دینی نظام میں قوانین کامقام



میں اس مسئلہ کی صراحت کی ھے ، اسی طرح دوسرے تمام مقامات پر بھی قرآن کی صریح نص موجود ھے

لھٰذا اسلام کے ضروری احکام ثابت کر دیئے گئے ھیں اور اب ھمارے لئے یہ ضروری نھیں کہ ھم پھر سے انھیں سمجھیں اور ایک ایک کو ثابت کریں ، اس بناپر اگر یہ ثابت ھو گیا کہ اسلام جس کی بنیاد قرآن پر ھے وہ خدا کی جانب سے آیا ھے اور حق ھے تو یہ قبول کر یں کہ جو کچھ بھی قرآن میں ھے وہ حق ھے اور قرآن ایک طرح کے محکم ، قطعی اور ضروری امور پر مشتمل ، البتہ کچھ آیتوں کی مختلف تفسیریں ھونا ممکن ھےں ،لیکن ایک آیت سے صرف دو مختلف تفسیروںکا وجود اس بات کی غمازی نھیں کرتا کہ قرآن سے کسی ثابت اور قطعی امور کا استنباط نھیں ھو سکتااور ھر شخص جو چاھے اس سے درک کرے.

اگر کوئی شخص عربی زبان سے واقف ھے اورقرآن کی طرف مراجعہ کرے تو وہ قرآن سے ایک ایسے مطلب کو درک کرسکتا ھے کہ جو انسان کے مختلف ادراکات سے کوئی ربط نہ رکھتا ھو،اور نہ ھی اس کا گذشتہ افکار و مسلمات سے کوئی رابطہ ھو ، اور نہ ھی ھمارے ان قوانین کے تابع ھو جن کو ھم علوم سے درک کرتے ھیں مثلاًقرآن کی ایک آیةھے جو ھمیں نماز کا حکم دیتی ھے یا ایک ایسی آیت ھے جو چور کے ھاتہ کاٹنے کا حکم دیتی ھے وہ شخص جو کسی زمانے میں عناصرچھار گانہ ، ساتوں آسمان کا معتقد تھاآیت سے وھی سمجہ رھا تھاجو آج” انیشٹن“ کی نسبت کی تھیوری کے بعد سمجہ رھاھے اوراستنباط کر رھا ھے اور یہ نھیں کھاجا سکتا کہ آج انیشٹن کی نسبت کی تھیوری پائی جارھی ھے لھٰذاآیت کے معنی بدل گئے ،ممکن ھے کہ ایسی آیت ھو جس کے کلمات لغات میں تبدیل اور دوسرے علمی مسائل سے مربوط ھوں ،لیکن کچھ مطالب ایسے ھیں جن کا سمجھنا دوسرے مختلف علوم سے مربوط نھیں ھے اور فطری طور سے ان میں تبدیلی کا شبہ بھی نھیں پایاجاتا.

 

5.قرآن کریم کے ثابت اور قطعی احکام ومفاھیم

ھم یہ بیان کر چکے ھیں کہ اسلام میں ایک طرح کے ضروری احکام موجود ھیں جو کہ ثابت ھیں خواہ کوئی مسلمان ھو نہ ھو یہ جانتاھے کہ اسلام میں کچھ ضروری مسائل ھیں،اسی طریقہ سے ایک طرح کے قطعی مفاھیم قرآن سے بھی استنباط ھوتے ھیں چاھے کوئی قرآن کو قبول کرے یانہ کرے ،وہ قرآن سے ان مطالب کو درک کرتاھے اور ان مطالب کا سمجھنا عربی سے واقفیت پر موقوف ھے ، اس کے مسلمان ھونے پرنھیں، ھماری گفتگوان چیزوں کے بارے میں ھے جو کسی اعتبار سے قابل تغییرنھیںھیںاور نظریات کے اختلاف اور ادراک کے اختلاف کے باوجود اس کے معنی اور مفھوم اپنی جگہ پر ثابت اور قطعی اور قابل اعتراض ھیں مثلاًجملہ(اٴَقِیْمُوْا الصَّلاٰةَ.)(2)

کے معنی نمازکے واجب ھونے کے ھیں اور جملہ(کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامَ.)(3)کے معنی روزہ کے واجب ھونے کے ھیں ،چاھے جیسی علمی تھیوریاں ایجاد ھوں اور اس میں تجدید نظر ھو لیکن قرآن کے فھم و ادراک میں تبدیلی نھیں آئے گی اس کے احکام اپنی جگہ پر مسلم ھیں، جس وقت ھم دین کی ضروری مسائل کے بارے میں گفتگو کرتے ھیں ان کو یقینی ،مستحکم ناقابل تبدیل سمجھتے ھیں کیونکہ ان کو اسلام کے اصلی اور قطعی منابع یعنی قرآن اور احادیث سے حاصل کیاگیا ھے اور جو لوگ ضروریات دین کے منکر ھیں اور لمبی چوڑی باتیں کرتے ھیں کہ اسلام سے مستحکم اور یقینی اصول نھیں سمجھاجاسکتا،تویا تووہ مسئلہ میں شبہ کے شکار اور جاھل ھیں یا تعصب کرتے ھیں اوراسلام پر ایمان نھیں رکھتے ھیں،بلکہ مسلمانوں سے کھیلتے ھیں .

اس میں کوئی شک نھیں کہ اسلام کی سیاسی حکمت عملی ثابت اصول اور ضروریات میں سے ایک یہ ھے کہ قانون خداکی طرف سے بنے اور جو لوگ قانون الھی ٰکے منکرھو گئے ھیں در اصل وہ ضروریات دین کے منکرھیں جس طریقہ سے قرآن کریم سے نمازپڑھنے کے وجوب کو سمجھاجاتاھے،زناکار مرد اورزناکار عورت کا حکم سمجھاجاتاھے اور جتنی صراحت کے ساتھ قرآن میں نمازو روزہ کا حکم ثابت ھے اتنی ھی صراحت کے ساتھ پیغمبرکی اطاعت بھی واجب ھے اور شریعت اسلام میںپیغمبر کے مقام کو ”مفترض الطاعة“کے عنوان سے پھچاناگیاھے . خداوندعالم اس بارے میں فرماتاھے:

(یَااٴَیُّھَا الَّذِیْنَ ءَ امَنُوْا اٴَطِیْعُوْا اللّٰہ وَاٴَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاٴَوْلِی الاٴمْرِ مِنْکُمْ.)(4)

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 next