لئے اٹھا ھے اور باطل اور غلط دلیلوں کے ساتھ حق سے لڑنے آیا ھے ،اس نے عربوں(بدو) اور مختلف لوگوں کو ملا کر فوج تشکیل دی ھے اور گمراھی کو خوبصورت انداز میں پیش کیا ھے۔یہاں تک کہنے کے بعد کہا:

”واٴنتم واللّہ علیٰ نورٍ من ربّکم وبرھان مبین، قاتلواالطغاةَ الجفاةَ ولا تخشوھُم وکیفَ تخشَونَھم وفی اٴید یکم کتاب من ربّکم ظاھر منور۔۔۔ و

 Ù‚دقاتلتھُم مع التبیُّ واللّہ مٰا Ú¾Ù… فی ھٰذہِ باٴزکیٰ ولاٰ اٴ تقٰی ولاٰاٴبَرّ ،قُو مواُ اَلیٰ عدوِّ اللّٰہ وعدوِّکم“[7]

خدا کی قسم , تم لوگ خدا کے نور کے سایہٴ میں اور روشن دلیل ھو۔ اس جفا کار اور سرکش کے ساتھ جنگ کرو سے خوف نہ کرو، اس سے کیوں ڈرو جب کہ تمھارے ہاتھ میں خدا کی کتاب ھے جو واضح اور سب کی نظر میں مقبول ھے تم نے پیغمبر(ص) کے ساتھ اس سے جنگ کی ھے خدا کی قسم ان کا حال ماضی سے بہتر نھیں ھے، اٹھو اور خدا کے دشمن اور اپنے دشمن سے جنگ کرنے کے لئے روانہ ھوجاوٴ ۔

میمنہ کی سرداری عبد اللہ کے حوالے تھی اس کے باوجود انھوں نے دو زرہ پہنی اور دو تلواریں (دونوں ہاتھوںمیں ) لیں اور حملہ شروع کردیا اور پھلے ھی حملہ میں معاویہ کی فوج کو راستے سے ہٹادیا اور حبیب بن مسلمہ جوفوج شام کے میسرہ کا سردار تھا،کے لشکر کو شکست دیدی ،ان کی پوری کوشش یہ تھی کہ خود کو معاویہ کے خیمے تک پھونچا دیں اور اس ام ّالفساد کو درمیان سے ختم کردیں معاویہ کے تمام نگہبان جنھوں نے اپنی جان قربان کرنے کا عہد کیا تھا، پانچ صف کی صورت میںیا بقولے پانچ دیوار کی طرح اس کے اطراف میں محاصرہ کئے ھوئے تھے اور ان کو بڑھنے سے روک رھے تھے لیکن یہ دیواریں بہت بڑی مشکل نہ بنیں، بلکہ ایک کے بعد ایک گرتی رھیں عبدا للہ کا حملہ بہت زبردست تھالیکن اس سے پھلے کہ خود کو معاویہ کے خیمہ تک پھونچاتے قتل کر دئیے گئے۔[8]

    اس سلسلے میں جریر طبری Ù†Û’ اپنی ”تاریخ“ میں ابن مزاحم (موٴلف وقعہ صفین) سے زیادہ تفصیل Ú©Û’ ساتھ  لکھا Ú¾Û’ØŒ وہ لکھتا Ú¾Û’:عبداللہ دشمن Ú©ÛŒ فوج Ú©Û’  Ù…یسرہ Ú©Û’ ساتھ جنگ کرنے میں مشغول تھا اور مالک اشتر بھی میمنہ پر حملہ کر رھے تھے، مالک اشتر جو کہ زرہ پہنے ھوئے تھے اپنے ہاتھ میں ایک یمنی ڈھال نما لوھے کا ٹکڑا لئے ھوئے تھے جب اس Ú©Ùˆ جھکاتے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ اس سے پانی برس رہا Ú¾Û’ اور جب اسے اونچا کرتے تھے تو اس Ú©ÛŒ Ú†Ù…Ú© سے آنکھیں خیرہ Ú¾Ùˆ جاتی تھیں۔انھوں Ù†Û’ اپنے حملے میں میمنہ Ú©Ùˆ تہ وبالا کردیا اور ایسے مقام پر پھونچے جہاں عبد اللہ بن بدیل قاریوں Ú©Û’ گروہ جن Ú©ÛŒ تعداد تقریباً تین سو،[9] Ú©Û’ آس پاس تھی موجود تھے، انھوں Ù†Û’ عبد اللہ Ú©Û’ دوستوں Ú©Ùˆ میدان میں ڈٹا ھوا پایا مالک اشتر Ù†Û’ ان Ú©Û’ اطراف سے دشمنوں Ú©Ùˆ دور کیا وہ لوگ مالک اشتر Ú©Ùˆ دیکھ کر خوش ھوئے اور فوراً امام Ú©Û’ حالات دریافت کئے اور جب ان لوگوں Ù†Û’ جواب میں سنا کہ امام علیہ السلام صحیح Ùˆ سالم ھیں اور میسرہٴ میں اپنی فوج Ú©Û’ ساتھ جنگ کرنے میں مصروف ھیں تو شکرخدابجالائے۔

  ایسی حالت میں عبد اللہ Ù†Û’ اپنے Ú©Ù… ساتھیوں Ú©Û’ باوجود بہت زیادہ اصرا ر کیا کہ آگے بڑھیں، معاویہ Ú©Û’ نگہبانوںکو قتل کرنے Ú©Û’ بعد خود معاویہ Ú©Ùˆ قتل کردیں،لیکن مالک اشتر Ù†Û’ انھیں پیغام دیا کہ آگے نہ بڑھیںاور جس جگہ پر ھیں وھیں ٹھہرے رھیں اور اپنا دفاع کریں۔[10] لیکن ان کا خیال تھا کہ وہ ایک بجلی Ú©ÛŒ طرح تیز حملے سے نگہبانوں Ú©Ùˆ ختم کرکے معاویہ تک پھونچ جائیں Ú¯Û’ØŒ اسی وجہ سے وہ آگے بڑھتے رھے اور چونکہ دونوں ہاتھوں میں تلوار لئے تھے اپنے دوستوں Ú©Û’ ھمراہ حملہ شروع کردیا اور جو بھی سامنے آتا تھا  ایک Ú¾ÛŒ حملے میں اس کا کام تمام کردیتے تھے اور اس قدر آگے بڑھے کہ معاویہ Ú©Ùˆ مجبوراً اپنی جگہ بدلنی پڑی۔[11]

عبد اللہ Ú©Û’ حملے Ú©ÛŒ خوبی یہ تھی کہ وہ نگہبانوں سے لڑتے وقت,,  یالثارات عثمان،، کا نعرہ بلند کر رھے تھے اس نعرے سے ان کا مقصد ان کا وہ بھائی تھا جو اسی جنگ میںمارا گیا تھا لیکن دشمنوں Ù†Û’ اس سے دوسری چیزسمجھا اور بہت تعجب میں Ù¾Ú‘Û’ تھے کہ عبد اللہ کس طرح سے لوگوں Ú©Ùˆ عثمان Ú©Û’ خون کا بدلہ لینے Ú©ÛŒ دعوت دے رھے ھیں۔!

بالآخر نوبت یہاں تک پھونچی کہ حقیقت میں معاویہ کو اپنی جان خطرے میں نظر آئی اور کئی مرتبہ اپنی میمنہ کی فوج کے سردار حبیب بن مسلمہ کے پاس پیغام بھیجا کہ مدد کو پھونچے لیکن حبیب کی ساری کوششیں بے کار ھوگئیں۔ اور عبد اللہ کو ان کے مقصد تک پھونچنے سے روک نہ سکا ،معاویہ کے خیمے سے وہ بہت کم فاصلے پر تھے معاویہ نے جب کوئی سبیل نہ دیکھی تو نگہبانوں کو حکم دیا کہ ان کے اوپر پتھر مارو اور ان سے جنگ کرو، اور یہ طریقہ موٴثر واقع ھوااور نگہبانوں نے پتھر مار کر عبد اللہ جن کے ھمراہ بہت کم لوگ تھے زخمی کر دیا اور وہ زخمی ھوکر زمین پر گر پڑے ۔[12]

جب معاویہ نے اپنی جان کو خطرے سے باہر پایا توخوشی سے پھولے نھیں سمایااورعبداللہ کے سراہنے آیا، ایک شخص جس کا نام عبد اللہ بن عامر تھا اور معاویہ کے قریبی لوگوں میں سے تھا اپنے عمامہ کو عبد اللہ کے چہرے پر ڈال دیا اور اس کے لئے دعائے رحمت کی، معاویہ نے بہت اصرار کیا کہ اس کا چہرہ کھول دے مگر اس نے نھیں کھولا کیونکہ وہ اس کا دوست تھا، معاویہ نے اس سے وعدہ کیا کہ میں اِسے مُثلہ (جسم کے ٹکڑے کاٹنا) نھیں کروں گا، اس وقت اُسے امام کے بہادر سردار کا چہرہ دیکھنا نصیب ھوا،جیسے ھی معاویہ کی نگاہ عبد اللہ کے چہرے پر پڑی اس نے برجستہ کہا:



back 1 2 3 4 5 next