امام خمینی )رحمه اللہ ( کی سوانح حیات



مجھے دونوں ہی عالمی جنگيں یاد ہیں۔ میں چھوٹاتھا مگر مکتب جاتا تھا اور سابق سویت یونین کے فوجیوں کو خمین میں آتے جاتے دیکھتا تھا۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران ہمیں حملوں کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ ایک مقام پر مرکزی حکوت سے وابستہ بعض خوانین(زمینداروں) اور راہزنوں کا نام بھی لیتے ہيں جو لوگوں کا مال واسباب لوٹتے اور حتی ان کی ناموس پر بھی حملے کرتے تھے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں تو لڑکپن ہی سے جنگ کی حالت میں تھا۔ ہم زلقی اور رجب علی جیسے خوانین (زمینداروں ) کے ظلم ستم کا شکا ر تھے ہمارے پاس بھی بندوقیں تھیں اور میں شاید تازہ سن بلوغ کو پہنچا تھا اور کمسن تھا۔ ہمارے علاقے میں مورچے بنائے گئے تھے اور یہ لوگ (خوانین) حملہ کرکے لوٹ مار کرنا چاہتے تھے ، اس وقت ہم اس علاقے میں جاکرمورچوں کو دیکھتے تھے۔تین اسفند 1299 ہجری شمسی (1921 ) کو رضاخان کی بغاوت نے جو ناقابل انکار شواہد وثبوت اورتاریخی اسناد کی بنیاد پر برطانیہ کی حمایت سے انجام پائی اورجس کی منصوبہ بندی بھی خود برطانیہ نےکی تھی اگرچہ سلطنت قاجاریہ کاخاتمہ کر دیا اور کسی حدتک زمینداروں کی طوائف الملوکی ختم ہوگئی لیکن اس کے عوض ایک آمر شہنشاہ تخت نشین ہوا اور اس کے زیرسایہ ایران کی مظلوم قوم کی تقدیر پر ہزار خاندان مسلط ہوگۓ اورپہلوی خاندان کی آل اولاد نے زمینداروں اور راہزنوں کی جگہ لےلی۔ ان حالات میں علماء نے جن پر آئيينی انقلاب کے واقعات کے بعد انگریزوں کی آلہ کار حکومت کی یلغار تھی اور دوسری طرف وه مغرب زدہ اور نام نہاد روشن خیال افراد کا نشانہ بن رہے تھے اسلام کے دفاع اور اپنی بقا کے لئے کوششیں شروع کردیں ۔

آیت اللہ العظمی حاج شیخ عبدالکریم حائری نے اس وقت قم کے علما کی دعوت پر اراک سے قم کے لئے ہجرت کی اور اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد حضرت امام خمینی رحمت اللہ نے جو اپنی غیرمعمولی صلاحتیوں کی بدولت خمین اور اراک کے حوزہ علمیہ میں مقدماتی اورسطوح (درس خارج سے پہلے کے دروس) کوپایہ تکمیل تک پہنچا چکے تھے قم کے لئے ہجرت کی اورعملی طورپر قم کے نئےدینی مرکزکی تقویت کے لئے بھرپورطریقے سے کوشش کرنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے آپ کا شمار قم کی چند گنی چنی علمی شخصیات میں ہونے لگا اور آپ فقہ واصول اور فلسفہ وعرفان کے ایک جید عالم کی حیثیت سے معروف ہوگئے ۔

10بہمن 1315 ہجری شمسی ( 30 جنوری 1937 ) کو آیت اللہ العظمی حایری کی رحلت کے بعد حوزہ علمیہ قم کا وجود خطرے میں پڑ گیا۔ چنانچہ حوزہ علمیہ قم کے بہی خواہ علما نے فورا چارہ اندیشی شروع کردی ۔ اس دوران آٹھ برسوں تک آیت اللہ العظمی حجت، آیت اللہ العظمی سید صدرالدین صدر اور آیت اللہ العظمی سید محمد تقی خوانساری رضوان اللہ علیہم نے اس دینی مرکز کی سر پرستی فرمائی۔ اس دوران بالخصوص رضاخان کی حکومت کے خاتمے کے بعد مرجعیت عظمی یعنی ایک بزرگ مرجع کے سامنے آنے کا ماحول سازگارہوگيا۔ آیت اللہ العظمی بروجردی ایک عظیم علمی شخصیت تھے جو مرحوم آیت اللہ العظمی حایری کے مناسب جانشین بن سکتے تھے اور حوزہ علمیہ قم کی زعامت سنبھال سکتے تھے ۔ چنانچہ یہ بات آیت اللہ حایری کے شاگردوں اورخاص طورپر حضرت امام خمینی رحمت اللہ کی طرف سے آیت اللہ بروجردی کے سامنے رکھی گئي اور حضرت امام خمینی رحمت اللہ نے آیت اللہ بروجردی کو بروجرد سے قم تشریف لانے اور حوزہ کی زعامت قبول کرنے کے لئے راضی کرنے کی بھرپورکوشش کی۔ اس دوران حضرت امام خمینی رحمت اللہ نہایت باریک بینی کے ساتھ معاشرے اور حوزہ علمیہ پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے اور حالات حاضرہ کے بارے میں کتابوں اور اخبارات کا مطالعہ کرتے رہتے تھے اور ساتھ ہی تہران رفت و آمد اور آيت اللہ مدرس جیسی عظیم علمی اور سیاسی شخیصتوں سے کسب فیض کیاکرتے تھے۔ چنانچہ آپ یہ سمجھ گئے تھے آئيينی انقلاب اور خاص طورپر رضاخان کے برسراقتدار آنے کے بعد کی ذلت آمیزصورت حال سے نجات کا واحد راستہ حوزہ علمیہ کی بیداری اور علما کے ساتھ عوام کا معنوی رابطہ ہے ۔

حضرت امام خمینی رحمت اللہ نے اپنے مقدس اور الہی مشن کی خاطر 1328 ہجری شمسی ( 1950 ۔ 1949 ) میں آیت اللہ مرتضي حایری کے تعاون سے حوزہ علمیہ کے بنیادی ڈھانچے میں اصلاح کا لائحہ عمل تیار کرکے آیت اللہ العظمی بروجردی کو پیش کیا۔ اس اقدام کا حضرت امام خمینی رحمت اللہ کے شاگردوں اور بیدار طلبہ نے بھرپورخیرمقدم کیا اور اس کی زبردست حمایت کی ۔ 16 مہر 1341( 8 اکتوبر 1962 ) کو صوبائی ضلعی کونسلوں کا بل امیر اسداللہ کی کابینہ میں پاس ہوا جس کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لینے کے لئے امیدوار کے مسلمان ہونے، قرآن کریم کے ذریعہ حلف اٹھانے، رائےدہندگان اور خود امیدوار کے لئے مرد ہونے کی شرط ختم کردی گئ البتہ خواتین کے انتخابات میں حصہ لینے کی آزادی کچھ دیگر مقاصد پر پردہ ڈالنے کے لئے تھی۔ پہلی دوشرطوں کو ختم کرنے کا مقصد بہائی عناصر کوملک کے معاملات میں مکمل طورپر دخیل کرنے کو قانونی شکل دینا تھا کیونکہ شاہ کے لئے امریکہ کی حمایت کی شرط یہ تھی کہ ایران اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دے اور ایران کے تینوں اہم اداروں یعنی مجریہ، مقننہ اورعدلیہ میں سامراجی مسلک بہائيت کے پیروکاروں کی موجودگي اسرائیل کے ساتھ ایران کے تعلقات میں فروغ کویقینی بناسکتی تھی۔ البتہ حکومت نے اس بل کے تعلق سےحالات کا اندازہ لگانے میں سخت غلطی کی چنانچہ اس بل کی منظوری کی خبر شائع ہوتےہی حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نےقم اورتہران کے بزرگ علماء سے صلاح ومشورہ کرنے کے بعد بھرپور احتجاج کیا ۔ شاہی حکومت کے عزائم سے پردہ ہٹانے اوراس حساس صورت حال میں علما اور حوزہ علمیہ کی خطیر ذمہ داریوں کا احساس دلانے میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے بہت ہی اہم کرداراداکیا ۔ شاہ اور وزیراعظم اسداللہ علم کے نام علما اور حوزہ علمیہ کے خطوط اور کھلے مراسلوں نے پورے ملک میں شاہی حکومت کے اس نئے قانون کے خلاف احتجاجی لہردوڑادی۔ شاہ اور وزیراعظم کے نام حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے ٹیلی گراموں کا لب و لہجہ بہت ہی تند اور سخت تھا ۔ ایک ٹیلی گرام میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ فرماتےہیں کہ میں تمہیں ایک بار پھر نصیحت کرتاہوں کہ خداوند متعال کی اطاعت اور بنیادی آئيين کی پیروی کرو اور قرآن، علما قوم اور مسلمان زعما کے احکام کی خلاف ورزی اور بنیادی آئيين سے سرپیچی کے برے انجام سے ڈرو اور جان بوجھ کر اور بلاسبب ملک کو خطرے میں مت ڈالو بصورت ديگر علما اسلام تمھارے بارے میں اپنے نظریے بیان کرنے سے گریزنہیں کریں گے ۔

بہرحال صوبائی اورضلعی کونسلوں کا قضیہ ایرانی قوم کے لئے ایک اچھا تجربہ تھا خاص طورپر اس لئے کہ اس واقعے میں ایرانی قوم نے ایک ایسی شخصیت کو بھی پہچان لیا جو امت مسلمہ کی قیادت کے لئے ہرجہت سے مناسب تھی ۔

صوبائي اورضلعی کونسلوں کی تشکیل میں ناکامی کے باوجود شاہ پر امریکہ کے مجوزہ نام نہاد اصلاحی پروگرام کو آگے بڑھانے کے لئے واشنگٹن کا دباؤ جاری رہا۔ شاہ نے دی ماہ 1341 ہجری شمسی (1963 ۔1962 ) کو انقلاب سفید کے نام پر چھ نکاتی پروگرام کا اعلان کیا اور اس سلسلے میں ریفرنڈم کرائے جانے کی خواہش ظاہر کی ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ ایک بارپھر میدان میں آگئے اور اس سلسلے میں حکمت عملی تیار کرنے کے لئے اور علما قم کا اجلاس بلایا ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی تجویز پر شاہ کے اقدامات کے خلاف بطور احتجاج عید نوروز نہ منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اس سلسلے میں جو اعلامیہ جاری کیا اس میں شاہ کے انقلاب سفید کو انقلاب سیاہ سے تعبیر کیا گیا اور کہاگیا کہ شاہ کے یہ سارے اقدامات امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کی تکمیل کے لئے ہیں ۔

شاہ نے امریکہ کو یہ اطمینان دلا رکھا تھا کہ ایرانی عوام اس پروگرام کے حق میں ہیں ۔ شاہ کے خلاف علما کا احتجاج اس کے لئے کافی مہنگا ثابت ہورہاتھا۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ شاہ کی پرواہ کئے بغیر کھلے عام شاہ کو اسرائیل کا اتحادی قراردیتے تھے اوراس کے ظالمانہ اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے لوگوں کو اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی دعوت دیتے تھے۔ آپ نے بارہ فروردین 1342 (1 اپریل 1963 ) کو اپنے ایک خطاب میں علما قم ونجف اوردیگراسلامی ملکوں کے علما کی طرف سے شاہ کے ظالمانہ اقدامات پر اختیارکی گئی خاموشی پر کڑی تنقید کی اور فرمایاکہ آج خاموشی کامطلب ظالم وجابرحکومت کا ساتھ دیناہے۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اس کے اگلے دن یعنی 13 فروردین 1342 (2 اپریل 1963) اپنا مشہور و معروف اعلامیہ جاری کیا جس کاعنوان تھا شاہ سے دوستی یعنی تباہی وبربادی میں تعاون ۔

حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے کلام میں حیرت انگیز تاثیر اور مخاطبین پر آپ کی باتوں کے گہرے اثر کا راز صحیح فکر، مضبوط نظریئے اور عوام کے ساتھ صداقت میں تلاش کرناچاہئے۔ چنانچہ لوگ بھی آپ کے فرمان پر ہمہ وقت اپنی جان قربان کرنے کو تیار رہتے تھے ۔1342 ہجری شمسی (1964 ۔1963 ) کانیا سال عیدنوروزکے بائيکاٹ سے شروع ہوا اور مدرسہ فیضیہ کے مظلوم طلبہ کے خون سے رنگین ہو گیا۔ شاہ، امریکہ کی مرضی کےاصلاحی پروگرام کو نافذ کرنے پر مصرتھا اور حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ اس سازش سے لوگوں کو آگاہ کرنے اورعوام کو امریکہ کی مداخلت اور شاہ کی خیانت کےمقابلے میں ڈٹ جانے پر راضی کر رہے تھے ۔ چودہ فروردین 1342(3 اپریل 1963 ) آیت اللہ العظمی حکیم نے نجف اشرف سے ایران کے علما کے نام اپنے ٹیلی گرام میں فرمایاکہ سب کے سب ایک ساتھ نجف اشرف کی طرف ہجرت کریں۔ یہ تجویزعلما کی جان کی حفاظت اور حوزہ کے تقدس کو بچانے کے لئے پیش کی گئي تھی لیکن حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر آیت اللہ العظمی حکیم کے ٹیلی گرام کاجواب ارسال کردیا جس میں کہاگياتھا کہ علما کا ایک ساتھ نجف چلاجانا اور حوزہ (قم کے دینی مرکز) کو خالی چھوڑدینا مناسب نہیں ہے ۔

حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے 12اردیبہشت1342 (1922 ۔1921 ) کو شہدائے فیضیہ کے چہلم کی مناسبت سے اپنے ایک پیغام میں غاصب اسرائیل کے خلاف اسلامی ممالک کا ساتھ دینے کے لئے علما اور ایرانی عوام سے اپیل کی اور شاہ اوراسرائیل کے درمیان ہوئے معاہدوں کی مذمت کی.

 



back 1 2 3 4 5 next