غیبت کا فلسفہ



(۲)آپ کی جان کی حفاظت:

تاکہ ائمہ علیھم السلام کا یہ آخری فرد زندہ رہے اور مناسب حالات میں اللہ تعالی کے عہد کو پورا کرنے کے لئے قیام کرے، اگریہ غیبت کا مسئلہ پیش نہ آتا تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ اور ائمہ علیھم السلام کی پشین گوئیوں کے مطابق کہ انہوں نے فرمایا تھا امام مہدی قیام کریں گے اور ظلم و بے انصافی کو مٹا دیں گے اور شرک و کفر و نفاق کے نمونوں کو ذلت سے خاک میں ملا دیں گے تو اس نے زمانہ کے طاغوت اور ظالم حکمران طبقہ آپ کو شہید کردیتے ،اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا لابد للغلام من غیبۃ فقیل لہ و لم یا رسول اللہ ؟ قال یخاف القتل،میرا بیٹا مہدی ضرور غائب ہوگا پوچھا گیا وہ کیوں غائب ہوں گےتو آپ نے فرمایا: قتل کے خوف سے،

(۳)مومنین کی آزمائش اور ان کا خالص کیا جانا:

پیغمبروں کی بعثت سے لیکر اب تک ایک سنت الھی لوگوں کو امتحان و آزمایش میں ڈالنا ہے جیسا کہ پروردگار قرآن مجید میں فرماتا ہے : وما کان اللہ لیذر المومنین علی ما انتم علیہ حتی یمیز الخبیث من الطیب (آل عمران ص ۱۷۹)

پروردگار ایسا نہیں ہے کہ مومنین کو اس حال میں کہ جیسے تم ہو چھوڑ دے (بلکہ ان کی ضرور آزمایش کرے گا) تاکہ نجس کو پاک سے جدا کیا جائے پروردگار کی آغاز دین سے یہی سنت جاری ہے اور جاری رہے گی حتی یمیز الخبیث من الطیب تاکہ وہ دنیا سے لو لگائے مادیت میں غرق ہوکر آلودہ لوگوں کو خیر و آخرت کی طرف سبقت کرنے والے پاکیزہ لوگوں سے جدا کرے۔

امام مہدی علیہ السلام کہ جنہوں نے اپنے جانثاروں کے ساتھ مل کر جہان میں ایسی بڑی بڑی تبدیلیاں لانی ہیں کہ اقوام عالم کو ظلم و ستم کی زنجیروں سے آزاد کرکے جہان عدل و حق میں لانا ہے تو ضروری ہے کہ آپ اور آپ کے جانثاروں کو اتنی بڑی آزمایش غیبت اور اس زمانہ غیبت میں اسلامی وظائف ادا کرنا کا سامنا کرنا پڑے تاکہ امام زمانہ کی فوج میں شامل ہوکر اتنے بڑے امور انجام دینے کے لئے پاکیزہ لوگ تیار ہوکر آئیں ۔

ہم اگر غور کریں تو قرآن نے انتہائی شفاف انداز سے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے اس سے ہم بہتر طریقے سے اس الھی سنت کو اور اس کے پس پردہ نورانی مقاصد کو سمجھ سکتے ہیں، پروردگار فرماتا ہے و تلک الایام نداولھابین الناس ولیعلم اللہ الذین امنوا یتخذمنکم شھداء واللہ لایحب الظالمین و لیمحض اللہ الذین امنوا و یمحق الکافرین (آل عمران آیت ۱۴۰، ۱۴۱)

اور ہم تو زمانے کو لوگوں کے درمیان الٹتے پلٹتے رہتے ہیں تاکہ اللہ صاحب ایمان کو دیکھ لے اور تم میں سے بعض کو شہداء قرار دے اور وہ ظالمین کو پسند نہیں کرتا اور اللہ صاحبان ایمان کو چھانٹ کر الگ کرنا چاہتا ہے اور کافروں کو مٹا دینا چاہتا ہے ۔

اگرچہ ہر دن انسان کو لئے امتحان ہے، لیکن غیبت کبری کا زمانہ مومنین کے لئے بہت بڑی آزمائش ہے کہ جو ا پنے امام کے عشق و بابصیرت ایمان کے ساتھ بہت بڑی عدالت کے تحقق کے لئے انتظار کررہے ہیں اور یہ حق و ایمان کے عاشقوں کو معلوم ہے کہ یہ انتظار کس قدر ھمت و حوصلہ کا کام ہے اور ایک مقام پر پروردگار فرماتا ہے الم احسب الناس ان یقولوا امنا وھم لایفتنون ولقد فتنا الذین من قبلھم فلیعلمن اللہ الذین صدقوا و لیعلمن الکاذبین (عنکبوت آیات ۱ تا ۳)

آیا لوگ سمجھتے ہیں کہ امنا و صدقنا کہنے سے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے گا بغیر اس کے کہ انہیں فتنوں میں آزمایا جائے ؟ ہر گز نہیں ہم نے تو پچھلی امتوں کو بھی آزمایا تھا کہ اللہ تعالی ضرور پہچان لے ان لوگوں کو جنہوں نے سچ کہا اور ضرور پہچان لے گا جھوٹے لوگوں کو۔



back 1 2 3 4 next