غدیر کے سلسله میں وھابیوں کے ا عتراضات کی تحقیق



<۔۔۔کُتِبَ عَلَیْکُمْ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ ۔۔۔>[9]

”اسی طرح تم پر روزے لکھ دیئے گئے ھیں جس طرح تمھارے پھلے والوں پر لکھے گئے تھے ۔“

شیخ شلتوت اپنی کتاب ”الفتاویٰ“ میں اس سوال کے جواب میں لکھتے ھیں کہ جس میں ان سے سوال کیا گیا تھا کہ مغربی ممالک سے آنے والی ٹوپیوں کا پھننا کیسا ھے؟ تو انھوں نے جواب دیا:

 ÛŒÛ کھنا صحیح نھیں Ú¾Û’ کہ یہ ٹوپیاں غیر مسلم اور غیر اسلامی شعار میں سے ھیں، بلکہ ان Ú©Ùˆ مسلمان اور غیر مسلمان سبھی پھنتے ھیں، اور جب مسلمان اس طرح Ú©Û’ ٹوپیوں Ú©Ùˆ پھنتے ھیں تو غیر مسلمانوں Ú©Û’ دین سے مشابہت کا رادہ نھیں ھوتا، بلکہ وہ گرمی یا سردی سے بچنے Ú©Û’ لئے پھنتے ھیں۔ لہٰذا ان Ú©Û’ پھننے میں کوئی حرج نھیں ھے۔“[10]

دوسرے: کسی عمل کے جائز ھونے میں قرآن مجید اور سنت رسول سے مطابق ھونا معیار ھوتا ھے؛ چاھے وہ دوسروں سے مشابہ ھو یا نہ، اور ھم نے جشن و محفل کو خاص و عام دلیلوں کے ذریعہ ثابت کردیا ھے۔

تیسرے: جیسا کہ شیخ شلتوت کے کلام سے معلوم ھوتا ھے کہ عیسائیوں کی مشابہت سے مقصود ان کے مخصوص کاموں میں مشابہت ھے جیسے صلیب اور ناقوس بجانا، نہ کہ ھر عمل میں مشابہت مراد ھے۔

پانچواں اعتراض:سلف صالح نے اس عمل کو انجام نھیں دیا ھے۔

جواب:اول: اصول میں یہ بات ثابت ھوچکی ھے کہ معصوم کا کوئی کام نہ کرنا ، اس کام کے حرام ھونے پر دلیل نھیں ھے، بلکہ صرف کسی کام کا نہ کرنا اس کام کے واجب نہ ھونے اور کسی فعل کا انجام دینا اس کے حرام نہ ھونے پر دلالت کرتا ھے۔ لہٰذا کسی عمل کا صرف انجام نہ دینا اس کے حرام ھونے پر دلیل نھیں ھے۔

دوسرے: ابن تیمیہ کے زمانہ سے پھلے مسلمانوں کا عمل اور سیرت اس طرح کی محفل کرنے پر قائم تھی، اور اھل سنت اس بات کے قائل ھیں کہ اجماع حجت ھے۔

تیسرے: جیسا کہ ابن تیمیہ کے کلام میں بیان ھوا ھے: رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی نسبت سلف صالح کی محبت زیادہ تھی، اور اگر یہ عمل جائز ھوتا تو وہ بھی انجام دیتے؛ یہ کلام احادیث نبوی کے برخلاف ھے، کیونکہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اپنے صحابہ سے خطاب کرتے ھوئے فرمایا ھے:



back 1 2 3 4 5 next