اھل بیت کے شیعہ



< وَإن لَّم تَفعَل فَمَا بَلَّغتَ رِسَالَتَہ ُ> اس کے بعد رسول کو اطمینان دلانے کے انداز میں مخاطب کیا ھے کیونکہ اس وقت رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)خود کو لوگوں کے شر سے محفوظ نھیں سمجھ رھے تھے لہذا خدا نے فرمایا:

<وَالله ُیَعصِمُکَ مِنَ النَّاسِ>

جب رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے لوگوں کو ولایت اور وصایت کے بارے میں بتادیا اور تبلیغ دین کی تکمیل کردی تو اس سلسلہ میںخدانے فرمایا:

<اٴلیَومَ اٴکمَلتُ لَکُم دِینَکُم وَ اٴتمَمتُ عَلَیکُم نِعمَتِی وَ رَضِیتُ لَکُمُ الإسلاَمَ دِینًا>

عھد صحابہ سے آج تک تاریخ Ú©Û’ اس عظیم واقعہ Ú©ÛŒ روایتیں ھر طبقہ اور سند Ú©Û’ اعتبار سے متواتر ھیں چنانچہ طبقہ اولیٰ میں ایک سو دس صحابہ سے زیادہ Ù†Û’ اس Ú©Ùˆ بیان کیا Ú¾Û’ اور دوسرے طبقہ میں Û¸Û´ تابعین Ù†Û’ اس Ú©ÛŒ روایت Ú©ÛŒ Ú¾Û’ ØŒ اس Ú©Û’ بعد راویوں Ú©Û’ طبقات میں وسعت ھوتی رھی  شیخ عبد الحسین امینی Ù†Û’ اپنی کتاب ”الغدیر“ Ú©ÛŒ Ù¾Ú¾Ù„ÛŒ جلد میں اس حدیث Ú©Û’ راویوں Ú©ÛŒ تعداد بیان Ú©ÛŒ Ú¾Û’ ،ھمارے ساتھی محقق سید عبد العزیزطباطبائی Ù†Û’ اس Ú©ÛŒ مستدرک Ù„Ú©Ú¾ÛŒ Ú¾Û’ØŒ جس میں موصوف Ù†Û’ Ú©Ú†Ú¾ صحابہ، تابعین ØŒ تبع تابعین اور منابع Ùˆ ماخذ کا اضافہ کیاھے Û”

اس حدیث کے طرق اتنے صحیح ھیں کہ اس میں شک نھیں کیا جا سکتا ،کیونکہ اس حدیث کو حفاّظ، محدثین ، مفسرین ، مورخین اور بہت سے لوگوں نے بیان کیا ھے کہ ان سب کابیان کرنا ھماری طاقت سے باھر ھے ، ترمذی اپنی صحیح میں، ابن ماجہ نے سنن میں ،احمد بن حنبل نے مسندمیں، نسائی نے خصائص میں،حاکم نے مستدرک میں، متقی ھندی نے کنز العمال میں ، مناوی نے فیض القدیر میں ، ھیثمی نے مجمع الزوائد میں ، محب الطبری نے ریاض النضرة میں ، خطیب نے تاریخ بغداد میں ، ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں، ابن اثیر جزری نے اسد الغابة میں ، طحاوی نے مشکل الآثار میں، ابو نعیم نے حلیة الاولیاء میں ،ابن حجر نے صواعق محرقہ میں ، ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں اور بہت سے لوگوں نے حدیث غدیر کی روایت کی ھے کہ اس مقدمہ میں ان کا ذکر نھیں کیا جا سکتا۔

ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں بعض ان صحابہ کے اسماء تحریر کئے ھیں جنھوں نے حدیث غدیر کی روایت کی ھے اور لکھا ھے کہ ابن جریر طبری نے اپنی تالیف میں حدیث ولایت کو نقل کیا ھے ،اس میں اس حدیث کو نقل کرنے والوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ھے اور موصوف نے اسے صحیح قرار دیا ھے ۔ پھر لکھتے ھیں: ابو العباس بن عقدہ نے اس حدیث کے طرق کو جمع کیا ھے اور سترّ یا سترّ سے زیادہ صحابہ سے اس کی روایت کی ھے ۔[3]

فتح الباری میں لکھا ھے : لیکن، حدیث” من کنت مولاہ فعليّ مولاہ“ کو ترمذی اور نسائی نے نقل کیا ھے اور اس کے طرق بہت زیادہ ھیں۔ ان طرق کو ابن عقدہ نے ایک الگ کتاب میں جمع کیا ھے۔ اس حدیث کی زیادہ تر سندیں صحیح اور حسن ھیں۔[4]

لہذا اس کے متن و سند میں کوئی شک نھیں کرے گا اور اس کے جو قرائن ھیں وہ اتنے روشن ھیں کہ شک کی گنجائش ھی نھیں رہتی ھے ۔

رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا شدید گرمی میں صحابہ کے جم غفیر کو ، ان کے مختلف راستوں میں تقسیم ھونے سے قبل، جمع کرنا اور جو پیچھے رہ گئے تھے ان کاانتظار کرنا اور جو آگے نکل گئے تھے ان کو پیچھے بلانا،امت کی سرنوشت میں اھمیت کے حامل ایک امر کے لئے تھا۔



back 1 2 3 4 5 6 next