شہروں کے بسنے اور ان کے ناموں کی تبدیلی میں اسلامی تہذیب کا کردار

سيد امجد علي زيدي


اس کی وضاحت اس طرح ہے: آستانہ اشرفیہ کا پہلا نام ”کوچان“تھا آج یہ شہر، چھوٹے شہروں کا مرکز ہے، مقامی تلفظ میں اس کو ”پیلہ آسونہ“ کہتے ہیں، کاشانی نے تاریخ الجایتو میں اس کا نام ”کوچیان“ بتایا ہے، دوسرے احتمال بھی اس کی طرف منتہی ہوتے ہیں، آقا سید حسن یا سید ابراہیم معروف یہ سلطان جلال الدین اشرف علیہ السلام امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے فرزندارجمند کے دفن کے بعد آہستہ آہستہ ”کوچیان“ کا نام بھلادیا گیا اور آستانہ اشرفیہ کا نام رائج ہوگیا (رابینو نے بھی اس کا نام آستانہ ہی بتایا ہے اور اس کے بارے وضاحت بھی کی ہے اس کے قول کے مطابق ریشم کی فصل کے اٹھنے کے موسم میں لوگ پورے ایران سے زائرین اس زیارتگاہ کی طرف آتے تھے وہ بڑا بازار جو اس شہر میں بنایا گیا ریشم کا کاروبار کرنے والوں کے لئے فائدہ کا ایک بڑا مرکز تھا(۱۲)

مرکزی صوبے میں آستانے کا قدیم نام ”کرج“ تھا ، ۹۰۸ھ ق میں شاہ اسماعیل صفوی نے سلطان مراد بایندری (یہ شخص حکومت کا مدعی تھا) کو شکست دی اس فتح کی خوشی میں حکم صادر کیا کہ کرج میں واقع آستانہ امامزادہ ”سہب بن علی“ کو اچھی طرح تعمیر کرایا جائے اور اس میں ایک بڑا گنبد اور زیارتگاہ بنائی جائے، اس وقت سے شہر کرج کو آستانہ کہا جانے لگا، آستانہ کا نام ”بویین کرج“ تھا اس کو ”بویین کرہ“ بھی کہتے تھے، اس شہر نے مامون اور امین کی جنگ کے دوران کے غیر جانبداری کا اعلان کیا تھا اور یہ ہی اس کی ویرانی کا سبب ہوا ، اس کا بچا کھچا حصّہ مغلوں کے حملے میں ویران ہوگیا، بویین کرہ کی ویرانی کے بعد اس کے کچھ رہنے والوں نے کرج (جو تہران کے نزدیک ہے) کو آباد کرلیا اور کچھ دوسروں نے بویین زہرا نامی شہر بنالیا اور کچھ لوگوں نے ادریس آباد (شاہ زند) کو بطور سکونت اختیار کیا(۱۳)

ج: آبادیوں کا ایک دوسرا مجموعہ لوگوں کے مذہبی اعتقادات کے سبب یاکسی مہم حادثہ کے زیر اثر مسلمانوں کی توجہ کا مرکز قرار پایا، اس کا واضح نمونہ آخری چند دہائیوں میں صوبہٴ یزد میں واقع ابوالفضل نامی شہر ہے اس شہر کی بنیاد ۱۳۵۳ھ ش میں حضرت ابوالفضل العباس کے مبارک نام پر ایک مسجد کی تعمیر کے ذریعہ ڈالی گئی اگرچہ یہ شہر یزد ، بندر عباس اور کرمان کی سرحدوں پر واقع ہونے کی وجہ سے بہت سے امتیازات کا حامل ہے لیکن حقیقت میں اس شہر کی بنیاد کا راز وہ ہی حضرت عباس علیہ السلام کےنام نامی پر بنائی گئی مسجد ہے، یہ مسجد سیّاحوں خصوصاً بھاری گاڑیوں کے ڈرائیوروں کے لئے بہت سے زیادہ عقیدت کی حامل ہے، کیونکہ بہت زیادہ جستجو کے بعد یہ نتیجہ نکلا ہے کہ اس مسجد سے پہلے اس جگہ پر ابادی کا کوئی وجود نہ تھا ، مشہور ہے کہ ابوالفضل العباس علیہ السلام کے معتقد ڈرائیور نے ایک حادثہ میں جان بچنے کے سبب آپ کے نام پر ایک مسجد کی تعمیر کا ارادہ کیا اس کار خیر میں کچھ خیّرین نے بھی اس کی مدد کی ، آخرکار ایران کے بیابان کے قلب میں جہاں ظاہراً آبادی کا کوئی نام ونشان نہ تھا کوئی مناسب عمارت بھی نہیں تھی ایک مسجد وجود میں آگئی دیکھتے ہی دیکھتے بڑی تیزی کے ساتھ ترقی ہونے لگی اور یہاں پر ایک چھوٹا سا شہر بس گیا(۱۴)

ایسی ہی آبادیوں کا ایک نمونہ کہ جو مومنین کے اعتقاد کی وجہ سے موجود میں آئیں اور وسیع ہوئی، صوبہ اصفہان میں واقع شہر ”نجف آباد“ ہے اس کا قصّہ یہ ہے کہ شاہ عباس صفوی نے تقریباً ۱۰۲۳ھ ق میں کچھ پیسہ اور جواہرات حضرت علی علیہ السلام کی بارگاہ کے لئے نجف اشرف بھیجنے کا ارادہ کیا، شیخ بہائی اس ارادہ سے مطلع ہوتے ہیں، وہ چونکہ معتقد تھے کہ پیسے کا اتنا بڑا ذخیرہ کا ملک سے باہر جانا ملک کی مصلحت کے منافی ہے ، لہٰذا وہ بادشاہ کو اس ارادہ سے منصرف کرنے کے لئے ایک تدبیر سوچتے ہیں اور بادشاہ سے کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں حضرت علی علیہ السلام کی زیارت کی ہے ا نھوں نے فرمایا ہے کہ نجف کو تمھاری اس جواہرات کی ضرورت نہیں ہے اس کو نجف آباد نامی شہر بسانے میں اور اس میں عمارتیں بنوانے میں خرچ کرو، شاہ عباس اس بات کو قبول کرلیتا ہے اور اس شہر کی عمارتیں بنوانے کا حکم صادر کردیتا ہے اور تاکید کرتا ہے کہ اس کا نام نجف آباد رکھا جائے(۵)

ایسا ہی آبادیوں کا ایک نمونہ کہ جو مومنین Ú©Û’ مذہبی اعتقاد Ú©ÛŒ وجہ سے بسائی گئیں لرستان صوبہ میں واقع امامزادہ قاسم Ú©ÛŒ بستی بنام ”جاپلق“ ہے یہاں پر امامزادہ قاسم اور امامزادہ زید Ú©Û’ مقدس مزارات ہیں یہ بستی ”ازنا“ شہر سے Û³Û°/ کلومیٹر Ú©Û’ فاصلہ پر واقع ہے، یہ بستی اس سے پہلے ”کندہ سفید“ نام سے موسوم تھی اور اس کا جائے وقوع ”ازنا“ شہر سے ”شازند“ جانے والے راستے میں ایک سرسبز جنگل میں تھا جو اس وقت ”الیگودرز“ نامی شہر کا ایک دیہات شمار ہوتا تھا، اہل بستی Ú©Û’ کہنے Ú©Û’ مطابق سید احمد المدنی مقلب بہ میر نظام الدین اپنے بیوی بچوں Ú©Û’ ساتھ امام علی بن موسی الرضا﷼ Ú©ÛŒ زیارت Ú©ÛŒ غرض سے ایران آتا ہے ایک منزل بنام ”کندہ سفید“ پر یہ چھوٹا سا قافلہ آرام کرتا ہے رات Ú©Ùˆ سید احمد اُن Ú©Û’ خواب میں ایک بزرگ آتے ہیں اور اپنے آپ Ú©Ùˆ امام حسن علیہ السلام Ú©Û’ فرزند Ú©Û’ عنوان سے پہچنواتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں اس جگہ دفن ہوں اور میرے برابر میں امام Ú©Û’ فرزندوں میں ایک قاسم بن زید نامی فرزند بھی دفن ہیں یہ بزرگ قبروں Ú©Û’ نشانات Ú©Ùˆ دکھانے Ú©Û’ بعد کہتے ہیں کہ تم اپنے جدّ Ú©ÛŒ قبر Ú©ÛŒ تعمیر کراؤ، سید احمد مدنی خواب Ú©Û’ اس واقعہ Ú©Ùˆ اپنے ساتھیوں Ú©Ùˆ بتاتا ہے اور اس جگہ Ú©Ùˆ مناسب جائے سکونت ہونے Ú©ÛŒ وجہ سے اپنا محل سکونت اختیار کرنے کا ارادہ کرلیتا ہے  لہٰذا سید احمد مدنی (میرنظام الدین) اس گاؤں Ú©Ùˆ خرید لیتا ہے اوراپنے اجداد Ú©ÛŒ قبروں Ú©Ùˆ کھود کر جنازوں Ú©Ùˆ کہ جو اہل بستی Ú©Û’ قول Ú©Û’ مطابق بالکل تازہ تھے، مناسب جگہ دفن کردیتا ہے، اس وقت یہ مقدس اور متبرک بارگاہ جغرافیائی اعتبار سے امامزادہ قاسم Ú©Û’ نام سے مشہور ہے(Û±Û¶)

د: آبادیوں کا ایک مجموعہ وہ شہر یا دیہات ہیں کہ یا تو اسلام Ú©Û’ بعد ان کا نام بدل دیا گیا یا کوئی خاص لقب دے یا گیا، انھی شہروں میں سے ایک شہر ”یثرب“ ہے کہ اسلام Ú©Û’ بعد جس کا نام مدینہ ہوگیا، پیغمبر اکرم  (صلی الله علیه Ùˆ آله وسلم) Ú©ÛŒ سیرت طیّبہ میں اس طرح آیا ہے کہ آپ شہروں Ú©Û’ برے ناموں Ú©Ùˆ پسند نہ فرماتے تھے اور ان کا نام بدل دیتے تھے (ان رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کان یغیر الاسماء القبیحہ فی ․․․البلدان) مثلاً آپ Ù†Û’ ہجرت Ú©Û’ بعد یثرب کا نام مدینہ رکھ دیا(Û±Û·) مدینہ کاپہلا نام طیبہ تھا، بہت زیادہ بارشوں Ù†Û’ اس شہر Ú©ÛŒ آب وہوا Ú©Ùˆ گوارا اور مناسب بنادیا تھا لہٰذا مقامی لوگوں Ù†Û’ اس سرزمین کا نام طیبہ (پاک وپاکیزہ) انتخاب کیا تھا لیکن غیر مقامی عرب لوگ کہ جو خشک اور بیابانی ہوا Ú©Û’ عادی ہوچکے تھے اور زیادہ بارش Ú©ÛŒ وجہ سے پریشان ہوجاتے تھے انھوں Ù†Û’ اس کا نام یثرب (اذیت دینے والا) رکھ دیا تھا ØŒ پیغمبر اکرم  (صلی الله علیه Ùˆ آله وسلم) بھی اس میں ہجرت Ú©Û’ بعد یہاں Ú©ÛŒ مرطوب ہوا Ú©ÛŒ وجہ سے مریض ہوگئے تھے جس سے آپ Ú©Ùˆ اذیت بھی ہوئی تھی لیکن آپ Ù†Û’ اس کا نام ”مدینہ “ (شہر) رکھ دیا (Û±Û¸) عثمان بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ خداوندعالم Ù†Û’ مدینہ Ú©Ùˆ ”الدار والایمان“ کہا ہے (Û±Û¹) ابراہیم بن ابی یحییٰ سے روایت ہے کہ توریت میں مدینہ Ú©Û’ گیارہ نام ذکر ہوئے ہیں: ۱۔مدینہ ØŒ ۲۔طیبہ، ۳۔طابہ، ۴۔المسکینہ، ØŒ ۵۔جابرہ، ۶۔المجبورہ، ۷۔المرحومہ، ۸۔العذراء، ۹۔المحبہ، ۱۰۔المحبوبہ، ۱۱۔العاصمہ، زید بن اسلم سے روایت ہے کہ رسول خدا  (صلی الله علیه Ùˆ آله وسلم) Ù†Û’ فرمایا : مدینہ Ú©Û’ دس نام ہیں(Û²Û°) قرآن مجید میں مکہٴ مکرّمہ کو”ام القریٰ“ اور ”البلدا منا“ Ú©Û’ لقب سے یاد کیا ہے، سورہٴ مبارکہ ”شوریٰ“ Ú©ÛŒ ساتویں آیت میں مکہ مکرمہ Ú©Ùˆ ”ام القریٰ کا لقب دیا گیا ہے <وَکَذَلِکَ اٴَوْحَیْنَا إِلَیْکَ قُرْآنًا عَرَبِیًّا لِتُنْذِرَ اٴُمَّ الْقُرَی وَ․․․>” اسی طرح ہمنے تمھاری طرف عربی قرآن Ú©ÛŒ وحی نازل Ú©ÛŒ تاکہ تم ام القری (مکہ میں رہنے والوں) Ú©Ùˆ ڈراؤ، سورہٴ مبارکہ ابراہیم Ú©ÛŒ Û³Ûµ ویں آیت میں ارشاد ہورہا ہے: <وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیمُ رَبِّ اجْعَلْ ہَذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَ․․․․>

قابل ذکر ہے کہ ایران میں بھی القاب اور عناوین دینا رائج تھا گذشتہ چند دہائیوں میں ایران کے۶۶/ شہروں کے نام بدلے گئے اور بہت سے شہروں کو نئے لقب دیئے گئے ، شورای عالی انقلاب فرہنگی نے تصویب کیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے شہر، ظاہری اور باطنی لحاظ سے اسلامی تہذیب کی تاریخ اور جغرافیہ کے نومنے ہونا چاہیے لہٰذا اس قانون کو جاری کرنے کے لئے نام دینے والے تمام افسروں سے کہا گیا ہے شہروں کے نام رکھتے ہیں حتی المقدور اسلامی تہذیب کی ایرانی یا دوسرے ملکوں کی بڑی تاریخی شخصیتوں کے ناموں سے استفادہ کیا جائے ، اسلامی انقلاب کے بعد بہت سے شہروں کے نام کی تبدیلی بھی اسی پروگرام کے تحت عمل میں آئی ہے جیسے ”رضائیہ“ کو ”اورمیہ“ ، ”شاہ آباد غرب“ کو ”اسلام آباد غرب“، ”شاہ رود“ کو ”امام شہر“، ”شاہی“کو ”قائم شہر“،”ہمایوں شہر“ کو ”خمینی شہر“، ”شہشوار“ کو ”تنکابن“، ”بندرشاہ“ کو ”بندرترکمن“، ”آریا شہر“، (یزد) کو” آزاد شہر“ وغیرہ کہا جانے لگا (۲۱) بہت سے القاب اور عناوین جو شہروں کے دئے گئے ہیں وہ بھی ملک ایران کے اسلامی تہذیب سے متاثر ہونے کے کی حکایت کرتے ہیں، جیسے قم کا لقب دارالایمان اور دارالمومنین، یزد کا لقب ”دارالعبادہ“ اردستان کا لقب دارالعرفان وغیرہ، یا وہ القاب جو انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد بہت سے شہروں کو دیئے گئے، جیسے قم کو شہر خون وقیام یا شہر علم واجتہاد، خرم شہر کو خونین شہر، دزفول کو شہر حماسہ و ایثار کا لقب دیا گیا۔

مذکورہ آبادیوں کے علاوہ ظہور اسلام کے بعد بہت سے شہر ایسے ہیںجن میں ردّوبدل واقع ہوئی یا ان کی آبادی میں اضافہ ہوا، جیسے نیشاپور، غزنین، اصفہان، بلخ، ری، ہمدان، بخارااور یزد ، ان شہروں کی آبادی اور رونق، اسلام کی مرہون منت ہے۔

حوالے:

۱۔ میر محمد، حمید رضا ”پژوہشی برمکانہای ملقب یہ مشہد در ایران“ فصل نامہ، مشکوٰة،شمارہٴ ۴۸،پائیز۱۳۷۴، ص۶۴․



back 1 2 3 4 next