امام خمینی )رحمه اللہ ( کی سوانح حیات



امام خمینی (رہ) نے جو دنیا اور ایران کے حالات پر انتہائي گہری نظر رکھے ہوئے تھے ہاتھ آئے موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور آپ نے مرداد ماہ 1356 مطابق انیس سو ستتر میں اپنے ایک پیغام میں اعلان فرمایا کہ اب ملکی اور غیر ملکی حالات اور شاہی حکومت کے جرائم کے عالمی اداروں اور غیر ملکی اخبارات میں بھی منعکس ہونے کی بنا پر علمی حلقوں، محب وطن شخصیتوں، ملک و بیرون ملک ایرانی طلباء اور اسلامی انجمنوں کو جہاں جہاں بھی ہوں یہ چاہئے کہ اس موقع سے فورا" فائدہ اٹھائیں اور کھل کر میدان میں آجائیں ۔یکم آبان 1356 مطابق انیس سو ستتر کو آیت اللہ حاج آقا مصطفی خمینی کی شہادت اور ایران میں ان کے ایصال ثواب کے لئے منعقد مجالس اور پرشکوہ تعزيتی جلسے ایران کے حوزہ ہای علمیہ اور مذہبی حلقوں کے دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے کا نقطۂ آغاز ثابت ہوئے ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اسی وقت انتہائي حیران کن طریقے سے اس واقعہ کو خداوند عالم کے الطاف خفیہ سے تعبیر کیا ۔ شاہی حکومت نے روزنامہ اطلاعات میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی شان میں اہانت آمیز مقالہ شائع کرکے آپ سے انتقام لینے کی کوشش کی ۔اس مقالے کی اشاعت کے خلاف قم میں ہونے والا احتجاجی مظاہرہ، رواں دواں انقلابی تحریک کو مہمیز دینے کاباعث بنا۔ اس احتجاجی مظاہرے کے دوران متعدد انقلابی طلباء شہید اور زخمی ہوئے ۔ شاہ اس احتجاجی مظاہرے میں طلباء کا قتل عام کرنے کے بعد احتجاج کے بھڑکے ہوئے شعلوں کو خاموش نہیں کرسکا ۔

حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی عراق سے پیرس ہجرت "

نیویارک میں ایران اور عراق کے وزرائے خارجہ کی ملاقات میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو عراق سے نکالنے کا فیصلہ کیا گيا ۔ چوبیس ستمبر سن انیس سو اٹھتر کو بعثی حکومت کے کارندوں اور سیکورٹی اہلکاروں نے نجف میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے گھر کا محاصرہ کرلیا۔ اس خبر کے پھیلتے ہی ایران، عراق اور دیگر ملکوں کے مسلمانوں میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ۔چار اکتوبر کو حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نجف سے کویت کی سرحد کی جانب روانہ ہوئے کویت کی حکومت نے ایران کی شاہی حکومت کی ایماء پر آپ کو کویت کے اندر آنے کی اجازت نہیں دی۔ اس سے پہلے لبنان یا شام میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی ہجرت کی باتیں گردش کررہی تھیں لیکن آپ نے اپنے بیٹے (حجۃ الاسلام حاج سید احمد خمینی ) سے مشورہ کرنے کے بعد پیرس جانے کا فیصلہ کیا اور چھے اکتوبر کو آپ پیرس پہنچ گئے ۔ دو دنوں کے بعد پیرس کے مضافاتی علاقے نوفل لوشاتو میں آپ ایک ایرانی کے گھر میں رہائش پذیر ہوگئے۔ الیزہ پیلیس کے عہدہ داروں نے فرانس کے صدر کا یہ پیغام حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو پہنچایا کہ انہیں کسی بھی طرح کی سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہے۔ آپ نے بھی اپنے سخت ردعمل میں فرمایا کہ اس طرح کی بندشیں ڈیموکریسی کے دعووں کے منافی ہیں اور اگر میں مجبور ہوا کہ اس ایئیرپورٹ سے اس ایئرپورٹ اور ایک ملک سے دوسرے ملک (مسلسل) ہجرت کرتا رہوں پھر بھی اپنے مشن سے دستبردار نہیں ہوں گا ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے نومبر انیس سو اٹھتر میں انقلابی کونسل تشکیل دی۔ شاہ سلطنتی کونسل کی تشکیل اور بختیار کی حکومت کے لئے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد سولہ جنوری انیس سو اٹھتر کو ملک سے فرار ہو گیا ۔ شاہ کے فرار کی خبر تہران شہر اور پھر پورے ایران میں پھیل گئی اور لوگ یہ خبر سن کر جشن منانے کے لئے سڑکوں پر نکل آئے ۔

وطن واپسی

جنوری انیس سو اٹھتر میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی وطن واپسی کی خبریں نشر ہونے لگیں۔ جو بھی سنتا خوشی سے اس کی آنکھیں اشکبار ہوجاتیں ۔ لوگوں نے 14 برسوں تک انتظار کی گھڑیاں گنی تھیں ۔ ساتھ ہی امام خمینی (رح) کے چاہنے والوں کو آپ کی جان کی سلامتی کے بارے میں بھی تشویش تھی کیونکہ شاہ کی آلۂ کار حکومت نے پورے ملک میں ایمرجنسی لگا رکھی تھی۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اپنا فیصلہ کرلیا اور ایرانی قوم کے نام اپنے پیغامات میں فرمایا تھا کہ وہ چاہتے کہ ان مستقبل ساز اور فیصلہ کن ایام میں اپنے عوام کے درمیان رہیں ۔ بختیار کی حکومت نے جنرل ہایزر کی ہم آہنگی سے ملک کے تمام ہوائی اڈوں کو غیر ملکی پروازوں کے لئے بند کردیا تھا ۔ مگر بختیار کی حکومت نے بہت جلد پسپائی اختیار کرلی اور عوام کے مطالبات کے سامنے وہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئی۔ امام خمینی (رہ) 12 بہمن 1357 ہجری شمسی مطابق یکم فروری 1979 کو چودہ برسوں کی جلا وطنی کے بعد فاتحانہ انداز میں ایران واپس تشریف لائے۔ ایرانی عوام نے آپ کا ایسا عدیم المثال اور شاندار تاریخی استقبال کیا کہ مغربی خبر رساں ایجنسیاں بھی اس کا اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکیں اور خود مغربی ذرائع ابلاغ کا کہنا تھا کہ تہران میں چالیس سے ساٹھ لاکھ افراد نے امام خمینی (رہ) کا والہانہ استقبال کیا ۔

حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی رحلت ، وصال یار فراق یاران "

حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے مشن ، نصب العین ، نظریات اور وہ تمام باتیں جو لوگوں تک پہنچانی تھیں سب کچھ پہنچا دیا تھا اور عملی میدان میں بھی اپنی تمام ہستی اور پورا وجود الہی اہداف و مقاصد کی تکمیل کے لئے وقف کر دیا تھا۔ اب چار جون 1989 کو آپ اپنے کو اس عزيز ہستی کے وصال کے لئے آمادہ کررہے تھے کہ جس کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لئے آپ نے اپنی پوری عمر مبارک صرف کردی تھی اور ان کا قامت رعنا سوائے اس عظیم ہستی کے حضور کسی بھی طاقت کے سامنے خم نہیں ہوا اور ان کی آنکھوں نے اس محبوب ذات کے سوا کسی اور کے لئے اشک ریزي نہیں کی۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے عرفانی اشعار و غزلیں سب کی سب محبوب کے فراق کے درد و غم اور وصال محبوب کی تشنگي کے بیان سے ہی عبارت تھیں ۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے لئے وہ عظیم اور ان کے شیدائیوں کے لئے وہ جانکاہ لمحہ آن پہنچا ۔آپ نے خود اپنے وصیت نامے میں رقم فرمایا ہے : خدا کے فضل و کرم سے پرسکون دل، مطمئن قلب ، شاد روح اور پر امید ضمیر کے ساتھ بہنوں اور بھائیوں کی خدمت سے رخصت ہوتا ہوں اور ابدی منزل کی جانب کوچ کرتا ہوں۔ آپ لوگوں کی مسلسل دعاؤں کا محتاج ہوں اور خدائے رحمن و رحیم سے دعا کرتاہوں کہ اگر خدمت کرنے میں کوئی کمی یا کوتاہی رہ گئی ہو تو مجھے معاف کردے اور قوم سے بھی یہی امید کرتا ہوں کہ وہ اس سلسلے میں کوتاہی اور کمی کو معاف کرے گي اور پوری قوت، اور عزم و ارادے کے ساتھ آگے کی سمت قدم بڑھائے گی ۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اپنی ایک غزل میں اپنی رحلت سے کئی سال قبل یہ شعر کہا تھا :

" انتظار فرج از نیمہ خرداد کشم سالہا می گذرد و حادثہ ہا می آید"

 

13 خرداد 1368 ہجری شمسی مطابق 3 جون 1989 کی رات 10 بج کر بیس منٹ کا وقت محبوب سے وصال کا لمحہ تھا وہ دل دھڑکنا بند ہوگیا جس نے لاکھوں اور کروڑوں دلوں کو نور خدا اور معنویت سے زندہ کیا تھا۔ اس کیمرے کی مدد سے جو حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے چاہنے والوں نے اسپتال میں نصب کررکھا تھا آپ کی علالت ، آپریشن اور لقائے حق کے لمحات کو ریکارڈ کیا گيا۔ جس وقت ان ایّام کی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے معنوی اور پرسکون حالات کے محض چند گوشوں کی متحرک تصویریں ٹیلی ویژن سے نشر ہوئیں لوگوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی اور دلوں پر یہ تصویریں اتنا گہرا اثر چھوڑ گئیں کہ جن کا سمجھانا اور بیان کرنا ممکن نہیں مگر یہ کہ کوئی خود اس موقع پر موجود رہ کر ان معنوی کیفیات کو درک کرے۔ آپ کے ہونٹ مسلسل ذکر خدا میں مصروف تھے ۔ زندگي کی آخری راتوں میں اور اس وقت جب آپ کے کئی بڑے آپریشن ہوچکے تھے عمر بھی 87 برس کی تھی آپ نماز شب (تہجد) بجا لاتے اور قرآن کی تلاوت کرتے ۔ عمر کے آخری لمحات میں آپ کے چہرے پر غیر معمولی اور روحانی و ملکوتی اطمینان و سکون تھا۔ ایسے معنوی حالات میں آپ کی روح نے ملکوت اعلیٰ کی جانب پرواز کی۔ جب حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت جانگداز کی خبر نشر ہوئی گویا ایک زلزلہ آگیا۔ لوگوں میں ضبط کا یارا نہ رہا اور پوری دنیا میں وہ لوگ جو حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے محبت کرتے تھے رو پڑے، ایران سمیت پوری دنیا میں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے چاہنے والوں میں نالہ و شیون کا شور تھا ۔ کوئی بھی اس عظیم سانحے کے پہلوؤں اور عوام کے جذبات کو بیان کرنے کی سکت و توانائی نہیں رکھتا ۔ ایرانی عوام اور انقلابی مسلمان بجاطور پر اس طرح کا سوگ اور غم منارہے تھے۔ اپنے رہبر و قائد کو آخری رخصت اور انہیں الوداع کہنے کے لئے سوگواروں کا اتنا بڑا سیلاب تاریخ نے کبھی بھی نہیں دیکھا تھا۔ ان سوگواروں نے ایسی ہستی کو الوداع کہا کہ جس نے ان کی پائمال شدہ عزت کو دوبارہ بحال کردیا تھا جس نے ظالم و جابر شاہوں اور امریکی و مغربی لیڈروں کو پسپائي اختیار کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ مسلمانوں کو عزت و وقار عطا کیا تھا۔ اسلامی جمہوری نظام کی تخلیق کی تھی ۔ جس کی بدولت ایرانی مسلمان دنیا کی جابر اور شیطانی طاقتوں کے مد مقابل اٹھ کھڑے ہوئے اور دس برسوں تک بغاوت و کودتا جیسی سینکڑوں سازشوں اور ملکی و غیر ملکی آشوب و فتنہ کے مقابلے میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے رہے اور آٹھ سالہ دفاع مقدس کے دوران تاریخ شجاعت رقم کی۔ جبکہ مد مقابل ایسا دشمن تھا جس کی مشرق و مغرب کی دونوں بڑی طاقتیں وسیع حمایت کررہی تھیں۔ لوگوں کا محبوب قائد ، مرجع تقلید اور حقیقی اسلام کا منادی ان سے جدا ہوگیا تھا ۔

جو لوگ ان مفاہیم کو درک نہیں کرسکے اور یہ سارے واقعات ان کی سمجھ سے بالاتر ہیں اگر حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تدفین اور تشییع جنازہ کی تصویریں اور فلمیں دیکھیں اور حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت کی خبر سن کر آپ کے دسیوں چاہنے والوں اور شیدائیوں کی حرکت قلب اچانک رک جانے اور ان کی موت واقع ہوجانے اور اس سانحے کی تاب نہ لانے کے واقعات سنیں اور تشییع جنازے کے دوران شدت غم سے سینکڑوں بیہوش سوگواروں کو لوگوں کے ہاتھوں اسپتالوں اور طبی مراکز تک پہنچائے جانے کے مناظر، تصویروں اور فلموں میں دیکھیں تو ان کی توصیف کرنے سے عاجز رہ جائیں گے لیکن جنہیں عشق حقیقی کی معرفت ہے اور جنہوں نے عشق کا تجربہ کیا ان کے لئے یہ ساری باتیں اور واقعات سمجھ لینا مشکل نہیں ہے ۔ حقیقت میں ایران کے عوام حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے عاشق تھے اور انہوں نے آپ کی پہلی برسی کے موقع پر کتنا خوبصورت نعرہ انتخاب کیا تھا "خمینی سے عشق تمام خوبیوں اور اچھائیوں سے عشق ہے"

بہرحال چودہ خرداد 1368 مطابق چار جون 1989 ماہرین کی کونسل نے اپنا اجلاس تشکیل دیا اور حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای کے توسط سے حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا وصیت نامہ پڑھے جانے کے بعد کہ جس میں دو گھنٹے لگے حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے جانشین اور رہبر انقلاب اسلامی کے تعین کے لئے تبادلۂ خیال شروع ہوا اور کئی گھنٹوں کے صلاح و مشورے کے بعد حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کو، جو اس وقت اسلامی جمہوریۂ ایران کے صدر تھے اور حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے قریبی شاگرد، اسلامی انقلاب کی ممتاز شخصیتوں اور پندرہ خرداد کی تحریک کے رہنماؤں میں شمار کئے جاتے تھے اور جنہوں نے دیگر انقلابی جانبازوں کے ہمراہ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک کے تمام مراحل میں ہر طرح کی سختیوں اور مصائب و آلام کا سامنا کیا تھا، اتفاق آراء سے اس عظیم و خطیر ذمہ داری کے لئے منتخب کیا گيا مغربی ممالک اور ملک کے اندر ان کے حمایت یافتہ عناصر حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو شکست دینے کی برسوں کی کوششوں کےبعد مایوس ہوچکے تھے اور وہ اس امید میں تھے کہ امام کی رحلت کے بعد وہ اپنی سازشوں اور ناپاک منصوبوں میں کامیاب ہوسکیں گے لیکن ایرانی عوام کے فہم و فراست، ماہرین کی کونسل کے بروقت فیصلے اور اس فیصلے کی امام کے تمام پیروؤں اور چاہنے والوں کی طرف سے بھرپور حمایت سے انقلاب دشمن عناصر کی تمام امیدوں پر پانی پھیر گیا اور نہ فقط یہ کہ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات سے ان کا مشن ختم نہیں ہوا بلکہ اسے نئي زندگی مل گئی۔ کہیں الہی افکار و نظریات اور حقائق کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے!

پندرہ خرداد 1368 مطابق 5 جون 1989 کے موقع پر تہران اور ایران کے دیگر شہروں اور قصبوں و دیہاتوں سے آئے ہوئے دسیوں لاکھ سوگواروں کا ایک سیلاب تھا جو تہران کے مصلائے بزرگ ( عیدگاہ ) میں ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ لوگ اس عظیم مرد مجاہد کو، جس نے اپنی تحریک اور انقلاب سے ظلم و ستم کے سیاہ دور میں انسانی اقدار و شرافت کی خمیدہ کمر کو استوار کردیا تھا اور دنیا میں خداپرستی اور پاک انسانی فطرت کی جانب واپسی کی تحریک کا آغاز کیا تھا، الوداع کہنے کے لئے آئے تھے۔ آپ کے جنازے کی آخری رسومات میں سرکاری رسومات کا کوئی نام ونشان نظر نہیں آتا۔ ساری چیزیں عوامی اور عاشقانہ تھیں ۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا پیکر مطہر جو سبز تابوت میں تھا کروڑوں سوگواروں اور ماتم کنان عزاداروں کے ہاتھوں پر ایک نگینے کی مانند جلوہ نمائی کررہاتھا اور ہر کوئی اپنی زبان سے اپنے محبوب قائد سے وقت رخصت محو گفتگو تھا اور اشک غم بہارہا تھا ۔

درو دیوار پر سیاہ پرچم لگائے گئے تھے اور فضا میں چاروں طرف صرف تلاوت کی آواز سنائی دے رہی تھی اور جیسے ہی رات آئي ہزاروں شمعیں اس مشعل فروزاں کی یاد میں مصلّی بزرگ (عیدگاہ ) اور اس کے اطراف کے ٹیلوں پر روشن ہوگئیں۔ سوگوار و عزادار کنبے ان شمعوں کے گرد حلقہ بنائے بیٹھے تھے اور ان کی نگاہیں ایک نورانی بلندی پر مرکوز تھیں۔ بسیجیوں (رضاکاروں) کی فریاد "یاحسین" نے جو یتیمی کا احساس اپنے سینے میں لئے تھے اور اپنا سر و سینہ پیٹ رہے تھے ماحول کو عاشورائی بنادیا تھا اور چونکہ انہیں یقین ہوگیا تھا کہ اب حسینیۂ جماران میں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی دلنشین آواز نہیں سنائی دے گي اس لئے یہ غم انہیں مارے ڈال رہا تھا۔ لوگوں نے پوری رات مصلی بزرگ (عیدگاہ ) میں گزاری۔ 6 جون 1989 کی صبح ہوتے ہی دسیوں لاکھ سوگواروں نے مرجع تقلید آیت اللہ العظمی گلپایگانی کی امامت میں اشکبار آنکھوں کے ساتھ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے پیکر مطہر پر نماز جنازہ پڑھی۔

12 بھمن 1357 ہجری شمسی مطابق یکم فروری 1979 کو حضرت امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ کی فاتحانہ وطن واپسی اور ان کے استقبال میں شاندار و عدیم المثال اجتماع اور پھر آپ کی آخری رسومات میں سوگواروں کا اس سے بھی عظیم اجتماع تاریخ کے حیران کن واقعات ہیں۔ خبر رساں ایجنسیوں نے یکم فروری سنہ 1979 کو حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی وطن واپسی کے موقع پر استقبال کے لئے آنے والے عاشقوں اور انقلابیوں کی تعداد 60 لاکھ بتائي تھی اور آپ کے جنازے میں شریک سوگواروں کی تعداد 90 لاکھ بتائي جبکہ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی دس سالہ قیادت کے دوران انقلاب سے دشمنی، آٹھ سالہ جنگ اور مغربی و مشرقی بلاکوں کی مشتکرہ سازشوں کی وجہ سے ایرانی عوام نے بے پناہ سختیاں اور مشکلات برداشت کیں اور اپنے بے شمار عزیزوں کو اس راہ میں قربان کیا تھا چنانچہ یہ فطری امر تھا کہ اب ان کا جوش و خروش بتدریج کم ہوجاتا لیکن ایسا ہرگز نہ ہوا ۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے الہی مکتب میں پرورش پانے والی نسل کو حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے اس فرمان پر پورا یقین و اعتقاد تھا کہ اس دنیا میں زحمتوں ،مصیبتوں ، مشکلات ، فداکاری اور جانثاری کی عظمت ان بلند و گرانقدر مقاصد و اہداف کے برابر ہوتی ہے ۔

حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے سوگواروں کا جم غفیر "بہشت زہرا" (تہران کے قبرستان) میں تدفین کے وقت اپنے مقتدا کی آخری جھلک دیکھنے کے لئے بے تاب تھا۔ لوگ ایک دوسرے پر ٹوٹے پڑ رہے تھے جس کی وجہ سے آپ کی تدفین ناممکن ہوگئی تھی اس صورتحال کے پیش نظر ریڈیو سے باربار اعلان کیا گيا کہ لوگ اب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں تدفین کی رسومات بعد میں انجام دی جائیں گی اور بعد میں اس کا اعلان کیا جائے گا۔

ذمہ داران کو بخوبی علم تھا کہ جیسے جیسے وقت گزرے گا لاکھوں عاشقان امام جو دیگر شہروں سے تہران کے لئے روانہ ہوچکے ہیں تشییع جنازہ اور تدفین کی رسومات میں شامل ہو جائیں گے لہذا اسی دن سہ پہر کے وقت سوگواروں فرط غم کے عالم میں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے جسد مطہر کی تدفین کی گئی۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت بھی ان کی حیات مبارک کی مانند ایک اور بیداری و تحریک کا سرچشمہ ثابت ہوئی اور ان کی یاد، تعلیمات و افکار اور ان کا مشن زندہ جاوید بن گیا کیونکہ وہ ایک حقیقت تھے اور حقیقت ابدی و لافانی ہوتی ہے ۔



back 1 2 3 4 5