امام خمینی )رحمه اللہ ( کی سوانح حیات



پندرہ خرداد(4جون) کی تحریک

1342 ہجری قمری (1922 ۔1921 ) کا محرم جو خرداد کےمہینے سے مصادف تھا آن پہنچا ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اس مہینے کو شاہ کی ظالم حکومت کے خلاف عوام کی تحریک میں تبدیل کردیا ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے عاشورہ کی شام مدرسہ فیضیہ میں ایک تاریخی خطاب کیا جو پندرہ خرداد (چارجون) کی تحریک کا نقطہ آغازثابت ہوا۔ حضرت امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے اسی خطاب میں بلند آواز کے ساتھ شاہ کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تجھے نصیحت کرتاہوں کہ اس طرح کے کاموں سے بازآجا۔ تجھے بیوقوف بنایا جارہا ہے۔ میں نہیں چاہتاکہ ایک دن سب لوگ تیرے جانے پر شکراداکريں ... اگر ڈکٹیٹ کرکے سب کچھ تجھ سے کہلوایا جاتا ہے تو تو اس پر ذراغور کر. سن لے میری نصیحت . شاہ اور اسرائیل کے درمیان ایسا کیا رابطہ ہے کہ ساواک کہتی ہے کہ اسرائيل کے بارے میں کچھ مت بولو. کیا شاہ اسرائيلی ہے ؟

شاہ نے تحریک کو کچلنے کا حکم جاری کیا ۔سب سے پہلے چودہ خرداد(3جون) کی شام کو حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے بہت سے ساتھیوں کو گرفتارکیا گیا اور پھر پندرہ خرداد(چارجون) کو صبح صادق سے پہلے ساڑھے تین بجے تہران سے آئے ہوئے سیکڑوں کمانڈوز حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے گھر کا محاصرہ کرلیتے ہیں اور جس وقت آپ نمازشب میں مشغول تھے آپ کوگرفتارکرلیا جاتا ہے۔ خوفزدہ شاہی کمانڈوز انتہائی سراسیمگی کے عالم میں آپ کو قم سے تہران منتقل کرنے کے بعد پہلے تو آپ کو فوجی افسروں کی جیل ميں بند کردیتے ہیں پھر اسی دن شام کو قصر نامی جیل میں منتقل کردیا جاتاہے۔ پندرہ خرداد (چارجون)کی صبح ہی تہران کے علاوہ مشہد شیراز اور دیگرشہروں میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی گرفتاری کی خبر تیزی کے ساتھ پھیل گئی اور قم میں بھی یہی صورت حال پیداہوگئی۔ شاہ کے سب سے قریبی ساتھی جنرل حسین فردوست اپنی سرگذشت میں پندرہ خرداد (چارجون)کی تحریک کوکچلنے میں امریکہ کے کہنہ کار سفارتی اور خفیہ اہلکاروں کے اقدامات اور قریبی تعاون نیز عین اس موقع پر شاہ، دربار، فوج اور ساواک کے سربراہان و اعلی افسران کے خوف وہراس کا ذکر کرتا ہے اور اس کی منظر کشی کرتا ہے کہ شاہ اور اس کے جنرل کس طرح دیوانہ وار اس تحریک کو کچلنے کا حکم جاری کر رہے تھے ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو پندرہ دنوں تک قصر جیل میں رکھنے کے بعد عشرت آباد فوجی چھاؤنی میں منتقل کردیا کیا ۔

تحریک کے رہبر کی گرفتاری اور عوام کے وحشیانہ قتل عام کے بعد بظاہر پندرہ خرداد 1342(5 جون 1963 ) کی تحریک کچل دی گئی ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے قید کے دوران شاہ کی خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کے ایک بھی سوال جواب نہیں دیا اور فرمایا کہ ایران کی حکومت اور عدلیہ غیرقانونی ہے ۔ 18 فروردین 1343( 7 اپریل 1964) کی شام کو کسی پیشگي اطلاع کے بغیر حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کوآزاد کرکے قم ان کے گھر پہنچا دیا گيا۔ عوام کو جیسے ہی حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی رہائي کی اطلاع ملی پورے شہر میں خوشی کی لہر دوڑگئ اورمدرسہ فیضیہ سمیت قم شہر کے گوشہ وکنارمیں کئي دنوں تک جشن منایاگیا۔ پندرہ خرداد کے واقعے اور شہدا کی پہلی برسی کے موقع پر حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ اوردیگر مراجع کرام کے مشترکہ بیان میں شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا گیا اورحوزہ علمیہ قم نے بھی ایک علاحدہ بیان جاری کرکے پندرہ خرداد کے واقعہ کی یاد میں اس دن عام سوگ منانے کا اعلان کیا ۔

حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے چار آبان 1343 (26 اکتوبر 1964) کو اپناانقلابی بیان جاری کیا اور اس میں تحریر فرمایا کہ دنیا کو جان لینا چاہئے کہ ایرانی عوام اور پوری دنیا کے مسلمان آج جس طرح کی بھی مشکلات اور مصائب میں گھرے ہیں اس کا باعث امریکہ اور بیرونی طاقتیں ہیں، مسلمان اقوام کو بیرونی طاقتوں سے عام طور پر اور امریکہ سے خاص طورپر نفرت ہے. یہ امریکہ ہی ہے جو اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی حمایت کرتاہے. یہ امریکہ ہی ہے جو اسرائیل کومضبوط بنارہاہے تاکہ عرب مسلمان بے گھر ہوجائيں۔

کیپچولیشن بل کے خلاف حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کےبیان کےباعث اسی سال آبان( نومبر) کے مہینے میں ایک اور تحریک کاآغازہوگيا ۔

13 آبان 1343 (4 نومبر 1964) کی صبح کو ایک بارپھر مسلح کمانڈوز نے جو تہران سے قم پہنچے تھے حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے گھرکا محاصرہ کرلیا اور حیرت کی بات یہ کہ ان کو ٹھیک اسی حالت میں گرفتارکیا گيا جس حالت میں ایک سال پہلے گرفتارکیاگیا یعنی جس وقت آپ نمازشب میں مشغول تھے۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو گرفتار کرکے سخت پہرے میں مہرآباد ہوائی اڈے پر منتقل کردیا گيا اور پھر وہاں سے ایک فوجی طیارے کے ذریعہ جو پہلے سے تیارکھڑا تھا آپ کو ترکی جلاوطن کر دیا گیا۔ اسی دن شام کو ساواک نے یہ خبر اخبارات میں شائع کی کہ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو ملکی سالمیت کے خلاف اقدام کرنے کی وجہ سے جلاوطن کردیاگیا ۔ اس خبرکے شایع ہوتے ہی پورے ملک میں گھٹن کےماحول کے باوجود احتجاجی مظاہروں اور عام ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ دوکانیں اورتجارتی مراکزبند ہو گئے اور عوامی، سیاسی اور مذھبی حلقوں کی جانب سے عالمی اداروں اور مراجع تقلید کو احتجاجی مراسلے اور ٹیلیگرام بھیجنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس دوران دینی مراکز اور مدارس میں دروس بھی بند رہے۔ ترکی میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی جلاوطنی کی مدت گیارہ مہینے کی رہی۔ اس درمیان شاہی حکومت نے انتہائی سختی کے ساتھ انقلابی عناصرکو کچلنے میں کوئی کسر نہيں چھوڑی اور حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی عدم موجودگي میں امریکہ کی مرضی کی اصلاحات کے پروگرام پر تیزی کے ساتھ عمل کرناشروع کردیا۔ ترکی میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی جلاوطنی سے حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو یہ بہترین موقع ملا کہ آپ اپنی معروف فقہی کتاب تحریرالوسیلہ کی تدوین کا کام شروع کریں۔

تیرہ مہر 1343(5 اکتوبر 1964) کو امام خمینی (رہ) اپنے بڑے بیٹے آیت اللہ الحاج آقا مصطفی خمینی کے ہمراہ ترکی سے عراق بھیج دئے گئے ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ بغداد پہنچنے کے بعد کاظمین ، سامرا اور کربلا میں ائمہ اطہارعلہیم السلام اور شہدائے کربلا کی زيارت کے لئے روانہ ہوگئے اور ایک ہفتے کے بعد اپنی قیام گاہ یعنی نجف اشرف پہنچے۔ نجف اشرف میں آپ کے تیرہ سالہ قیام کا آغاز ایسے عالم میں ہوا کہ اگرچہ وہاں بظاہر ایران اور ترکی کی طرح بندش اور گھٹن نہیں تھی لیکن دشمن کے محاذ کی طرف سے مخالفتوں ، آپ کے راستے میں رکاوٹوں اور طعنہ زنی کا سلسلہ شروع ہوگیا اور نہ صرف کھلے دشمنوں بلکہ عالم نمانام نہاد اور دنیا پرست عناصر کی طرف سے حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے خلاف اقدامات اور بیان بازیاں اس قدر وسیع پیمانے پر اور اذیت ناک حد تک پہنچ گئي تھیں کہ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اپنے تمام تر صبر و تحمل کے باوجود جس کے لئے آپ خاص شہرت رکھتے تھے بارہا ان برسوں کو اپنی جدوجہد کے انتہائي سخت اورتلخ ترین سال سے تعبیر کیا لیکن یہ مصائب و آلام آپ کو آپ کو اپنے مشن سے باز نہ رکھ سکے ۔

حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے تمام تر مخالفتوں کے باوجود اپنے دروس خارج فقہ کا سلسلہ آبان ماہ 1344(نومبر1965) میں نجف اشرف میں واقع مسجد شیخ انصاری میں شروع کیا جو عراق سے پیرس کے لئے آپ کی ہجرت تک جاری رہا ۔

آپ کے دروس خارج کو کیفیت و کمیت کے اعتبار سے نجف اشرف میں دئے جانے والے دیگر دروس خارج میں اعلی ترین دروس میں شمار کیا جاتا تھا ۔



back 1 2 3 4 5 next