اھل بیت کے شیعہ



رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے علی (ع) کا ھاتھ بلند کرنے اور” من کنت مولاہ فعلی مولاہ“ کھنے سے پھلے صحابہ سے معلوم کیا: کیا میں تمھارے نفسوں پر خود تم سے زیادہ حق تصرف نھیں رکھتا ھوں ؟ سب نے کھا: بیشک ، آپ اولیٰ ھیں اور یہ تمام مسلمانوں پر رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی حاکمیت و ولایت کے معنی ھیں- لہذا فرمایا:

”من کنت مولاہ فھذا عليّ مولاہ“

پھربہت سے بزرگ صحابہ علی (ع) کو ولایت کی مبارک باد دینے کے لئے خدمت علی (ع) میں حاضر ھوئے ،ان میں ابوبکر و عمر بھی شامل تھے۔

اس کے علاوہ اس کی دلالت، شھرت، گواھی اور تصریح رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد ھونے والے خلیفہ اور امام کے لئے کافی ھے ۔ اس سے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا مقصد تھا کہ علی (ع) کو اپنے بعدمسلمانوں کا امام بنا دیں مگر کیا کیاجائے کہ سیاسی امور آڑے آ گئے اور لوگ اس حدیث کی دلالت میں شک کرنے لگے جبکہ اس کی سند میں شک کرنا ان کے لئے آسان نھیںتھا۔شیعیان اھل بیت اس اور دوسری واضح و صحیح حدیثوں کی روشنی میں رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد علی (ع) کو اور ان کے بعد ان کی ذریت سے ھونے والے ائمہ کوسیاسی امام تسلیم کرتے ھیں۔

۲۔ اھل بیت (ع) ، فقھی و ثقافتی مرجعیت

یہ نکتہ ان دو روشن شقوں میںسے ایک ھے جن کے ذریعہ اھل بیت (ع) کے شیعہ دوسرے مسلمانوں سے جدا ھوتے ھیں۔

رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اھل بیت(ع) کو اپنی حیات ھی میں مسلمانوں کا مرجع بنا دیا تھا کہ وہ حلال و حرام میں ان سے رجوع کریں گے وہ انھیں سیدھے راستہ کی ھدایت کریں گے اور ان کو گمراھی سے بچا ئیں گے : اور اھل بیت(ع) کو قرآن سے مقرون کیا تھا یہ بات حدیث ثقلین سے ثابت ھے جوکہ محدثین کے درمیان مشھور ھے اور فریقین کے نزدیک صحیح ھے اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے اس کی روایت متواتر ھے اور یہ تواترھے اور شھرت اس لئے ھے کہ رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنے بعد اس کے پھیلانے کا اہتمام کیا تھا۔

 Ø¬Ù† لوگوں Ù†Û’ اس حدیث Ú©ÛŒ روایت Ú©ÛŒ Ú¾Û’ ان میں سے مسلم بن حجاج بھی Ú¾Û’ انھوں Ù†Û’ صحیح مسلم Ú©Û’ باب فضائل علی بن ابی طالب میں زید بن ارقم سے روایت Ú©ÛŒ Ú¾Û’ کہ انھوں Ù†Û’ کھا: ایک روز رسول(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم) خداایک تالاب Ú©Û’ کنارے ØŒ جس Ú©Ùˆ خم کہتے ھیں اور مکہ Ùˆ مدینہ Ú©Û’ درمیان واقع Ú¾Û’ ØŒ ھمارے درمیان خطبہ دینے Ú©Û’ لئے Ú©Ú¾Ú‘Û’ ھوئے، Ù¾Ú¾Ù„Û’ خدا Ú©ÛŒ حمد Ùˆ ثناء Ú©ÛŒ ØŒ پھر لوگوں کووعظ Ùˆ نصیحت Ú©ÛŒ اس Ú©Û’ بعد فرمایا: اے لوگو! میں بھی بشر Ú¾ÙˆÚº ØŒ قریب Ú¾Û’ کہ خداکا فرستادہ آئے اور میں اس Ú©ÛŒ آواز پر لبیک Ú©Ú¾ÙˆÚº ØŒ میں تمھارے درمیان دوگراں قدر چیزیں Ú†Ú¾ÙˆÚ‘Ù†Û’ والا Ú¾ÙˆÚº ان میںسے ایک کتاب خدا Ú¾Û’ جس میں ھدایت Ùˆ نور Ú¾Û’ ،لہٰذا کتاب خدا Ú©Ùˆ Ù„Û’ لو اور اس سے وابستہ Ú¾Ùˆ جاؤ، کتاب خدا Ú©Û’ بارے میں ترغیب کی۔ پھر فرمایا: اور میرے اھل بیت(ع) ھیںمیں اپنے اھل بیت(ع) Ú©Û’ بارے میں خدا Ú©Ùˆ یاد دلاتا Ú¾ÙˆÚº Û” تین باریھی جملہ دھرایا۔[5]

ترمذی نے اپنی صحیح میں زید بن ارقم سے اسی طرح حدیث نقل کی ھے ۔ زید بن ارقم کہتے ھیں: رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: میں تمھارے درمیان دوچیزیںچھوڑنے والا ھوں اگر تم اس سے وابستہ رھوگے تو میرے بعد ھرگز گمراہ نہ ھوگے ان میں سے ایک دوسری سے عظیم ھے ایک کتابِ خدا ھے جو رسی کی مانند آسمان سے زمین تک ھے، دوسری میری عترت ھے وھی میرے اھل بیت (ع) ھیں یہ دونوں ھرگز ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوں گے یھاں تک کہ میرے پاس حوض پر وارد ھوں گے ،دیکھنا یہ ھے کہ میرے بعد تم ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ھو۔[6]

ترمذی نے جابر بن عبد اللہ سے بھی اس کی روایت کی ھے وہ کہتے ھیں: میں نے عرفہ کے روز رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو دیکھا وہ ناقہ قصویٰ پر سوارھیں اور خطبہ دے رھے ھیں، میں نے سنا کہ فرماتے ھیں: اے لوگو! میں نے تمھارے درمیان ایسی چیز چھوڑی ھے کہ اگر تم اس سے وابستہ ھو گئے تو ھرگز گمراہ نہ ھوگے اور وہ ھے کتاب خد اور میرے اھل بیت عترت۔[7]

 Ø­Ø§Ú©Ù… Ù†Û’ مستدرک الصحیحین میں اس حدیث Ú©Ùˆ اپنی سند سے زید بن ارقم سے متعدد طریقوں سینقل کیا Ú¾Û’ Û”[8]



back 1 2 3 4 5 6 next