مرکزی ایشیا میں اسلام کی نئی زندگی



فرغانہ کے علاقے میں مسلمانوں کی آبادی بیس فیصد کمی ہوگئی تھی ان میں کتنے لوگ وبائی امراض کے پھیلنے کی وجہ سے مرے اور کتنے افرا جنگ میں مارے گئے کسی کے لئے مشخص نہیں ہے ۔ مرنے والوںکی صحیح اور دقیق تعداد کا توعلم نہیں ہے لیکن ان داخلی جنگوں میں کم سے کم دس لاکھ آدمی جاں بحق ہوئے ۔

۱۹۱۹ءء سے ۱۹۲۵ءء تک حکومت کا اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں محدود اور درمیانہ نظریہ تھا، سوشیالسٹی حکومت چاہتی تھی کہ مسلمانوں کو ٹھنڈا رکھا جائے کیونکہ سوشیالیسٹی قانون کے سایہ میں مسلمانوں کو ان کے مذہبی حقوق دینا روسی ترازیوں کے حقوق دینے سے زیادہ بہتر ہے اورےہ لوگ حکومت کے لئے زیادہ کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں، لہٰذا خود لینین نے کہ جو اس طرح کی تھیوری کے مروجین میں سے تھا اجازت دی کہ مسلمان اپنی کچھ مساجد اور مدرسوں کو کہ جن کو فوج نے مسمار کردیا تھا دوبارہ بنالیں لیکن یہ سازش زیادہ دن تک نہ چل سکی، جب اسٹالین اپنی خاص چالاکیوں کی وجہ سے حکومت پر مسلّط ہونے میں کامیاب ہوگیا تو اسلام اور مسلمانوں کے اوپر بلاواسطہ حملوں کی تجویز پاس کی گئی، مدارس اور مساجد کومسمار کرایا جانے لگا، یا بند کردیا گیا، بہت سی تاریخی مساجد کہ جو لکڑی کی بنی ہونے کی وجہ سے مشہور اور اسلامی معماری کا شاہکار تھیں، جلادیا گیا، مال اور جائدادیں اور اوقاف ہڑپ کرلیے گئے، دروس اور مباحث اسلامی کو ممنوع قرار دے دیا گیا ۔ شریعت کی عدالت ختم کردی گئی، سیکڑوں اور ہزاروںں مسلمانوں کو جسمانی اذیتیں پہنچائی گئیں یا ان کو قتل کردیا گیا، ، یہاں تک کہ جدّت پسند اور روشن فکروں کے رہنماؤں کو کہ جو کومنسٹوں کے ہمراہی اور ہمفکر تھے وہ بھی امان میں نہ تھے، ان کو ماسکو لایا جاتا تا کہ آگ کے سپرد کیا جائے (۴۱) ۱۹۰۲۰ءء کے آخر تک ۱۰ لاکھ سے زیادہ مسلمانوں نے افغانستان کی طرف ہجرت کی، مہاجروں کے دوسرے قافلوں نے ترکی، وسطی ایشیا یہاں تک کہ ہندوستان میں جاکر پناہ لی ۔

سودیت یونین Ú©Û’ مسلمانوں کا اپنی تہذیب اور اپنے کلچر سے جدا ہونے اور مذہبی جماعتوں سے قطع رابطہ Ú©Û’ ساتھ ان Ú©ÛŒ زبان Ú©Û’ الف باء بھی ۱۹۲۸ءء میں عربی سے ”لاتینی“ زبان میں اور اُس Ú©Û’ بعد  ۱۹۴۰ءء میں ”سریلیک“ زبان میں تبدیل ہوگئے (Û´Û²) شادی بیاہ Ú©ÛŒ مذہبی رسمیں بے اعتبار اور معیوب سمجھی جانے لگیں، ہر اسلامی عمل Ú©Û’ معیار اور اقدار جیسے روزہ، نماز، حج اور ختنہ Ú©Û’ اوپر سوالیہ نشان لگایا جانے لگا Û”

اسٹالین کے مرنے کے بعد خروش چوف نے اسلام کے خلاف ایک دوسری مہم کا آغاز کیا اور وہ یہ کہ اُس نے اسلام کو مارکیسزم اور لینیزم کی آئیڈیولوجی کے برعکس خطرناک دشمن قرار دیا لیکن اس کی یہ حرکت اسٹالین کےنظریہ یعنی مذہب کے مقابلملائم رویہ اور لینین کے قوانین سے انحراف کے سبب شدید محکومیت کی شکار ہوئی ۔

اس کے زمانہٴ حکومت میں سوویت یونین کی تاریخ میں سب سے خطرناک اسلام مخالف یہ ہی تحریک تھی (۴۳) ۱۹۶۰ءء کی دہائی کے اوائل میں مرکزی ایشیا کے تاشقند شہر کی یونیورسٹی میں منکران خدا کی ایک جماعت کی تاسیس ہوئی ۔

سوویت یونین Ú©Û’ مختلف مسلمان نشین جمہوری ممالک میں  ۱۹۶۰ءء Ú©Û’ بعد اسلام مخالف اسناد جیسے فیلم، ڈرامے تصاویر وغیرہ دکھانے Ú©ÛŒ مہم شروع Ú©ÛŒ گئی، ضدّ دین اور ضدّمذہب Ú©Û’ مرکزی ایشیا Ú©Û’ مختلف شہروں عجائب گھربنائے گئے Û”

خدا کے انکار کا ایک عجائب گھر بخارا کی ایک قدیم مسجد میں نقشبندی صوفیوں کے مقبروں کے نزدیک کھولا گیا، مسجدوں کے بند کرنے کی کینہ توزی اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ زیادہ تر بڑی مسجدوں کو بند کردیا گیا اور تقریباً دیہاتوں کی چھوٹی تمام ہی مسجدوں میںتالے لگادئیے گئے، ۱۹۴۷ءء اور ۱۹۷۵ءء کے درمیان روس میں اسلام مخالف ۹۲۳ کتابیں اور کتابچے مسلمانوں کی ۲۱ زبانوں میں نشر کئے گئے، یہ تعداد دوسری اسلام مخاف کتابوں کے علاوہ ہے ۔ (۴۴) ۱۹۶۴ءء میں روس کے ایک محقق کی تحقیق کے مطابق روشن ہوا کہ مساجد اور دیگر مذہبی مراکز کی قلت کے باوجود مسلمانوں کی تعداد پہلے جیسی ہی تھی، اسلام مخالف پروپیکنڈے مسلمانوں کو متعاقد کرنے اور ان کو اپنے عقائد سے دست بردار کرنے میں ناکام رہ گئے (۴۵) مسلمانوں اور روسیوں کے درمیان معاشرتی تاثیر وتاثر ایک ظاہری امر تھا، آپس میں نسلی ملاپ بہت کم تھا، نسلی اور نژادی انفکاک خصوصاً دیہاتوں میں اپنی پہلی حالت پر باقی تھا، شہروں میں معاشرتی میل جول کا فقدان ان کو ایک دوسرے سے جدا کرتا تھا، مسلمانوں اور روسیوں کے درمیان شادیاں بہت کم ہوتی تھیں، یہاں تک کہ ایک مسلمان مرد کی روسی عورت کے ساتھ شادی کرنا بالکل غیرمعمول اور رائج نہ تھا (۴۶)

۱۹۸۰ءء کے اواخر میں جب سے میخائل گورباچوف کے ہاتھ میں سوویت یونین کا اقتدار آیا تو اس کی سیاست یعنی ”پروسٹوریکا“ اور ”گلاسٹوسٹ“ مرکزی ایشیا پر موثر ثابت ہوئی، اس کا سب سے بڑا نتیجہ اسلام سے ہماہنگ آئین کا قبول کرنا ظاہر ہوا، یہ تبدیلی مقامی افراد کے لئے تعجب اور اشتیاق کا سبب ہوئی، یہ سیاست ایک تہذیبی، اجتماعی اور مذہبی حادثہ تھا اور عام لوگ چاہتے تھے کہ کومنسٹوں کی مسلّط تہذیب اور کلچر سے اپنی جدا ئی کو ثابت کریں، کئی نئی مسجدیں بنائی گئیں اور بہت سے علاقوںمیں چند ایک غیر رسمی مذہبی دروس شروع ہوگئے ، اگرچہ ابھی تک حکومت کے کلیدی عہدہ دار کومنسٹ پارٹی سے تھے اور مذہبی رسومات کا انجام دینابھی ممنوع تھا لیکن اس کے باوجود حکومت، اسلام کو دوبارہ زندہ کرنے کی تشویق دلاتی تھی، مذہب کی حیات نو کے ساتھ ساتھ صوفیزم میں بھی کہ جو مرکزی ایشیا میں جڑ پکڑے ہوئے تھا، زندگی کی ایک لہر دوڑ گئی ۔

صدیوں تک صوفی گری مرکزی ایشیا میں اسلام کے درخت کی سب سے پُربار شاخ رہی تھی، یہاں تک کے سات دہائیوں کے گذرنے کے بعد بھی ایک ۸۶سالہ ”شیخاصفراپر“ نامی خاتون پا میر میں ایک صوفی کے مقبرے کی متولی تھی (۴۷)

سوویت یونین کے انحلال کے بعد اسلام ان جمہوریوں کی آئیڈیالوجی بدلنے اور اپنے نظریات پیش کرنے کے لئے آمادہ تھا ۔اس کے بعدسے اسلامی تہذیب کا موضوع روز ناموں اور رسالوں کے سرورق پر اپنی موجودیت کا اعلان کرنے لگا، عربی اور اسلامی کتابیں چھاپی جانے لگی، ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشن ،مذہی راہنماؤں کو تقریروں کی اجازت دینے لگے اور بہت سے مذہبی پروگرام جیسے نماز عید کو کو ٹی وی سے نشر کیا جانے لگا تھا ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 next