علی (علیہ السلام) کوکس جرم کی وجہ سے قتل کیا گیا



حضرت علی (علیہ السلام) عدالت کو جاری کرنے میں مسامحہ سے کام لینے کو جائز نہیںسمجھتے تھے خصوصا جہاں پر بیت المال کی بات ہو ۔ ایک حاکم نے بیت المال میں سے بہت سا مال اپنے بعض رشتہ داروں کو بخش دیا تھا لہذا حضرت علی (علیہ السلام) اس کے متعلق فرماتے ہیں :

''واللہ لو وجدتہ قد تزوج بہ النساء ، وملک (تملک ) بہ الاماء ، لرددتہ ، فان فی العدل سعة و من ضاق علیہ العدل فالجور علیہ اضیق'' ۔

خدا کی قسم اگر میں کسی مال کو اس حالت میں پاتا کہ اسے عورت کا مہر بنادیا گیا ہے یا کنیز کی قیمت کے طور پر دیدیا گیا ہے تو بھی اسے واپس کرادیتا اس لئے کہ عدالت و انصاف میں بڑی وسعت پائی جاتی ہے اور جس کے لئے انصاف میں تنگی ہو اس کے لئے ظلم میں تو اور بھی تنگی ہوگی(١٤) ۔

اگر کسی معاشرہ میں یہ فکر غالب آجائے کہ عدالت کو ہر حال میں جاری کرنا ہے تو وہ معاشرہ خود بخود عدالت کو جاری کرے گااور لوگ خود بخود عدالت کو قائم کریں گے ۔ ایک روایت میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا:

''عدل ساعة خیر من عبادہ سبعین سنة'' (١٥) ۔ایک گھنٹہ کی عدالت ستر سال کی عبادت سے بہتر ہے ۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے کلام میں ذاتی عبادت کے مقابلہ میں عدالت کو قائم کرنے سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر معاشرہ میں عدالت رائج ہوجائے تو ستر سال کی عبادت سے ایک گھنٹہ کی عدالت بہتراور برتر ہے ۔

معاشرہ میں عدالت کا ہونا فقط انسانوں کے متدین ہونے کے لئے ضروری نہیں ہے بلکہ حکومت بھی عدالت کے ذریعہ سے قائم و دائم رہتی ہے :

حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں :  '' فی العدل الاقتداء بسنہ اللہ Ùˆ ثبات الدول'' (١٦) Û” عدالت Ú©Ùˆ جاری کرنے میں صرف سنت الہی نہیں Ú†Ú¾Ù¾ÛŒ ہوئی ہے بلکہ حکومت بھی عدالت Ú©Ùˆ جاری کرنے Ú©Û’ ذریعہ قائم ہے Û”

نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ایک حدیث میں بیان ہوا ہے : حکومت کفر کے ساتھ باقی رہ سکتی ہے لیکن ظلم کے ساتھ کبھی باقی نہیں رہ سکتی (١٧) ۔

حضرت علی (علیہ السلام) کی عدالت خواہی کے نمونے



back 1 2 3 4 5 6 7 next