اھل بیت کے شیعہ



 

”تشیع“ کے معنی نسبت، مشایعت، متابعت اور ولاء کے ھیں، یہ لفظ قرآن مجید میں بھی بیان ھوا ھے:<وَ اِنَّ مِن شِیعَتِہِ لإبرَاہِیمَ إذ جَاءَ رَبَّہُ بِقَلبٍ سَلِیم>[1] ان کے شیعوں میں سے ابراھیم بھی ھیں جب وہ اپنے پروردگار کی بارگاہ میں قلب سلیم کے ساتھ آئے۔

یعنی نوح(ع) کے پیروؤں میں سے ابراھیم (ع)بھی تھے جو خدا کی وحدانیت اور عدل کی طرف دعوت دیتے تھے ا ور نوح(ع) ھی کے نہج پر تھے۔

لیکن یہ لفظ علی (ع) بن ابی طالب اور آپ(ع) کے بعد آپ(ع) کی ذریت سے ھونے والے ائمہ سے محبت و نسبت رکھنے والوں کے لئے استعمال ھونے لگا ھے ۔ یھی رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اھل بیت(ع) ھیں کہ جن کی شان میں آیت تطھیر اور آیت مودت نازل ھوئی ھے ۔

تاریخ اسلام میںیہ لفظ اھل بیت رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے محبت و نسبت اور ان کے مکتب سے تعلق رکھنے والوں کے لئے شھرت پا گیا ھے ۔ اس محبت و نسبت اور اتباع کے دو معنی ھیں:سیاسی اتباع و نسبت (سیاسی امامت) اورثقافتی و معارفی اتباع (فقھی و ثقافتی مرجعیت) یہ وہ چیز ھے جس کے ذریعہ شیعیانِ اھل بیت (ع) پہچانے جاتے ھیں اور دوسرے مسلمانوں سے ممتاز ھوتے ھیں۔

اب آپ کے سامنے مذکورہ دونوں شقوں کی وضاحت کی جاتی ھے :

۱۔اھل بیت کی سیاسی امامت

رسول (ع) نے حجة الوداع سے واپس لوٹتے ھوئے ، غدیر خم میں (قافلہ کے) مختلف راستوں میں بٹنے سے پھلے یہ حکم دیا کہ جو لوگ آگے بڑھ گئے ھیں ان کو واپس بلایا جائے اور جو پیچھے رہ گئے ھیں وہ آپ سے ملحق ھو جائیں یھاں تک کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے پاس لوگوں کا جم غفیر جمع ھو گیا۔ اس وقت شدید گرمی تھی اس سے پھلے وہ اتنی شدید گرمی سے دوچار نھیں ھوئے تھے۔

رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے حکم سے شامیانے لگائے گئے ان کے نیچے جھاڑو لگائی گئی، پانی چھڑکا گیا آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے لئے کپڑے سے سایہ کیا گیا۔ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے نماز ظھر پڑھی پھر خطبہ دیا اور لوگوں کو اس بات سے آگاہ کیا کہ آپ کا وقت قریب ھے پھر آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے علی بن ابی طالب کا ھاتھ پکڑا ( اور اتنا بلند کیا کہ) آپ کی بغلوں کی سفیدی نمایاں ھو گئی اس کے بعد فرمایا:

اے لوگو! کیا میں تم سب سے اولیٰ نھیں ھوں ۔ سب نے کھا : ھاں! پھر فرمایا:جس کامیںمولا ھوں اس کے یہ علی مولا ھیں، اے اللہ جو ان کو دوست رکھے تو اس کو دوست رکھ اور جو ان کو دشمن سمجھے تو اس کو دشمن سمجھ، جو ان کی نصرت کر ے تو اس کی مدد فرما اور جو ان کو چھوڑ دے تواس کو رسوا فرما۔

خدا نے اپنے رسول کو اس سے پھلے اس پیغام کو پھنچا نے کا حکم دیا تھا جیسا کہ ارشاد ھے :<یَا اٴیُّھَا الرَّسُولُ بَلِّغ مَا اٴُنزِلَ إلَیکَ مِن رَّبِّکَ وَإن لَّم تَفعَل فَمَا بَلَّغتَ رِسَالَتَہُ وَالله ُیَعصِمُکَ مِنَ النَّاسِ>[2]

اس آیت میں خدا نے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو یہ حکم دیا ھے کہ لوگوں کو اپنے بعد ھونے والے وصی اور ولی کا تعارف کرا دیں۔ یہ بات آیت میں بڑی تاکیدکے ساتھ کھی گئی ھے ، ھمیں قرآن مجید میں کوئی دوسری آیت ایسی نھیں ملتی جس میں رسول کو اس انداز میں مخاطب کیا گیا ھو



1 2 3 4 5 6 next