علی (علیہ السلام) کوکس جرم کی وجہ سے قتل کیا گیا



حضرت امیر المومنین علی (علیہ السلام) کی ایک بیٹی نے بیت المال سے ایک گردن بند بطور عاریہ لے لیا جس کو کچھ دنوں بعد واپس کردیا ۔ حضرت علی (علیہ السلام) بیت المال کے خازن پر بہت نازاض ہوئے اور اپنی بیٹی کی طرف رخ کرکے فرمایا: جتنی بھی عورتیں مدینہ سے کوفہ آئی ہیں کیا ان سب کے پاس ایسا گردنبد ہے جو تمہیں اس کی ضرورت پڑی؟ اے بنت علی ، شیطان کو اپنے اوپر مسلط نہ ہونے دو (١٨) ۔

''Ùˆ ان عملک لیس Ù„Ú© بطعمة (مطعمة) Ùˆ لکنہ فی عنقک امانة ØŒ وانت مسترعی لمن فوقک'' Û”  یہ تمہارا منصب کوئی لقمہ نہیں ہے بلکہ تمہاری گردن پر امانت الہی ہے اور تم ایک بلند ہستی Ú©Û’ زیر نگرانی حفاظت پر مامور ہو(١٩) Û”

'' ان من احب عباد اللہ الیہ عبدا قد الزم نفسہ العدل'' ۔ اللہ کی نگاہ میں سب سے محبوب بندہ وہ ہے جس نے اپنے نفس کے لئے عدل کو لازم قرار دے لیا ہے ۔

میں جس وقت تمہارا حاکم بنا تو اس وقت میرے پاس چند درہم اور کچھ لباس تھے جس کو میری اہلیہ نے بنا تھا ،اب اگر میرا کام ختم ہونے کے بعد میرے پاس اس سے زیادہ ہو تو میں خائن ہوں اورمیں نے معاشرہ اور عوام سے خیانت کی ہے (٢١) ۔

حق و عدالت کے راستہ اختیار کرو ، عوام کو ناراض نہ کرو اور جو اشراف و سرمایہ دار اپنے وعدوں پر عمل نہیں کرتے اور امتیاز طلب ہیں ان کو اپنے سے دور کردو(٢٢) ۔

کبھی کبھی آپ کے مصلحت اندیش دوست آپ سے کہتے تھے کہ مصلحت کی وجہ سے عدالت اور مساوات کے موضوع سے چشم پوشی کرلو ،آپ ان کے جواب میں کہتے تھے : کیا تم مجھے اس بات پر آمادہ کرنا چاہتے ہو کہ میں جن رعایا کا ذمہ داربنایا گیا ہوں ان پر ظلم کرکے چند افراد کی کمک حاصل کرلوں ۔ کیا تم مجھ سے یہ چاہتے ہو کہ میں فتح و کامیابی کے لئے تبعیض اور ظلم کو اختیار کروں؟ کیا تم مجھ سے یہ چاہتے ہو کہ میں سیاست اور سیادت کی وجہ سے عدالت کو قربان کردوں؟ خدا کی قسم! جب تک یہ دنیا باقی ہے ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا (٢٣) ۔

'' واللہ لان ابیت علی حسک السعدان مسھدا ، او اجرفی الاغلال مصفدا، احب الی من ان القی اللہ و رسولہ یوم القیامة ظالما لبعض العباد و غاصبا لشئی من الحطام''۔

خدا گواہ ہے کہ میرے لئے سعدان کی خار دار جھاڑی پر جاگ کر رات گذار لینا یا زنجیروں میں قید ہو کر کھینچا جانا اس امر سے زیادہ عزیز ہے کہ میں روز قیامت پروردگار اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )سے اس عالم میں ملاقات کروں کہ کسی بندہ پر ظلم کرچکا ہوںیادنیا کے کسی معمولی مال کو غصب کیا ہو ۔

'' واللہ لقد رایت عقیلا و قد املق حتی استماحنی من برکم صاعا، و رایت صبیانہ شعث الشعور، غبر الالوان من فقرھم ، کانما سودت وجوھھم بالعظلم، و عاودنی موْکدا، و کرر علی القول مرددا، فاصغیت الیہ سمعی، فظن انی ابیعہ دینی، و اتبع قیادة مفارقا طریقتی، فاحمیت لہ حدیدة ، ثم ادنیتھا من جسمہ لیعتبر بھا، فضج ضجیج ذی دنف من المھا، و کاد ان یحترق (یخرق) من میسمھا، فقلت لہ: ثکلتک الثواکل یا عقیل ! اتین من حدیدة احماھا انسانھا للعبہ، و تجرنی الی نار سجرھا جبارھا لغضبہ! اتئن من الاذی و لاائن من لظی''؟!

خدا کی قسم میں نے عقیل کو خود دیکھا ہے کہ انہوں نے فقر و فاقہ کی بناء پر تمہارے حصہ گندم میں سے تین کیلو کا مطالبہ کیا تھا جب کہ ان کے بچوں کے بال غربت کی بناء پر پراکندہ ہوچکے تھے اور ان کے چہروں کے رنگ یوں بدل چکے تھے جیسے انہیں تیل چھڑک کر سیاہ بنایا گیا ہو اور انہوں نے مجھ سے بار بار تقاضا کیا اور مکرر اپنے مطالبہ کو دہرایا تو میں نے ان کی طرف کان دھر دئیے اور وہ یہ سمجھے کہ شاید میں دین بیچنے اور اپنے راستہ کو چھوڑ کر ان کے مطالبہ پر چلنے کے لئے تیار ہوگیا ہوں لیکن میں نے ان کے لئے لوہا گرم کرایا اور پھر ان کے جسم کے قریب لے گیا تاکہ اس سے عبرت حاصل کریں ، انہوں نے لوہا دیکھ کر یوں فریاد شروع کردی جیسے کوئی بیمار اپنے درد و الم سے فریاد کرتا ہو اور قریب تھا کہ ان کا جسم اس کے داع دینے سے جل جائے تو میں نے کہا رونے والیاں آپ کے غم میں روئیں اے عقیل! آپ اس لوہے سے فریاد کررہے ہیں جسے ایک انسان نے فقط ہنسی مذاق میں تپایا ہے اور مجھے اس آگ کی طرف کھینچ رہے ہیں جسے خدائے جبار نے اپنے غضب کی بنیاد پر بھڑکایا ہے، آپ اذیت سے فریاد کریں اور میں جہنم سے فریاد نہ کروں(٢٤) ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 next