غیبت کا فلسفہ



تقریبا قرآن مجید میں یہ اسم ۸۰دفعہ سے زائد آیا ہے مثلا ان اللہ عزیز حکیم (بقرہ ۲۷)وھو الحکیم الخبیر (انعام ۱۸)واللہ علیم حکیم (انفعال ۷۱)اور ہم فرشتوں کی زبانی سنتے ہیں کہ قالوا سبحانک لاعلم لنا الا ما علمتنا انک انت العلیم الحکیم (بقرہ ۳۲)۔ ۔ ۔ ۔ ۔

چونکہ اللہ تعالی ان آیات کی بنا پر حکیم ہے اور حکیم ہمیشہ بغیر مقصد کے کام نہیں کرتا لہذا یہ تمام حوادث اور واقعات جو اس کے حکم کی بنا پر متحقق ہوتے ہیں یقینا ان کا کوئی نہ کوئی ھدف ہے اگرچہ یہ فعل کا ھدف ہے نہ کہ فاعل کا ھدف۔

ہمارے معارف دینی اور فلسفہ الھی میں فعل کے ھدف اور فاعل کے ھدف کے درمیان ایک گہرے فرق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اس طرح کہ اللہ تعالی کا اپنا ھدف و مقصد نہیں ہے چونکہ وہ غنی اور بے نیاز ہے اور کمال مطلق ہے اس کی ذات ہر قسم کی کمی اور نقص سے خالی ہے جیسا کہ رجب دعا میں پڑھتے ہیں جو امام زمانہ سے ان کے دوسرے نائب جناب محمد بن عثمان رضوان اللہ علیہ کے ذریعہ ہم تک پہنچی کہ امام فرماتے ہیں: یافاقد کل مفقود (مفاتیح الجنان ص ۲۳۲)وہ کسی بھی ھدف و مقصد تک پہنچنے کے لئے کام نہیں کرتا کیونکہ وہ کامل و اکمل ذات پہلے ہی سے غنی ہے ان اللہ لغنی عن العالمین (عنکبوت ۶۰) لیکن اللہ تعالی کے افعال باھدف ہیں بالالفاظ دیگر یہاں دو چیزیں ہیں:

(الف) اللہ تعالی کا اپنا ذاتی کوئی ھدف نہیں چونکہ لغنی عن العالمین ہے

(ب) اس کی حکمت کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ جو فعل بھی انجام دے وہ فعل ھدف کے ساتھ ہو، تو اللہ تعالی جس موجود کو بھی حیات سے نوازا تو اسے اس کی تخلیق کے ھدف کی طرف ھدایت دی، حکیم سبزواری رحمۃ اللہ کے بقول اذ مقتضی الحکمۃ والعنایۃ ایصال کل ممکن لغایۃ اللہ تعالی کی حکمت و عنایت کا تقاضا یہ تھا کہ یہ موجود ممکن کو اس کی تخلیق کے ھدف و مقصد کی طرف رہنمائی کرے ۔

اللہ تعالی کے اوامر و نواھی میں بھی یہی چیز ہے کہ یہ سب فرامین حکمت و مصلحت کی بنیاد پر ہیں، یہ سب مصلحتیں لوگوں کے لئے ہیں ان کا فرض ہے کہ ان مصلحتوں اور اھداف کو پہچانیں اگرپہچانیں گے تو ان بندوں کا فائدہ ہے نہ پہچانیں گے تو ان کا نقصان ہے ورنہ اللہ تو اس فائدہ اور نقصان سے منزہ ہے، امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کا مسئلہ جو کہ اسلام کے اہم اور پچیدہ مسائل میں سے ہے اور اس غیبت کے لئے حکمت اور مصلحت ہے جو کہ خود امام اور ان کے پیروکاروں کے ساتھ تعلق رکھتی ہے یہ کہ یہ مصلحت کامل طور پر ہمیں کیوں نہیں معلوم اس حوالے سے توجہ رکھنی چاہئے کہ کائنات میں بہت سے حقائق ہیں جو ابھی تک مجہول ہیں یا ایسے واقعات و حادثات رونما ہوتے ہیں کہ ہم ان کی حقیقت سے بے خبر ہیں، اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہمارا علم نہایت ہی محدود ہے اور ان سب مجہولات کو روشن کرنے پر قادر نہیں جیسا کہ پروردگار نے فرمایا: اوتیتم من العلم الا قلیلا (اسراء ۵۷)

البتہ ہوسکتا ہے کہ اس لاعلمی اور بے خبری میں بھی حکمت ہو اور اس کا معلوم ہونا ہمارے لئے بہتر نہ ہو، امام زمانہ کی غیبت کا مسئلہ بھی شاید انہی چیزوں کی مانند ہے کیونکہ ابھی تک اس کی تمام تر جہات ہمیں معلوم نہ ہوسکیں یہ ایک راز ہے اللہ اور امام مہدی کے درمیان کہ خود امام مہدی سر اور اسم اعظم ہیں کہ جن کا دل پروردگار علیم و حکیم کی تجلی گاہ ہے۔

ہم امام زمانہ کی زمانہ غیبت میں دعا پڑھتے ہیں اللھم فصبرنی علی ذلک حتی لا احب تعجیل ما اخرت ولا تاثیر ما عجلت ولا کشف ما سترت ولا عما کتمت ولا انا زعک علی تدبیرک ولا اقول :لم و کیف ومابال ولی الامر لا یظھر ؟ وقد امتلات الارض من الجور و افوض اموری کلھا الیک ، اے ہمارے پروردگار مجھے حضرت کی غیبت کی اس مصیبت عظیم پر صبر کرنے کی توفیق عطا کر، تاکہ میں جہاں تو نے تاخیر کی وہاں جلدی اور جہاں تو نے جلدی کی وہاں تاخیر نہ چاہوں اور جسے تو نے چھپایا اسے ظاھر کرنا اور جسے تو نے پنہاں کیا اسے ڈھونڈنا نہ چاہوں اور نہ تیری تدبیر میں تجھ سے نزاع کروں اور نہ کہوں کہ کیوں اور کیسے یوں ہوا؟ اور زبان پر اعتراض جاری نہ کروں کہ ولی امر اور صاحب فرمان خدا ظاھر نہیں ہوتے حالانکہ زمین ظلم و ستم سے لبریز ہوچکی ہے، اے پروردگار توفیق دے کہ تیرے ارادہ و مشیت کے سامنے سرتسلیم خم کروں اور سب امور تجھ پر چھوڑ دوں۔

عن عبد اللہ بن الفضل الھاشمی قال: سمعت الصادق جعفر بن محمد علیہ السلام یقول ان لصاحب ھذا الامر غیبۃ لابدمنھا یرتاب فیھا کل مبطل فقلت لہ و لم جعلت فداک ؟ قال لامر لم یوذن لنا فی کشفہ لکم (المہدی مرحوم صدر ص ۱۶۸)

امام صادق علی السلام نے فرمایا امام مہدی کے لئے یقینا غیبت ہے یعنی اللہ تعالی کی طرف سے طے ہوچکا ہے کہ وہ ایک طویل عرصہ تک غیب رہیں ایسی غیبت ہوگی کہ یہ باطل پسند متردد ہوجائے گا راوی نے پوچھا : اس کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا کہ یہ ایک ایسا راز ہے کہ جس کے ظاھر کرنے کا حکم نہیں دیا گیا لہذا ضروری ہے کہ روز موعود تک یہ راز مخفی رہے۔



back 1 2 3 4 next