علی (علیہ السلام) کوکس جرم کی وجہ سے قتل کیا گیا



عدالت کے علاوہ کوئی اور چیز عوام الناس کی اصلاح نہیں کرسکتی۔

علی (علیہ السلام) کی نظر میں معاشرہ کے فساد کو صرف عدالت جاری کرکے ختم کیا جاسکتا تھا اور معاشرے کے درد کی دوا بھی اجرائے عدالت تھی اسی وجہ سے آپ عدالت کو جاری کرنے کی نصیحت کرتے تھے اور حاکموں کے لئے عدالت کو ضروری سمجھتے تھے ، اگر آپ خود خلافت کو حاصل کرنا چاہتے تھے تو وہ بھی سنت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور عدالت کو قائم کرنے کے لئے ۔ حکومت کے ذریعہ اپنے آپ کو خوش کرنے اور ر لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ نے کے لئے نہیں (٩) ۔

آپ کی ظاہر خلافت کے زمانہ میں بصرہ میں آپ کی طرف سے عثمان بن حنیف وہاں کے گورنر منصوب تھے جب آپ کو اطلاع ملی کہ وہ ایک بڑی دعوت میں شریک ہوئے ہیںجس میںدولت مند مدعو کئے گئے تھے اور غریب انسان اس میں موجود نہیں تھے تو آپ نے ایک خط میں ان کو لکھا : کیا میرا نفس اس بات سے مطمئن ہوسکتا ہے کہ مجھے ''امیر المومنین'' کہا جائے اور میں زمانہ کے ناخوشگوار حالات میں مومنین کا شریک حال نہ بنوں اور معمولی زندگی کے استعمال میں ان کے واسطے نمونہ پیش نہ کرسکوں(١٠)؟۔

حضرت علی (علیہ السلام) معاشرہ Ú©ÛŒ مصلحت ØŒ عدالت Ú©Ùˆ جاری کرنے میںسمجھتے تھے اور عدالت Ú©Ùˆ بشریت Ú©Û’ چین Ùˆ سکون  کیلئے ضروری سمجھتے تھے اور عدالت Ú©Û’ ظرف Ú©Ùˆ وسیع اورظلم Ú©Û’ ظرف Ú©Ùˆ تنگ سمجھتے تھے Û” آپ فرماتے ہیں :  ''ان فی العدل سعة Ùˆ من ضاق علیہ العدل فالجور علیہ اضیق'' (١١) Û”

عدالت و انصاف میں بڑی وسعت پائی جاتی ہے اور جس کے لئے انصاف میں تنگی ہو اس کے لئے ظلم میں تو اور بھی تنگی ہوگی۔

شیعوں کی تعلیمات میں عدالت خواہی بہت وسیع امر ہے اور ائمہ علیہم السلام اس موضوع کو ضرورت کی نظر سے دیکھتے تھے ۔ امام سجادعلیہ السلام،دعائے مکارم الاخلاق کے ضمن میں خدا وند عالم سے عدل و عدالت کو وسیع طور پر طلب کرتے ہیں : ''والبسنی زینة المتقین فی بسط العدل(١٢) ۔

عدالت کو قائم کرنا اگر چہ ایک یا چند افراد کی طرف سے معاشرہ میں مطلوب ہوتا ہے لیکن معاشرہ میں وسیع طور پر اس کی قدر ومنزلت پائی جاتی ہے اسی وجہ سے امام سجاد(علیہ السلام) نے اس کی توفیق کی دعا کی ہے ۔

اسی طرح حضرت علی (علیہ السلام) Ù†Û’ جب ابن عباس Ú©ÛŒ جگہ زیاد بن ابیہ Ú©Ùˆ فارس اور اس Ú©Û’ اطراف پر قائم مقام بنادیا تو ان Ú©Ùˆ سفارش کرتے ہوئے فرمایا:  خبردار! عدل Ú©Ùˆ استعمال کرو اور بے جا دبائو اورظلم سے ہوشیار رہو کیونکہ فشار اور دبائو عوام Ú©Ùˆ غریب الوطنی پر آمادہ کردے گا اور ظلم تلوار اٹھانے پر مجبور کردے گا(١٣) Û”

 '' قد رکزت فیکم رایة الایمان، Ùˆ وقفتکم علی حدود الحلال Ùˆ الحرام والبستکم العافیة من عدلی، Ùˆ فرشتکم المعروف من قولی Ùˆ فعلی Ùˆ اریتکم کرائم الاخلاق من نفسی''Û”

کیا میں نے تمہارے درمیان ایمان کے پرچم کونصب نہیں کیا اور تمہیں حلال و حرام کی حدود سے آگاہ نہیں کیا، اپنے عدل کی بناء پر تمہیں لباس عافیت نہیں پہنایااوراپنے قول و فعل کی نیکیوں کو تمہارے درمیان رائج نہیں کیا ؟ اور تمہیں اپنے بلند ترین اخلاق کا منظر نہیں دکھایا؟ ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 next